پنکھے والی بلی


\"omairٹریفک سگنل پر رکے ہی تھے کہ کھلونے بیچنے والے لڑکے پر نظر پڑی۔ تب منا کھیل تو نہیں سکتا تھا، لیکن کھلونے دیکھ کر خوش ضرور ہوتا تھا۔ ایک بلی پسند آئی۔ سر پر پنکھا لگا تھا، پیروں کی جگہ پہیے۔ پنکھے میں سرخ رنگ کی چھوٹی سی لائٹ نصب تھی۔ دھاگا کھینچ کر چھوڑو تو پنکھا گھومتا اور لائٹ بھی جلتی۔ سو روپے میں وہ بلی خرید لی۔ منے کو کھلونا پسند آیا سو آیا ہمیں بھی اس سے کھیلنے کی لت پڑ گئی۔ دھاگا کھینچ کر چھوڑتے تو ننھی لائٹ پنکھے کے ساتھ ساتھ گھومتی۔ سرخ رنگ کا دائرہ سا کھنچ جاتا۔ منا بھی روتے روتے چپ ہو جاتا اور حیرت سے تکنے لگتا۔ ہم خود بلی بنانے والوں کی کاریگری پر حیران ہوتے۔ سراغ لگانے کی کوشش کرتے کہ پنکھا گھومتے ہی لائٹ کیسے جلتی ہے؟ معلوم ہوا سرکٹ سا بنا ہے۔ درمیان میں چھوٹا سیل ہے۔ اس کے ساتھ سپرنگ لگا ہے۔ پنکھا گھومتا ہے تو سپرنگ ٹرمینل کے دوسرے حصہ سے ٹکراتا ہے۔ یوں سرکٹ مکمل ہوتا ہے اور روشنی جلنے لگتی ہے۔

اب منا کھلونوں سے کچھ کچھ کھیلنے لگا تھا۔ سفید بھالو، پیلی بطخ، سبز ہاتھی وغیرہ۔ ایک پورا چڑیا گھر موجود لیکن زیادہ دلچسپی پنکھے والی بلی میں ہی لیتا۔ خود سے دھاگا کھینچنے کی کوشش کرتا، کبھی کامیاب بھی ہو جاتا تو قلقاریاں مارتا۔ پنکھا منہ میں دبوچ لیتا۔

پھر وہی ہوا جو کھلونوں کے ساتھ ہوتا ہے۔ پہلے پنکھے اور اوپر لگا پلاسٹک کا رنگین شیشہ ٹوٹا۔ پھر سیل بھی اپنی توانائی کھو بیٹھے۔ دھاگا کھینچے پر پنکھا تو گھومتا لیکن روشنی جلتی نہ سرخ رنگ کا دائرہ کھنچتا۔

اتنی دیر میں ہم نے دھاگا کھینچنے سے چلنے والے کئی اور کھلونے خرید لیے تھے۔ ایک اونٹ تھا۔ دھاگا چھوڑو تو بھاگ پڑتا۔ پنکھے والی بلی دسترس میں تو رہتی تھی، آوارہ مزاج اونٹ منے کو خاص پسند نہ آیا۔

ایک شفاف سی مچھلی تھی۔ اس میں بھی روشنی لگی تھی۔ دھاگا چھوڑنے پر بھاگتی۔ پکڑے رکھو تو بھی روشنی ضرور بکھیرتی۔ یہ جلد ہی خراب ہو گئی۔ منا اب بھی پنکھے والی بلی کو ہی پسند کرتا، لیکن روشنی نہ ہونے کی وجہ سے وہ لطف نہ رہا تھا۔

ایک روز شاپنگ مال میں کھلونوں کی دکان پر ہمیں ویسے ہی بلی نظر آئی۔ وہی مسکراہٹ، بھرے بھرے چہرے پر باریک باریک مونچھوں کی لکیریں۔ سر پر پنکھا، پنکھے میں لائٹ۔ دھاگا کھینچو تو پنکھا گھومے اور سرخ رنگ کا دائرہ سا کھنچ جائے۔ سیلز مین سے پوچھا، بھئی یہ پنکھے والی بلی کتنے کی ہے؟ وہ کہنے لگا، سریہ بلی نہیں، ڈورے مون ہے۔ پانچ سو روپے کا ہے۔

ہم خالی ہاتھ واپس آ گئے۔

عمیر محمود

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عمیر محمود

عمیر محمود ایک خبری ٹیلی وژن چینل سے وابستہ ہیں، اور جو کچھ کرتے ہیں اسے صحافت کہنے پر مصر ہیں۔ ایک جید صحافی کی طرح اپنی رائے کو ہی حرف آخر سمجھتے ہیں۔ اپنی سنانے میں زیادہ اور دوسروں کی سننے میں کم دلچسپی رکھتے ہیں۔ عمیر محمود نوک جوک کے عنوان سے ایک بلاگ سائٹ بھی چلا رہے ہیں

omair-mahmood has 47 posts and counting.See all posts by omair-mahmood

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments