مارچ، اپنے ہونے کا احساس


اگر یہ کہا جائے کہ ہر ادارہ ( سویلین) اپنی من مرضی کر رہا ہے تو غلط نہ ہو گا۔ اگرچہ حکومت کی طرف سے اس پر تشویش ظاہر کی جا رہی ہے مگر عوام اسے مورد الزام ٹھہرا رہے ہیں اور اسے اس کی انتظامی کمزوری قرار دے رہے ہیں۔ لہٰذا اس وقت زندگی معمول کے مطابق نہیں گزر رہی، ہر طرف ایک بے چینی سی پھیلی ہوئی ہے بلکہ ہا ہا کار مچی ہوئی ہے۔

دھوکا دہی کی وارداتیں ہوں یا پولیس کی زیادتیاں عام ہیں۔ رشوت خوروں نے گویا اودھم مچا رکھا ہے وہ دھڑلے سے غریب عوام کی جیبوں پر شب خون مارتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ تجاوزات والوں کی جانب بھی متعلقہ ادارے آنکھ اٹھا کر نہیں دیکھتے مہنگائی و قبضہ مافیا سکون کے ساتھ اپنے ”مشن“ کی تکمیل میں مصروف ہے۔ کس کس شعبے کا نام گنوایا جائے سبھی تو عوام کو دُکھ دے رہے ہیں مگر اس سے بھی زیادہ تکلیف دہ بات یہ ہے کہ اہل زر پر کوئی آنچ نہیں آئی وہ پہلے کی طرح آرام سے رہ رہا ہے اسے قانون پوچھتا ہے نہ کوئی اور وہ کوئی جُرم بھی کرتا ہے تو آزاد ماحول میں ہی سانس لیتا ہے اور غریب ہیں کہ آنسو بہا رہے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ وایتی نظام کے مخافظوں نے ایکا کر لیا ہے کہ عمران خان کی حکومت کو نہیں چلنے دینا اُسے ہر حالت میں چلتا کرنا ہے سو ایسا ہو رہا ہے۔

اس میں جہاں حزب اختلاف شامل ہے اور سہل پسندو آرام طلب بیورو کریسی بھی وہ بھی لوگ جو شریک اقتدار ہیں مگر ان کا کام روایتی طرز حکمرانی کو تبدیل ہونے سے روکنا ہے لہٰذا یہ سب مل کر حکومت کی راہ میں کانٹے بکھیر رہے ہیں۔ عمران خان کو یہ بات تشویش میں مبتلا کر دیتی ہے کہ اگر وہ عوام سے کیے ہوئے وعدے پورے نہیں کر سکے تو کل ان کو کون پوچھے گا اور وہ جذباتی تقریریں ان سے متعلق کیا تاثر دیں گی۔

بہر حال ان کے چاروں طرف ایک ان دیکھا جال پھینکا جا چکا ہے۔ روایتی فکر انہیں کامیاب نہیں دیکھنا چاہتی لہٰذا ایک طرف ادارے بپھرے ہوئے ہیں تو دوسری جانب سیاست نے آسمان سر پر اٹھا رکھا ہے۔ جیسا کہ مولانا فضل الرحمن نے دس لاکھ بندے لا کر عمران خان کو گھر بھجوانے کا، منصوبہ، بنا رکھا ہے انہیں غم یہی ہے کہ وہ اقتدار میں کیوں نہیں۔ اب انہیں عیش و آرام میسر کیوں نہیں جو ہمیشہ حاصل ہوتا تھا۔ آگے چل کر بھی ان کا تذکرہ ہو گا مگر یہاں اداروں میں سے ایک ادارے پولیس کا ذکر کرنا چاہوں گا کہ اس نے اپنے روایتی کلچر کو بر قرار رکھنے کا عندیہ دیا ہے یعنی جو اصلاحات حکومت کرنا چاہ رہی ہے وہ نہیں ہو سکتیں جن میں سے چند یہاں پیش کروں گا۔

1 ) شہریوں کی شکایات کے ازالہ کے لیے پولیس کمپلینٹ اتھارٹی قائم کی جائے گی جو کسی بھی کیس میں پولیس کے مبینہ اور غیر مناسب رویہ کی چھان بین کرے گا۔

2 ) یہ اتھارٹی ایک ریٹائرڈ پولیس افسر، ایک قانون دان، سرکاری وکیل استغاثہ اور ایک سرکاری افسر پر مشتمل ہو گی جو شہریوں کے مسائل اور شکایات پر ازخود کارروائی کر سکے گی۔

3 ) ایک ڈیمو کریٹک احتساب کمیٹی بھی بنائی جائے گی جو وزیر اعلیٰ سیکرٹریٹ کے ما تحت کام کرے گی جن میں ایک کنویئر سمیت تین یا چار صوبائی وزراء، چیف سیکرٹری، سیکرٹری داخلہ، ایڈیشنل آئی جی، سپیشل برانچ، جوائنٹ ڈائریکٹر آئی جی اور آئی جی پولیس شامل ہوں گے۔

