لنگر خانہ


ہم نے لنگر لنگر کی رٹ لگا کر اپنی بھڑاس تو نکال لی ہے۔ مگر ہمیں شاید اس پروگرام کی الف ب بھی نہیں پتا۔بھوک بہت تلخ حقیقت ہے۔ خوراک کی کمی کا شکار زندگی کو بس گزار دیتا ہے جب کہ پیٹ بھرے لوگ ہر عیاشی کرتے اور ضرورت سے زیادہ کھا کر ہاضمے کی گولیاں ڈھونڈھتے پائے جاتے ہیں۔

مجھے اس پروگرام کے مستقل شروع کرنے اور ٹائمنگ پر اعتراض ہے۔ دیکھیں بھوکے کو کھانا کھلانا بہت خوبصورت اور پسندیدہ عمل ہے مگر خود کو بھوکے کی جگہ تصور کرکے دیکھیں کہ اگر کوئی آپ کو اس وجہ سے کھلا رہا ہے کہ آپ بالکل اس جیسے انسان ہوتے ہوئے اس قابل نہیں کہ محنت کرکے اپنا رزق حاصل کر سکیں۔ تو ذرا محسوس کریں آپ کیا محسوس کر رہے ہوں گے؟ آپ بظاہر کھانا کھا رہے ہوں گے مگر ساتھ اپنے آنسو پی پی کر.

ان تمام عوامل اور اس معاشرے کے شرمناک حد تک بڑھے ہوئے تضاد کی وجوہات کا خاتمہ کرتی ہے ریاست۔

ریاست اپنے شہریوں کی عزت نفس کے لیے دنیا سے ٹکر لے لیتی ہے۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ سینکڑوں ٹن ایک وقت کا کھانا جہاں ضائع کرنے والے اور سردیوں میں ہزاروں کا خشک میوہ کھا جانے والے انسانوں کے معاشرے میں۔

دوسری طرف لاکھوں گھروں میں روٹی گن کر پکائی جاتی ہے اور ایک روٹی سے زیادہ کی اجازت شاید کبھی مل جاتی ہو۔ اور چند لاکھ ایک ٹائم پیٹ بھرتے اور شام کو لنگر جاتے ہیں۔ ایک وقت آتا ہے آپ کی عزت نفس لقمہ لقمہ ہو کر آپ کے معدے میں اتر چکی ہوتی ہے۔ اب آپ غلام ہیں کس کے؟ کھانا کھلانے والے کے۔

بے لوث اور کسی بدلے یا ثواب سے بلند صرف والدین کھلاتے ہیں لیکن جب آپ بالغ ہو جاتے ہیں تو خود ہی آزاد اور خود مختار ہونے کے لیے پر تولنا شروع کر دیتے ہیں والدین کو احسان کیے بغیر محبتوں سے پالنے والے ہم میں سے کتنے ہیں؟ لیکن جو ہیں ان کو بھی میں بہت قریب سے جانتا ہوں۔

دعویٰ پارسائی اتنا بلند کہ دنیا ہماری نظروں میں ہیچ ہے اور ہم پارسائی کے گمان میں دھت انسان کی عزت نفس کو بھی لفظوں کی مرہم پٹیاں کرتے ہیں، خیرات خانے کو مقدس لفظ لنگر سے ڈھانپ کر اس نگوڑی کا گلہ گھونٹ دینے کے مرض کا شکار ہیں۔

آپ تبدیلی کا نعرہ لے کر آئے تھے۔ کیا پلان دیا ہے آپ نے اب تک روز ایک نیا لطیفہ اور مذاق کیا یہی تبدیلی ہے کہ آپ اب روٹی کمانے کی صلاحیت چھین کر یا سب کمایا چھین کر مانگ کر روٹی کھانے پر مجبور کر رہے ہیں۔

آپ لنگر کھولتے لیکن ساتھ اعلان فرماتے کہ اٹھارہ ماہ بعد لنگر سے کھانا کھانے والے برسرروزگار ہوں گے۔ یا کوئی دو ٹھوس منصوبے ہی ساتھ دے دیتے کہ تب تک جب تک ہم پوری قوم کو اللہ کا حبیب نا بنا دیں اس وقت تک کھانے کا انتظام حکومت کرے گی۔

آپ بے روز گار نوجوانوں اور عورتوں کو اسی فنڈ سے ہر علاقے میں ایک پچاس کرسیوں کا ہوٹل بنا دیتے اسی ہوٹل میں محلے کی۔ پڑھی لکھی بچیوں اور نوجوانوں کو ملازمت دینے کا منصوبہ بناتے اس منصوبے میں شامل ہونے کے خواہش مند نوجوانوں کو اچھے خوش اخلاق ویٹر شیف مینجر ان کی قابلیت کے حساب سے ٹرینڈ کرتے اور بہت معمولی منافع کی صورت میں ایک کارڈ کا اجراء کردیتے کہ ایک مہینے کے تین وقت کے کھانے کا کارڈ خریدیں بے شک روزانہ ادائیگی کا طریقہ رکھ کر منافع ان نوجوانوں میں ان کی قابلیت کے بحساب تقسیم کردیتے کہ یہ ہے آپ کی سیلری۔ اسی منصوبے سے آپ کے پچیس فیصد نوجوان کھپ سکتے تھے۔ صفائی اور صحت عامہ کے اصولوں پر مبنی کھانے کے جدید ریسٹورینٹ جن میں ملک بھر میں ایک ہی مینیو ہوتا ناشتہ کی شفٹ علیحدہ۔ لنچ کے ٹائم پر دوسری کھیپ اور رات کو بقیا نوجوان یا ہنر مند مرد و خواتین

پولٹری والے منصوبے کو اس سے نتھی کرتے بجائے مرغی انڈے دینے کے ہر گاؤں میں ایک شاندار پولٹری فارم بناتے اس کی صفائی ستھرائی پانی خوراک انڈوں کی کلیکشن پر محلے کی خواتین کو لگاتے مرد مرغیوں اور انڈوں کی ترسیل میں لگاتے تحصیل ہیڈ کوارٹر میں یہ انڈے اور مرغی کو جمع کروا کر اس کی منافع کی رقم گاؤں کی خواتین اور نوجوان لوگوں کو تنخواہ کے طور پر دی جاتی اور آپ شاید انڈے اور گوشت انہی ہوٹلوں پر سپلائی کر رہے ہوتے آنے والے وقت میں یہ ایکسپورٹ بھی ہونا شروع ہوجاتی تو حکومت کے پاس آمدنی کا وسیلہ پیدا ہوجاتا۔ مگر نہیں ہم نے سوچنا نہیں بس لفظوں بینروں نعروں اور تقریروں کی مار دینی ہے۔

آخر میں ایک چینی کہاوت کہ بھوکے کو مچھلی مت دو اسے مچھلی پکڑنا سکھا دو۔عزت نفس فرد سے شروع کرو گے تو معاشرے میں آئے گی ورنہ چل تو سب پہلے بھی رہا ہے۔ چلنے دو بابا


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).