ایک مکمل جھوٹی کہانی


آپ نے بہت سی سچی کہانیوں کو پڑھا ہوگا ڈرامے اور فلمیں بھی دیکھی ہوں گی لیکن کیونکہ جب میں نے یہ کہانی سنی تو مجھے بھی مکمل جھوٹی لگی اس لئے اس کو آپ بھی اس کو ایک جھوٹی کہانی سمجھ کے پڑھیں اور صرف چائے کا کپ ختم کرنے کا بہانہ سمجھیں۔

یہ کہانی مجھے ایک تقریباً نوے سال کے بوڑھے نے سنائی ہے اس کے مطابق وہ یہ کہانی کئی ہم عمر لوگوں کو سنا چکا ہے لیکن کوئی بھی اس کی کہانی کو سچا نہی مان رہا اس بوڑھے کے مطابق اس کو مرتے دم تک یہ کہانی سناتے رہنا ہے اس کے خیال میں یہ کہانی بہت اہم ہے۔

بوڑھے کے مطابق وہ ایک گاؤں میں پیدا ہوا جو پاکستان کے ایک پسماندہ علاقے میں واقع تھا گاؤں میں اس وقت تقریباً تین ہزار گھر تھے اور یہ ایک بڑا گاؤں تھا گاؤں کی ساری زمین گاؤں کے چوہدری نام تھی یہ زمین بھی ہزاروں ایکڑ پر مشتمل تھی نہری بارانی زمینی پانی کی فراوانی تھی ہر طرح کے پھل پھول فصلیں بکثرت پیدا ہوتی تھی اس کے مطابق ہوش سنبھالنے کے وقت سے اس کو یہی بتایا گیا کے اس گاؤں میں حکم صرف چوہدری کا چلتا ہے گاؤں کے سب لوگ اس کی زمینوں پر کام کرتے اور اس کے بدلے ان کو چوہدری اپنی مرضی سے کچھ نا کچھ اناج دے دیتا۔

جوان ہونے پر اس نے بھی زمینوں پر کام شروع کردیا اور اپنے ہم عمر دوست بھی بنا لئے شعور کے پختہ ہونے کے ساتھ ساتھ اس کو چیزیں سمجھ نہی آرہی تھیں وہ دیکھ رہا تھا کے گاؤں کا چوہدری اکیلا ہزاروں ایکڑ زمین کا مالک ہے اب گاؤں کی آبادی بیس ہزار تک پہنچ چکی تھی لیکن سب کے سب چوہدری کے ملازم ہی تھے چوہدری نے تقریباً دو سو طاقتور نوجوان اپنے محافظ کے طور پر رکھے ہوئے تھے یہ محافظ چوہدری کے ہر حکم کو مانتے تھے چوہدری نے ان محافظوں کو ان کے اپنے گھر والوں سے بھی علیحدہ ایک حویلی میں رکھا ہوا تھا ان کو اچھا کھانا پینا دیا جاتا بہترین اسلحہ دیا گیا تھا اور ان کو کچھ بھی کرنے کی آزادی تھی یہ بس چوہدری کی بات سنتے اور مانتے تھے چوہدری نے وقت بدلنے کے ساتھ گاؤں میں ایک سکول کالج فیکٹری ہسپتال بھی بنا دیا تھا لیکن یہ سب بھی چوہدری کی ہی ملکیت میں تھا آبادی بڑھنے کے ساتھ اور نوجوان نسل کے پڑھنے لکھنے کی وجہ اور جدید فون آنے سے اب نوجوان نسل میں بھی وہ سوال اٹھ رہے تھے جو اس بوڑھے نے اپنی جوانی میں سوچے لیکن ان کا جواب اس کو نہی مل سکا۔

یہ نوجوان اب آپس میں بات کرتے تھے کیونکہ بہت سے زیادہ پڑھے لکھے لوگ اب کھل کے یہ بات کر رہے تھے کے اتنی ساری زمین کا چوہدری اکیلا مالک کیسے ہو سکتا ہے کس نے دی ہے یہ زمین اس کو یہ لوگ پوچھتے تھے کے چوہدری کے یہ محافظ گاؤں کے لوگوں سے غنڈہ گردی کیوں کرتے ہیں۔

