لنگر اور جعلی قائد اعظم ہونے کے سائیڈ ایفیکٹس


خبر ہے کے کہ پنجاب بیت المال غریب اور نادار مریضوں کے علاج کے لئے ہسپتالوں کو فنڈ جاری نہیں کر رہی۔

خبر ہے کہ پاکستان خصوصاً پنجاب کے نادار اور مفلوک الحال جگر اور کڈنی مریضوں کو فری یا انتہائی سستا علاج کے لئے pkli کا تحفہ دینے والے ڈاکٹر سعید اختر عظیم ترین وطن کو خیر بات کہہ کر امریکہ چلے گئے حالانکہ کچھ عرصہ قبل سپریم کورٹ نے ان کو تمام الزامات سے بری کرکے مکمل اختیارات کے ساتھ ان کے عہدے پر بحال کیا تھا لیکن ریاست مدینہ کے قیام کوشاں ان مؤمنین کے سامنے سپریم کورٹ کے احکامات کی کیا مجال؟

خیر ملک عزیز میں اس طرح کی خبریں تو آئے دن ہمارا دل لبھاتی ہی رہتی اور اب کچھ زیادہ ہی اس لیے سننے کو مل رہی ہے کہ جس طرح سے فلسفہ کے بارے، ماواراءالعلم٬ کا دعویٰ کیا جاتاہے بالکل اسی طرح حادثاتی تبدیلیوں کے بعد کے فیصلے بھی ماورائے علم وحکمت ہی ہوتے ہیں بس دونوں کے لفظ وراء کے معنی میں معمولی سا فرق پایا جاتا ہے۔

لیکن جس خبر نے دماغ کی شیطانی گھنٹہ بجائی اور مجھے نام نہاد قائد اعظم ہونے کے سائڈ ایفیکٹس سمجھائے وہ قائد اعظم ثانی کی لنگر خانہ اسکیم کی افتتاح والی خبر ہے۔

ہوا یہ کہ ایک دینی مدرسے سے سند فراغت حاصل کرنے کے بعد بندہ کو کسی مدرسہ نے درس و تدریس کے قابل نہ جانا (وجوہات جو بھی ہو) تو مجبوراً ایدھی فاؤنڈیشن میں بحیثیت رضا کار بھرتی ہوا اور یہی دل لگ گیا۔ یہاں ایدھی ہوم سہراب گوٹھ کے کارگو سیکشن میں ایک بزرگ ڈرائیور جنہیں ان کی ذہانت، علمی قابلیت، بے باک گفتگو، اور قائد اعظم رحمۃ اللہ علیہ کے ساتھ جسمانی مشابہت کے بناء پر قائد اعظم بابا کا نام دیا گیا تھا۔

ان کی اضافی خصوصیت ہیرا پھیری کی بے پناہ صلاحیت تھی۔ اپنی اس خصوصی  پر ان کو اتنا ناز تھا کہ وہ سینٹر انچارج کو تڑی دے کر کہتا کہ ابے میں دل کھول کر دو نمبری کرتا ہوں۔ ہمت ہے تو پکڑ کر دکھا اور جس دن تم نے پکڑا اسی دن اپنی صفائی میں کچھ کہے بغیر چابی جمع کرادوں گا۔ اور واقعی ان کی ہیراپھیریوں کو پکڑنا مشکل نہیں ناممکن تھا لیکن ایک دن چاچا قائدِ اعظم پکڑ میں آہی گئے۔

کیسے؟ یہ بڑا دلچسپ واقعہ ہے۔

ایک دن مجھ ملنے آئے تو پوچھ ہی لیا کہ تم پکڑے گئے؟ یہ کیسے ممکن ہے؟

کہا بس بیٹا مت ماری گئی تھی سینٹر سے وائرلیس پر پیغام آیا کہ فلاں جگہ سے لنگر کے لئے ایک عدد لے کر آنا ہے اب میں جب وہاں پہنچا تو پہلے پہل ہی بکرا دیکھ کر منہ سے رال ٹپکی۔

گھر کا پلا ہوا لائل پوری ( فیصل آبادی) بکرا،

میں اسے لے کر حسن سکوائر والی بکرا پیڑی لے گیا وہاں ایک بیوپاری سے اس کے بدلے صدقے والا لاغر بکرا اور اوپر کے سات، آٹھ ہزار روپے پکڑے اور خوشی خوشی سینٹر جاکر بکرا جمع کروادیا۔ اب کس کو پتہ کہ ڈونیٹ کرنے والوں مجھے کون سا بکرا دیا ہے؟

لیکن میری شامت یہاں آئی کہ وہ بکرا اس بیوپاری سے ڈونیٹ کرنے والے کے پڑوسی نے خرید لیا وہ بندہ جب نماز پڑھنے گیا تو اس نے دیکھا کہ اس کا بکرا جو اس نے ایدھی فاؤنڈیشن کو ڈونیٹ کیا تھا وہ اس کے گھر کے قریب ہی بندھا ہوا میں میں چلا رہا ہے۔

بس پھر کیا اس شخص سمیت سینٹر کے تمام افراد کو معلوم پڑگیا کہ بکرے کے ساتھ کون سا کھیل کھیلا گیا ہے۔

چاچا قائدِ اعظم کی کشتی تو لنگر کے بکرے کی وجہ سے ڈوبی کہی ایسا نہ ہو کہ لنگر کے یہ بکرے ہمارے یوتھ کے قائد اعظم ثانی کے زوال کا باعث بن جائے۔

استغفر اللہ استغفر اللہ میرے توہمات


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).