امیر تیمور،زرینہ اور تاشقند کی پریاں


لاہور انٹر نیشنل ایر پورٹ سے تاشقند کے لئے ازبک ایر لائین کی پرواز تیار تھی۔ اس تاریخی شہر کو دیکھنے کی آرزو بر آئی تھی۔ ہمارا گروپ دس افراد پر مشتمل تھا۔ ڈھائی گھنٹے میں ہم افغانستان کے اوپر سے پرواز کرتے ہو ئے تاشقند ایرپورٹ پر لینڈ کر رہے تھے۔ امیگریشن کی خجل خواری کے بعد تاشقند کی کھلی ہوا میں زرینہ کی شکل میں معطر ہوا کے ایک پر رومان جھونکے نے ہمارا استقبال کیا۔ وہ ہماری گائیڈ تھی۔ بلاشبہ وہ ایک حسین لڑکی تھی۔

عام گائیڈز کی نسبت سمارٹ لیکن انہی کی طرح باتونی مگر جہاں شناس۔ اس کی لمبی سیاہ زلفیں اس کے شانوں کو پوری طرح گھیرے ہوئے تھیں۔ گہری سیاہ پلکوں کے نیچے سیاہی مائل براون آنکھیں خود بخود باتیں کر رہی تھیں۔ اس نے پہلی بات یہ بتائی کہ تاشقند کی عورتوں نے کئی سال پہلے آزادی چوک میں اکٹھے ہوکر اپنے حجاب جلا ڈالے تھے اور آزادی نسواں کی ایک مضبوط بنیاد رکھ دی تھی۔ اس کی نظر میں حجاب آزادی نسواں کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ تھی۔

زرینہ تاشقند کا جغرافیہ بتارہی تھی۔ تاشقند 335 مربع کلومیٹر پر پھیلا دنیا کے قدیم اور تاریخی شہروں میں شمار ہوتا ہے۔ اس کی آبادی کوئی چوبیس لاکھ کے قریب ہے۔ وہ اس کی عمودی اور ترچھی بلندی بتا رہی تھی جبکہ میرے ساتھ بیٹھا رشید زرینہ کا اپنا جغرافیہ ناپ رہا تھا۔ وہ دور ہی دور سے کسی ماہر درزی کی طرح اس کی چھاتی، کمر اور کولہوں کی پیمائیش کر رہا تھا جو اس نے میرے ساتھ شئیر بھی کی۔ بلا کا جغرافیہ تھا، ظالم نے دو منٹ میں ہی زرینہ کے طول و عرض کی پیمائش کر ڈالی تھی۔ میں تو اس کی آنکھوں اور پتلی ناک میں اٹکا بیٹھا تھا، جبکہ رشید اس کے نشیب وفراز کی سیر حاصل سیاحت کر چکا تھا۔

جن راستوں سے ہم گزرے، بہت کشادہ، صاف ستھرے اور سایہ دار تھے۔ ٹریفک نارمل ہی تھی۔ لاہور کی بے ہنگم سیٹیاں بجاتی گاڑیاں نظر نہیں آئیں۔ کھلی کھلی سڑکوں پر ٹریفک رواں دواں نظر آئی۔ بڑی بڑی رہائشی عمارتیں کسی ایک شخص کی ملکیت نہیں بلکہ فلیٹس کی شکل میں بنی ہوئی تھیں۔ جہاں جہاں سے ہم گزرے کوئی چھوٹا، سنگل یا ڈبل سٹوری گھر نظر نہیں آیا۔ ہمارا ہوٹل تقریباً شہر کے وسط میں تھا۔ پندرہ منٹ کی مسافت طے کرکے ہم ہوٹل پہنچ چکے تھے۔ دو گھنٹے کے ریسٹ کے بعد شام کو ہمارا شہر کا ٹور تھا۔

ہم عظیم لیڈر اور مسلمان فاتح امیر تیمور سے ملنے جا رہے تھے۔ یہ مسلمان فاتح چودھویں صدی کا سب سے بڑا فاتح تھا جس نے ترکی ایران اور یورپ سے لے کر ہندوستان تک فتوحات کے جھنڈے گاڑے۔ یہ حاظ قران اور انتہائی علم دوست انسان تھا، اس کے ساتھ ساتھ ایک بے رحم قاتل اور جابر مگر بلا کا ذہین حکمران تھا۔

تیمور کے باپ نے اسے مذہبی تعلیم دلائی تھی، حافظ قران بنایا، مگر یہ تعلیم اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکی۔ اوائل جوانی میں ہی وہ ڈاکووں کے گروہ میں شامل ہوگیا۔ یہ چنگیز خان کی نسل سے تھا، جلد ہی ڈاکووں اور پھر قبیلے کا سردار بن گیا۔ یہاں سے اس کی فتوحات کا آغاز ہوا اور وہ عظیم فاتح امیر تیمور بن گیا جس نے اس وقت کی دنیا کی آبادی کا پانچواں حصہ تہ تیغ کر دیا۔

