رشتے دار اور ہمارا تعلیمی نظام


آپ اکثر اپنے رشتہ داروں کو برا بھلا کہتے ہوں گے۔ مگر اس بات کا مجھے قطعی افسوس نہیں ہوتا کہ آپ کس کو برا کہہ رہے ہیں کیونکہ ایسی باتیں کبھی یک طرفہ نہیں ہوتیں۔ تعلیمی نظام میں بھی رشتہ دار کہاں سے آ گئے؟ اس بات پہ حیرت تو ہوتی ہے مگر اصل بات اس سے بھی حیران کن ہے۔

اگر کوئی شخص آپ کو 6 مختلف ٹاسک دیے اور کہے کہ آپ نے ان ٹاسک کو ایک سال کی مدت میں پورا کرنا ہے۔ مگر ان ٹاسک کو کرنے کے بعد اگر دوبارہ زندگی میں کبھی بھی کچھ بھی ایسے ٹاسک کے متعلق کہے تو آپ کے لیے اس چیز کو دوبارہ کرنا مشکل ہو گا یا آسان؟

چلیں ایک اور مثال سے سمجھتے ہیں۔ ایک بچہ چلنا سیکھتا ہے۔ کئی مرتبہ گرتا ہے۔ اب اس نے چلنا سیکھ لیا ہے تو کیا وہ دوبارہ اسی طرح سے گرے گا جس طرح پہلی مرتبہ چلتے ہوئے گرتا تھا۔ یہ دونوں مثالیں ہمارے ذہین میں آتے ہی ہم کہے گئے کہ پہلی مرتبہ ایک کام کو سرانجام دینا مشکل ہوتا ہے۔ مگر دوسری مرتبہ وہی کام بالکل آسان ہوتا ہے۔

مگر یہاں ایک چیز ایسی بھی ہے کہ دوسری مرتبہ زیادہ مشکل ہو جاتی ہے حالانکہ اس بات پہ حیرانی ہے کہ پہلی مرتبہ 100 فی صد حد تک اسے درست کیا گیا ہوتا ہے۔ وہ چیز کیا ہے؟ اور ایسا کیوں ہو رہا ہے اس کو سمجھنے کی تھوڑی کوشش کرے گئے؟

گوجرنوالہ بورڈ اور دوسرے تعلیمی بورڈ کے رزلٹ دیکھیں؟

ایک بچہ جس نے ٹاپ کیا ہے اس نے کتنے نمبر حاصل کیے ہیں؟

جی ہاں 85 % نہیں، 89 % بھی نہیں، 95 % بھی نہیں بلکہ 99.9 %

حیرت نہیں ہوئی کہ اتنے نمبرز کیسے آتے ہیں؟ اردو، انگش اور دوسرے مضامین میں ایک طالبعلم کوئی ایسی غلطی ہی نہیں کرتا کہ اس کے نمبرز کم کیے جائے؟

تو ہم طالبعلم کو کیا بنانے میں کامیاب ہوئے ایک ڈیٹا سٹوریج ڈیوایئس (ڈیٹا کو محفوظ کرنے والی مشین)۔ اس میں قصور کس کا ہے جتنا قصور تعلیمی نظام کا ہے اس سے زیادہ قصور ان والدین کا بھی ہے جو بچے کو نمبر حاصل کرنے اور صرف اور صرف نمبرز کی ڈور میں شامل ہونے کے متعلق کہتے ہیں۔

مجھے اچھی طرح یاد ہے میٹرک کا رزلٹ جب آیا تو میں اچھے نمبروں سے پاس ہوا۔ رشتہ دار مجھے مبارک باد دے رہے تھے۔ ابا جی بھی خوش تھے۔ مگر اس وقت مجھے سمجھ ہی نہیں آئی کہ کتنی نفرتوں کا رخ میں اپنی جانب موڑ رہا ہوں۔ دوسال گزرے جب انٹر میڈیٹ کا رزلٹ آیا۔

اس مرتبہ بھی میں پاس تھا۔ حاصل کردہ نمبر بھی اچھے تھے مگر 85 % نہیں تھے بلکہ 73 % تھے۔ اب کی دفعہ بھی مجھے مبارکباد دینے والے لوگ شامل تھے اور ساتھ ان کی زبان پہ ایک جملہ کثرت سے سننے کو ملا

