لالچی کتا


تین دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک تھا کتا، کئی دن سے بھوکا، بھوک اسے ایسے ہی ستا رہی تھی جیسے ہمارے لیڈروں کو اقتدار کی بھوک ستاتی ہے، پہلے تو اس نے پاکستانی عوام کی طرح بہت صبر کیا لیکن آخر کب تک؟ جب بھوک حد سے زیادہ بڑھی تو خوراک کی تلاش میں نکل کھڑاہوا، بالکل ایسے ہی جیسے الیکشن کے بعد ہم اپنے نمائندوں کی تلاش میں نکلتے ہیں، راستے میں دو انسان لڑتے نظر آئے، اس نے سوچا کہ شکر ہے کہ ”لڑنے“ والا کام اب انسان کرنے لگے ہیں، ایک لمحہ کھڑا ہوالیکن پھر عافیت اسی میں جانی کہ سرجھکا کر آگے نکلا جائے، اس کا بھوک اور پیاس سے برا حال تھا، آخرکار اسے قصائی کی دکان نظرآئی۔

دکان تک پہنچتے پہنچتے اس کا حال ایسے ہوگیا جیسے پہلی تاریخ آتے آتے ملازمین کا ہوجاتا ہے، دکان کے سامنے جا کروہ تھڑے اس طرح بیٹھ گیا جیسے عوام کسی دفترکے سامنے جا کر بیٹھتی ہے، پہلے تو قصائی نے حکمرانوں کی طرح اس کی طرف کوئی توجہ نہ کی بلکہ الٹا اسے بھگانے کی کوشش کی لیکن کتابھی کافی سوشل اور ایکٹیوسٹ واقع ہواتھا، اس نے مشرف کی طرح بیماری کا بہانہ بناکر لوٹنیاں لگانا شروع کردیں، اوپرسے چند ایک گاہکوں نے میڈیا کی طرح اس پر توجہ دینی شروع کی تو قصائی نے حاتم طائی کی قبر پر لات مارتے ہوئے ایک چھیچھڑا اس کی طرف اچھال ہی دیا، لیکن کتے نے اس چھیچھڑے کوایسے دیکھاجیسے آج کابھکاری، دس روپے کی بھیک کو دیکھتاہے، قصائی کو اپنے کاروبار کی ساکھ کاخیال آیا، اس نے اوجھڑی کا ایک ٹکڑا اٹھا کر اس کے سامنے پھینک دیا، لیکن کتے نے ایسے منہ بنایا جیسے کم بخشیش ملنے پرکسی وکیل کا منشی یا پولیس والابناتاہے، یہ دیکھ کر قصائی کوحیرت تو ہوئی لیکن اس نے اٹھ کر وہ ٹکڑا اٹھایا اور صاف کر کے دوبارہ گوشت میں رکھ دیا۔

بھوک کے مارے کتے کی آنتیں ”ا، ب، پ، ت“ پڑھنے لگیں، اچانک دکان میں دوتین بلیاں آگئیں، ان کو دیکھ کر قصائی نے ڈنڈا اٹھایا اور انہیں بھگانے کی کوشش کرنے لگامگر بے سود، جب کتے نے قصائی کو اپنے مقصد میں ناکام ہوتے دیکھا تو لندن والی سرکار کی طرح اپنی خدمات پیش کرنے کا ارادہ کیا، اس نے بھی ہمت جمع کی اور سریلی آواز میں بلیوں کو گھورا، جب بلیاں بھاگ گئیں تو کتے نے ایک بار پھرگوشت کوایسے دیکھاجیسے کرکٹ ٹیم میچ ہار کر کپ کو دیکھتی ہے۔

یہ دیکھ کرقصائی کی آنکھوں میں آنسوآگئے بالکل پاکستانی ڈرامے کی کسی دکھیا سین کی طرح، اس نے ایک اچھی بوٹی اٹھائی اور کتے کی طرف اچھال دی بالکل ایسے ہی جیسے ایک ناراض گرل فرینڈ استعمال شدہ تحفے اپنے محبوب کی طرف اچھالتی ہے، اس نے بوٹی دیکھی تو اس کی باچھیں یوں کھل اٹھیں جیسے ہمارے حکمرانوں کی اس وقت کھلتی ہیں جب انہیں آئی ایم ایف کا قرضہ ملتاہے، اتنے میں ایک گاہک آگیا جس کے ہاتھ میں گوشت تھا اور وہ اس کے باسی ہونے کا شکوہ کررہاتھا، پہلے تووہ عوامی زبان میں بات کرتے رہے لیکن جب جھگڑاحد سے بڑاتو دونوں خالص پارلیمانی زبان استعمال کرنے لگے، کتے نے ایک بارپھر سوچاکہ قصائی کی مددکرکے ایک اور بوٹی حاصل کی جائے لیکن پھراس خالص انسانی سوچ کو جھٹک دیا، بوٹی اٹھائی اورفخر سے یوں دریا کی طرف چل پڑاجیسے لائن میں کھڑے کسی پینشنر کو پینشن مل جائے۔