چوہدری کے گھر زمینوں اس کے سکول کالج ہسپتال میں کام کرنے والی لڑکیوں کو جنسی زیادتی کا نشانہ کیوں بنایا جاتا ہے چوہدری اور اس کی اولاد کے ہاتھوں برباد ہونے والی لڑکیوں کے ماں باپ بہن بھائی خاموش کیوں رہتے ہیں یہ لوگ چوہدری کی اپنی بنائی ہوئی پنچایت میں ہی کیوں شکایت کرتے ہیں یہ نوجوان دیکھ رہے تھے کے عوام میں دو طبقے ابھر رہے تھے ایک وہ چھوٹا سا طبقہ جو چوہدری اور اس کے محافظوں کو ہر قیمت پر خوش کرکے اچھا کھانا پینا چاہتا تھا جبکہ دوسرا بڑا طبقہ تلملا رہا تھا کے ہر تقریباً ہر گھر کی عزت کسی نا کسی بہانے سے روندی جارہی تھی اور سب گھروں کی کہانی ایک جیسی تھی جو خود اپنی عزت بیچ رہے تھے وہ خوش تھے لیکن جو اپنی عزتوں کے لٹنے پر تڑپتے تھے ان پر چوہدری کے محافظ مزید ظلم کرتے تھے۔

بہت سارے لوگ گاؤں کی عوام کو سمجھا رہے تھے کے عوام کو چوہدری کے خلاف اٹھ کھڑا ہونا چاھئے لیکن عوام جدید اسلحہ کی ہولناکیاں دیکھ چکے تھے ان کو ڈر مرنے سے ڈر لگتا تھا ایسے میں چوہدری کو اگر تھوڑا بہت ڈر تھا تو وہ بس گاؤں کے مولوی سے تھا جس کے شاگردوں میں وقت کے ساتھ بہت اظافہ ہوچکا تھا اور یہ شاگرد مولوی کے کہنے پر کچھ بھی کر دیتے تھے مولوی کے کچھ شاگردوں نے نہتے ہاتھوں چوہدری کے محافظوں سے لڑ کے ان کا اسلحہ چھین کے اپنی دھاک بٹھا دی تھی یہ شاگرد مرنے سے نہیں ڈرتے تھے اس لئے چوہدری نے باقاعدگی سے مولوی کو چندہ بھیجنا شروع کردیا تھا اور مولوی کی دوسری ضروریات کا بھی خیال رکھتا تھا۔

اصل مسئلہ تب بنا جب ایک سمجھدار نوجوان نے چپکے چپکے چوہدری کے محافظوں سے میل ملاقات شروع کردی اور وہ ان محافظوں کو یہ سمجھانے میں کامیاب ہوگیا کے گاؤں کی زمین اور گاؤں کی ٹوٹل آمدن کتنی ہے جو ساری کی ساری چوہدری کے پاس جارہی ہے جبکہ گاؤں کے سارے باسی کسی نا کسی طور ان محافظوں کے رشتہ دار ہی ہیں اور چوہدری کس ہشیاری سے ان کے ہاتھوں ان کی اپنی ہی بہو بیٹیوں کی عزتوں سے کھیل رہا ہے اس نوجوان نے دو تین سال کی محنت سے ان محافظوں کو یہ باور کروا ہی دیا کے ساری کی ساری طاقت یہ محافظ ہی ہیں اور اگر یہ محافظ چوہدری سے چھٹکارا پانے میں کامیاب ہوجائیں تو گاؤں کی آمدن اتنی ہے کے ان محافظوں کو ان کے موجودہ ماہانہ معاوضہ سے کہیں زیادہ معاوضہ مل سکتا ہے اور یہ معاوضہ ان کو ظلم کے بدلے نہیں بلکہ ان کی ڈیوٹی کے بدلے ملے گا جس کا ان کو ثواب بھی ہوگا

نتیجے میں ایک دن گاؤں والوں کو پتا چلا کے چوہدری کو اس کے تمام خاندان سمیت اسی کے محافظوں نے قتل کردیا ہے اور گاؤں کی ساری زمین سب گاؤں والوں میں برابر تقسیم کردی گئی ہے اور یہ طے کیا گیا ہے کے چوہدری کے محافظ اب پورے گاؤں کے محافظ ہوں گے اور پورا گاؤں ان محافظوں کی عزت کرے گا ان کی ضروریات کو پورا کرے گا پنچایت اب گاؤں کے پڑھے لکھے ایماندار افراد پر مشتمل ہوگی جس کو پورا گاؤں خود چنے گا کسی بھی بھی قسم کی زیادتی کرنے والے کو سخت سزا دی جائے گی۔

 مجھے تو یہ کہانی مکمل جھوٹی لگی ہے لیکن یہ کہانی لگی مجھے بہت دلفریب اس لئے سوچا آپ کے ساتھ بھی شیئر کرتا چلوں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).