”میٹرک کے مقابلے رزلٹ خراب ہوا ہے آگے مزید خراب ہو جائے گا“

حالانکہ ان دنوں میرے مزدیک یہ تھا کہ اس دفعہ کچھ سیکھ لیا ہے اور میٹرک کے مقابلے کافی اچھا ہے کہ اب ان کتابوں سے ہٹ کر بھی کوئی سوال ہو تو اس کو حل کرنے کی کوشش کی جا سکتی ہے۔

ان سب کے بیچ ایک ایسی بات میں نے نوٹ کی جو کہ شاید پہلے کبھی میرے ذہن میں نہیں آئی تھی۔ وہ بات یہ تھی کہ رشتہ داروں میں ایک فرد واحد ایسا بھی تھا جو مجھ سے بار بار پوچھتا کہ کتنے نمبر حاصل کیے ہیں۔ ایک مرتبہ بتایا

مگر اسی دن چار سے پانچ مرتبہ اس نے اس سوال کو دہرایا۔ مجھے لگا کہ شاید یہ سب اس لیے ہے کہ وہ بھول جاتے ہیں میں نے ہر مرتبہ ان کو جواب دیا۔ میرا بھائی مجھ سے کہنے لگا کہ تمھیں سمجھ نہیں آتی کہ وہ تمھارا مذاق بنا رہے ہیں؟ میں حیران ہوا کہ کیسے مذاق بنایا جا رہا ہے اس نے جواب دیا کہ تمھارے حاصل کردہ نمبر رشتہ داروں میں سے ایک فرد کے حاصل کردہ نمبروں سے کم ہیں۔ اور وہ بار بار اس بات پہ خوش ہو رہے ہیں۔

اس کو نفرت کا پہلا بیج سمجھے کیونکہ اگر آپ ایسی بات بچے کو سکھائے گئے تو یقیناً وہ نمبر دوڑ میں آگے بڑھے گا اور پھر رشتہ داروں کے لیے دل میں نفرت لئے گھومے گا۔

اس واقعہ میں سچائیاں ایسی ہیں جیسے آئینہ آپ کو اصلی چہرہ دکھائے کیونکہ یہ کہانی صرف میری نہیں ہر اس بچے کی ہے جو مڈل کلاس سے تعلق رکھتا ہے۔

والدین اور بھائی بہن اس بات پہ شرم محسوس کرتے ہیں کہ ان میں سے کسی کے نمبر رشتہ داروں کے حاصل کردہ نمبروں سے کم ہوں۔ پہلے تو نمبر حاصل کرنا ہی خطرناک ہے کیونکہ نمبر حاصل کرنے کے چکروں میں تعلیم کہیں دور ہی رہ جاتی ہے۔ اس کے بعد کا کھیل اس سے بھی زیادہ خطرناک ہے کیونکہ جب بھی کسی کے ساتھ مقابلہ کی فضا قائم کی جاتی ہے تو حسد، بغض، نفرت کے بیج ساری عمر کے لیے معصوم ذہنوں میں ڈال دیے جاتے ہیں۔

یہ وہ زہر ہے جو رشتہ داروں کو برا بناتا ہے۔ اور ہمیشہ کے لیے ہم اپنے ہم پلہ دوستوں سے نفرت لئے زندگی گزار دیتے ہیں۔ تعلیم کا پہلو یہ ہے کہ ہمارا آنے والا کل آج سے بہتر ہو۔ اور اگر ایسا نہیں ہے تو تعلیم حاصل کرنا یا نمبروں کے چکر میں بھاگنا فضول ہے۔

یہی وہ چیز ہے کہ میں نے ایسے لوگ دیکھے ہیں جو کہ کسی ادارے سے ٹائپ کر چکے ہوتے ہیں مگر ان سے کسی حوالے پوچھا جائے تو کتاب پڑھ کر سنانا شروع کر دیتے ہیں۔ چند سال بعد وہ کتاب بھول جاتی ہے اور وہ لوگ وہی کے وہی اپنے نمبروں کے ساتھ کھڑے ہوتے ہیں۔ تحریر کا مقصد یہ نہیں کہ طالبعلم پڑھنا چھوڑ دے۔ مقصد یہ ہے کہ سب والدین نفرتوں کو فروغ نہ دے۔ رشتہ دار نفرتیں نہ بانٹے۔

بچوں کو مقابلہ کے لیے تیار کریں مگر دنیا کوبدلنے کے مقابلے میں، نمبر حاصل کرنے کے مقابلے کے لیے نہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).