سیٹھ کلچر میں “اصول و قانون” کا کیا کام؟


سیٹھ کلچر میں اصول قانون اور اخلاق کا کیا کام؟ گو کہ یہ جملہ ایک منجھے ہوئے مقامی سرمایہ دار نے اپنی قائم کردہ بڑی بڑی ملز کی حدود کے قوانین بارے ادا کیا۔ لیکن حقیقت میں دنیا میں امیر و غریب ممالک میں بعین ہی نظر آتا ہے۔

سرمایے کی طاقت و اہمیت سے مفر ممکن نہیں۔ سرمایہ کار کی بڑائی اور جیت سے بھی انکار نہیں۔ سرمایہ کی ریاست میں نظام تنفس کی حیثیت سے بھی بے خبری نہیں۔ بلکہ ان سب سے بڑھ کر سرمایے کی خدائی صفات ماننے میں بھی عار نہیں۔

فارسی کا ایک شعر ہے۔

اے زر تو خدا نئی، و لیکن بخدا
قاضی الحاجاتی و ستار العیوبی
(اے زر، تو خدا نہیں، لیکن خدا کی قسم تو ضرورتوں کو پورا کرنیوالا اور عیبوں کو چھپانے والا ہے )

سرمایے کی نفسیات ہے کہ جہاں خوف محسوس کرتا ہے وہاں پاؤں نہیں دھرتا۔ غیر یقینی صورت حال سے دوچار ممالک میں غیر ملکی سرمائے کی آمد پیچھے غیر معمولی مفادات مضمر ہوتے ہیں۔

ناجائز منافع خور سرمایہ داروں کے لئے پاکستان جیسے ملک کسی جنت سے کم نہیں۔ جہاں کارکنان کو سہولتیں فراہم کرنے کا رواج ہی نہیں۔ جہاں حکومت کی مقرر کردہ کم سے کم بنیادی تنخواہ کی ادائیگی بھی ادارے ضروری خیال نہ کرتے ہوں۔ تو ایسے میں اوور ٹائم کی ادائیگی کا کیا سوال؟ وہاں کارکنان کی صحت، تعلیم، آلودگی، دیگر معاوضوں کی ادائیگیوں بارے بات ہی بے معنی۔ بلکہ الٹا حکومت کی جانب سے صنعتی اداروں کی مالی اعانت کی جاتی ہو۔ بجلی و گیس رعایتی نرخوں پر فراہم کی جاتی ہو۔ ایسی جنت کے عادی سرمایہ دار پھر کسی کو بھی خاطر میں کیوں لائیں؟

اگرچہ حکومت نے کارکنان کی سہولت کے لئے ادارے قائم کررکھے ہیں۔ سوشل سیکورٹی ہسپتال، سوشل سیکورٹی سکول، اولڈ ایج بینیفٹ جیسی سہولیات، جہیز فنڈ، لیبر کورٹ و دیگر ادارے قائم کررکھے ہیں۔ لیکن شومئی قسمت یہ سب کسی ورکرز کے حصہ میں آتا ہو۔ اوّل تو دو ہزار کارکنان سے کام لینے والا ادارہ بمشکل تین سے چار سو کی تعداد کو سہولیات کے لئے درج کرواتا ہے۔ زیادہ تر ٹھیکیداری نظام کے تحت مزدور بے چارے کام کرتے ہیں۔ جن کا کوئی والی وارث نہیں بنتا۔ نہ سرمایہ دار اور نہ ہی حکومت۔ اداروں سے ساز باز کرکے سرمایہ دار اپنے وسائل اور پیداوار کا اصل کبھی سامنے نہیں لاتے۔ مقامی سرمایہ داروں نے محکموں کی پیچیدگیوں کے حل نکال لئے ہوئے ہیں۔

لائلپور میں قائم ٹیکسٹائل انڈسٹری جہاں ایک چھوٹے سے چھوٹے صنعتی ادارے کی ماہانہ پیداوار پچیس سے تیس لاکھ میٹرز اور درمیانے درجے کے صنعتی ادارے پچاس سے ساٹھ لاکھ میٹرز کپڑا ماہانہ پروسیس کرکے مارکیٹ یا سٹاک میں رکھتے ہیں۔ اداروں سے ساز باز کرکے یہ پیداوار ایک چوتھائی سے بھی کم دکھائی جاتی ہے۔ ایف بی آر عموماً جنوری فروری میں ٹیکسٹائلز ملز میں چھاپے مارنے کا کام بڑی مستعدی سے کرتا نظر آتا ہے۔ جب گرمیوں کے موسم لان مارکیٹ میں بھیجنے کے لئے ادارے سٹاک رکھ رہے ہوتے ہیں۔

پھر بھاری رشوت کے عوض معاملہ ٹھیک کرلیا جاتا ہے۔ رشوت کا ریٹ بڑھانے کے پیمانے و مہارت بھی کھل کر سامنے آتے ہیں۔ پھر پیداوار کا حساب RPM کی بنیاد اور نقل و حمل کی دستاویزات بھی اداروں کے پاس موجود ہوتی ہیں۔ جیسے ہی معاملہ آپس میں طے پاتا ہے تو حکومت کے حصے میں وہی سابقہ ادائیگی ہی آتی ہے۔ سرمایہ دار رشوت کے چور دروازوں سے حکومتوں اور مزدوروں کی جیب پر ڈاکہ ڈالتے ہوں۔ جہاں ادارے اپنی جیب گرم رکھنے کے لئے افسوس ملک کو گروی رکھوانا جائز سمجھتے ہوں۔ جہاں یکسر ملک کے تمام ادارے ہی کرپٹ ہوں۔ تمام عناصر سرمایہ دار کی طاقت اور منافع خوب ترقی دیتے ہوں۔ وہاں ٹیکس ادائیگی کا کلچر پیدا نہیں ہوتا۔

ایسے میں مروجہ طریقوں کے برعکس سرمایہ داروں سے وصولیاں کوئی آسان ہدف نہیں۔ موجودہ حکومت کے اقدامات لوگوں کو ٹیکس نیٹ میں لانا اور نان رجسٹرڈ خریداروں کا دستاویزی ثبوت کا حصول بلاشبہہ قابل تعریف عمل ہیں۔ لیکن سرمائے کی اہمیت اور طاقت کے آگے ٹھہرنا شاید کسی کے بس کی بات نہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).