جب وہ دریا پر پہنچاتو اسے اپنے ایک پرکھے کی کہانی یاد آگئی، جس نے دریا میں اپنا عکس دیکھ کرچھلانگ لگا دی تھی اوریوں اس کا جسم تو دھلا ہی تھا لیکن بوٹی سے بھی ہاتھ دھوبیٹھاتھا، پہلے تو اس نے سوچاکہ دریا کی طرف جائے ہی نہ جائے، لیکن پھر ایک خیال آیا کہ آج موقع ہے کہ پرکھوں پر لگے روشن خیالی کے اس داغ کو مٹانے کا، جب وہ پل پر پہنچا تو اس نے نیچے جھانک کر اپنا عکس دیکھنا چاہالیکن اونچائی دیکھ کر اس کی حالت ویسی ہی ہوگئی جیسے کسی نوجوان کی اپنی تصویر پرصرف تین لائیک دیکھ کر ہوتی ہے۔

پانی اتنا صاف تھا جیسے پاکستان میں عوام کے لیے پینے کا ہوتا ہے، بڑی مشکل سے اسے اپنا عکس نظر آیا، اس نے اپنی شکل دیکھی تو اسے مایوسی نے یوں آن گھیراجیسے کسی لڑکی کی پوسٹ کولڑکے گھیر لیتے ہیں، تھوڑی دیر بعد اس نے دیکھا کہ پانی میں ہلچل ہوئی ہے، غورکیاتو پتاچلاکہ یہ اس کا عکس نہیں تھا بلکہ ایک ڈڈوتھا جو اپنا منہ پانی سے نکال کر اسے دیکھ رہاتھا۔

یہ دیکھ کر کتا یوں خوش ہوا جیسے ہمارے بیٹسمین کیچ ڈراپ ہونے پر ہوتے ہیں، اس نے صاف پانی ڈھونڈا اور وہاں اپنی شکل دیکھی، اپنی شکل دیکھ کراس کی شکل ایسے ہوگئی جیسے بغیر میک اپ سیلفی لیتے ہوئے کسی آنٹی کی ہوجاتی ہے، بہرحال اس نے تمام خیالوں سے جان چھڑائی اور اپنامشن یادکرنے لگا، مشن کا خیال آیا تو اس نے بوٹی کی طرف توجہ دی اور یہ دیکھ کر اس کی جان ہی نکل گئی کہ یہ بوٹی بکرے کی نہیں بلکہ اس کے اپنے ہی کسی پیٹی بھائی کی تھی۔

یہ دیکھ کر اس نے خودکشی کا پروگرام بنایالیکن پھر خیال آیا کہ اگرکسی چینل والے نے دیکھ لیا تو پچھلی پیڑھی کی طرح اس کی اگلی پیڑھی کی عزت بھی خاک میں مل جائے گی، یہ سوچ کراس نے ارادہ ترک کیا، پیچھے پلٹا اور گھسٹتاہوا قصائی کی دکان پر پہنچا اور بوٹی اٹھاکراس کے منہ پر یوں ماری جیسے کسی سرکاری دفتر میں عوام کی عرضیاں اٹھاکر ان کے منہ پر ماری جاتی ہیں، پہلے تو قصائی یوں حیران ہوا جیسے ہماری ”یوتھ“ چالان کرنے کافیصلہ واپس لینے پرہوتی ہے لیکن پھروہ خوش ہوا، اپنی جگہ سے اٹھا، بوٹی اٹھائی اور اسے دھوکر دوبارہ گوشت میں رکھ دیا۔

اب کتے پر شدید غیرت ”طاری“ ہوچکی تھی اور اس کا وہی حال تھا جو ماہرہ خان کی تصویر دیکھ کر ہمارے نوجوانوں کا ہوتاہے، وہ واپس نہرکے پل پرآیا، چھلانگ لگائی اورخودکشی کر کے حرام موت کوگلے لگالیا، قصائی کوجب پتا چلا تو اس نے فیصلہ کیا کہ اس غیرت مند کتے کی لاش کی بے حرمتی نہیں ہونی چاہیے، اس نے اس کی لاش کو ڈھونڈا، صاف کیا اورٹھکانے لگانے کا انتظام کرنے لگا، خفیہ والوں کے مطابق اس غیرت مند کتے کا گوشت قصائی کی دکان پربہت اہتمام سے رکھا ہے۔ کتے کی یہ عزت افزائی دیکھ کر سنا ہے مینڈک بھی کوئی پروگرام بنانے لگے ہیں۔ اللہ خیر کرے!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).