ہم قاتلوں سے ملنا پسند نہیں کرتے۔ قتل غارت کرنے والے انسانوں سے میں نفرت کرتا ہوں، مگر تاریخ کے اس انوکھے کردار کو سمجھنا مجھے اچھا لگتا ہے۔ ہم امیر تیمور کے مجسمے کے پاس کھڑے اس کے ساتھ تصویریں بنوا رہے تھے۔ رشید کو امیر تیمور کے ساتھ فوٹو بنوانے میں کوئی دلچسپی نہیں تھی، وہ زرینہ کے ساتھ پوز بنا بنا کر تصویریں اور سیلفیاں بنا رہا تھا۔ وہ بھی مسکرا مسکرا کر اپنی پروفیشنل ذمہ داریاں پوری کر رہی تھی۔ زرینہ بتا رہی تھی کہ تیمور ایک ٹانگ سے لنگڑا تھا۔ اوائل جوانی میں اس کی ٹانگ میں تیر لگا تھا جس کی وجہ سے وہ لنگڑا کر چلتا تھا۔

ہم ایک قدیم مدرسہ دیکھنے گئے۔ یہ مدرسہ پندھرویں صدی کی عظیم یونیورسٹی تھی۔ بڑے دروازے سے گزر کر ایک لائین میں طلبا کے لئے رہائشی کمرے بنائے گئے تھے جہاں دور دراز سے آئے علم کے پیاسے رہائش پزیر رہتے تھے۔ موجودہ حکومت نے اسے نئے سرے سے تعمیر کیا ہے۔ مدرسے کے بالکل ساتھ ہی میٹرو اسٹیشن اور قدیم چورسو بازار ہے۔ اس بازار سے مصالحہ جات، ڈرائی فروٹ اور کھانے پینے کا سامان مل جاتا ہے۔ زرینہ بتا رہی تھی تاشقند قدیم زمانے سے ہی اپنے ڈرائی فروٹس کی مشہور مارکیٹ رہا ہے۔ ہم جمعہ مسجد دیکھنے چلے گئے۔ یہ مسجد بھی قدیمی عمارت کا درجہ رکھتی ہے۔ اپنی تعمیر کے بعد مختلف ادوار میں مسجد سے گرجا، دفتر اور اب پھر مسجد بن چکی ہے۔ ہم آزادی چوک میں پھرتے پھراتے ڈنر کے لئے ہوٹل آ گئے۔

ڈنر شاندار تھا۔ تاشقند کی مشہور روایتی ڈش ”پلاو“ مینو کا حصہ تھی۔ مٹن بھی تھا مگر مجھے ایسے لگا جیسے بیف ہے۔ تاشقند کے لوگ گھوڑے کا گوشت شوق سے کھاتے ہیں۔ میں نے ایک ویٹر کو بلا کر پوچھا ”یہ گھوڑے کا گوشت ہے“ اس کی انگریزی ایسی تھی جیسی پٹھانوں کی اردو۔ اس نے کہا ہاں جی۔ بعد میں اس نے شاید ہیڈ ویٹر کو یہ بات بتائی ہوگی، مینیجر خود آیا اور بتایا کہ یہ لیمب ”بھیڑ“ کا گوشت ہے۔ لوگ کھانا کھا رہے تھے اور سٹیج پر پریاں ڈانس کر رہی تھیں۔

رشید کا دھیان ان پریوں کے لباس والی ناچتی لڑکیوں کی طرف تھا اور وہ سوپ بھی پی رہا تھا۔ بے دھیانی میں سوپ کا چمچہ منہ کی بجائے ناک میں انڈیل بیٹھا۔ گرم گرم سوپ ناک اور منہ سے ہوتا ہوا گردن تک آگیا۔ میں نے کہا اب منہ سے ”سی“ بھی نہ نکالیں۔ شکر ہے باقی لوگ بھی پریوں کی طرف راغب تھے اس لئے رشید بے عزتی سے بچ گیا۔

رات کے گیارہ بجے ہوٹل پہنچے۔ آخری کام زرینہ کا کرنسی نوٹوں سے بھرا بڑا سارا بیگ خالی کرنا تھا۔ زرینہ نے بتایا کہ وہ ٹور کے لوگوں کی محبت میں ڈالر کا مارکیٹ سے زیادہ ریٹ دے گی۔ سب نے حسب ضرورت ڈالرز کے بدلے ”سوم“ خریدے۔ ازبکستان کی کرنسی ”سوم“ ڈالر کے مقابلے میں اتنی سستی ہے کہ سو ڈالر کے ایک نوٹ کے بدلے ایک لاکھ سوم ملتے ہیں جو آپ کے والٹ میں سما ہی نہیں سکتے۔ ان کو اٹھانے کے لئے علیحدہ بیگ کی ضرورت ہوتی ہے۔

صبح صبح ہم نے ثمرقند جانا تھا۔ جس کے لئے چار بجے کا وقت مقرر تھا۔ گاڑی چھ بجے نکلنی تھی۔ ہوٹل سے اسٹیشن کا فاصلہ بیس منٹ اور باقی سیکیورٹی چیک اپ وغیرہ۔ تھکے ہوئے تھے اس لئے سونے چل دیے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).