4 ) حکومت جواز پیش کر کے کسی بھی پولیس افسر کا قبل از وقت تبادلہ کر سکے گی۔

اب ہم سیاستدانوں اور سیاسی جماعتوں کے طرز فکر کو دیکھتے ہیں، اس وقت جتنی بھی بڑی جماعتیں ہیں سب کی خواہش ہے کہ کسی طرح حکومت کا خاتمہ ہو۔ نئے انتخابات ہوں اور وہ مل کر اقتدار میں آ جائیں ایسا وہ اس لیے سوچتی ہیں کہ ان کو احتساب کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ انہوں نے جو جائز نا جائز ذرائع سے دولت کے انبار لگائے ان کا حساب دینا پڑ رہا ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ وہ کچھ دینے کو تیار ہے مگر مسلم لیگ ( ن ) مسلسل انحراف کر رہی ہے وہ کسی احتساب کو تسلیم نہیں کرتی اور نہ ہی یہ مانتی ہے کہ اس نے کسی بد عنوانی کا ارتکاب کیا مگر آصف علی زرداری سیانے ہیں وہ طاقتور افراد سے الجھنا نہیں چاہتے اور مستقبل کی پارٹی سیاست کو بچانے کی حکمت عملی اختیار کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔

وہ دور اندیش سیاستدان ہیں جبکہ میاں نواز شریف میں ”میں“ کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے اس لیے ہی آج مبینہ طور سے مسلم لیگ دو حصوں میں منقسم ہے ایک حصہ مارچ کے ساتھ ہے اور دوسرا نہیں ہے۔ کہنے والے تو کہتے ہیں شہباز شریف مارچ سے دور بھاگ رہے ہیں اور چاہتے ہیں کہ ان کا نام اس حوالے سے نہ پکارا جائے۔ دونوں جماعتیں اس لیے بھی مارچ کا ساتھ کھل کر نہیں دے رہیں کہ اگر کوئی انہونی ہو جاتی ہے تو ہو کہاں کھڑے ہوں گے۔

لہٰذا وہ ہر قدم پھونک پھونک کر اٹھانا چاہتے ہیں۔ مگر جناب فضل الرحمن نے تو ڈنکے کی چوٹ پر کہہ دیا ہے کہ وہ حکومت کا خاتمہ کرنے نکلے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا ایسا ہو سکتا ہے۔ عمران خان نے ایسا کیا کر دیا کہ جو ان کی واپسی پر منتج ہو ظاہری طور سے تو کچھ ایسا دکھائی نہیں دے رہا۔ تمام سٹیک ہولڈر ایک صفحے پر نظر آتے ہیں۔ اُدھر آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک تک ان سے خوش ہیں کہ انہوں نے جو شرائط رکھیں ان پر من و عن عمل ہوا لہٰذا موجودہ حکومت خوب ہے تو پھر کیوں عمران خان گھر جائیں گے؟

جاوید خیالوی کے مطابق اگر وہ گھر جاتے ہیں تو پھر ان کے سیاسی مخالف اپنے گھروں کو نہیں سرکاری گھروں میں ہوں گے کیونکہ ملک میں افراتفری کا ماحول کسی بھی طور مناسب نہیں۔ سرحدی خطرات بڑھ سکتے ہیں۔ لہٰذا موجودہ صورت حال کو بر قرار رہنا ہے اسے کچھ نہیں ہو گا!

بہر کیف حکومت کو چاہیے کہ وہ انقلابی اقدامات اٹھائے اصلاحات سامنے لائے عوام کو اعتماد میں لے۔ اگر اصلاحاتی پروگرام کو متعلقہ ادارے نا کام بنانے کی کوشش کرتے ہیں تو کم از کم عوام کے علم میں تو یہ بات ہو گی کہ حکومت نے تو اپنے تئیں کوشش کی مگر روایتی فکر نے اس کا راستہ مسدور کر دیا۔ اس سے وہ عوامی حمایت سے محروم نہیں ہو گی۔

حرف آخر یہ کہ مارچ آگے بڑھے گا تو بقول شیخ رشید اسے ڈینگی کا خطرہ ہے شاید وہ اس مقام پر کوئی بڑا سا تالاب بنا کر تازہ پانی چھوڑنے کا ارادہ رکھتے ہیں کہ وہاں ڈینگی مچھر کی افزائش ہو گی جو احتجاجیوں پر ٹوٹ پڑیں گے اور انہیں بخار میں مبتلا کر دیں گے یوں کچھ نہیں ہو گا کسی کے ساتھ بھی کچھ نہیں ہونا چاہیے سب محب الوطن ہیں!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).