فیض صاحب کا ”لوٹس“


 بات ذرا نازک سی ہے چنانچہ اس سے پہلے یہ وضاحت ضروری ہے کہ خادم فیض صاحب کی شاعری کا دیوانہ اور ان کے سیاسی آدرشوں کا حامی ہے۔ چاہے ساقی فاروقی صاحب فیض صاحب کے بارے میں جو کچھ بھی لکھتے رہے، بھلے عبدالعزیز خالد ان کے اشعار میں عروضی اور معنوی غلطیاں نکالتے رہے…. مرحوم اشفاق احمد سے منسوب ہے کہ کسی نے پوچھا کہ ”اشفاق صاحب، محبوب کسے کہتے ہیں؟“ اشفاق صاحب نے جواب دیا، ”جس کا ناٹھیک بھی ٹھیک لگے۔“ سو وہی معاملہ ہمارا اور فیض صاحب کا ہے۔

اس ضروری اعتذار بلکہ اقبال جرم کے بعد عرض ہے کہ خادم کو پیشہ ورانہ فرائض کے سلسلے میں چھ ماہ بیروت میں قیام کا موقع ملا ہے۔ اس حوالے سے ایک چٹکلہ بھی سن لیجئے۔ کسی دور میں اسلام آباد میں طارق محمود نامی ایک برطانوی پاکستانی دانش ور سے ملاقات رہی تھی۔ بیروت میں پہلے روز خادم کچھ گھر کی یاد، کچھ نامانوس دیس کے احساس کے فشار کے تحت، ایسے لمحات کے بہترین استعمال، یعنی فیس بک کی ورق گردانی میں مصروف تھا۔

اتنے میں ایک یار عزیز سہیل ملک کے سٹیٹس پر نظر پڑی جنہوں نے دو ثانیے قبل اپنی احرام میں ملبوس سیلفی حرم کعبہ کے سامنے کھینچ کر لگائی تھی۔ خادم نے حیرت سے پوچھا کہ، دیر کی راہ کیونکر بھولے؟ خیر اس قصے کو چھوڑیے، انہوں نے بندے کی بیروت میں آمد کی خبر ملنے پر طارق صاحب کے بھی وہاں موجود ہونے کی اطلاع دی اور ان کا سکائپ کا پتا عنایت کیا۔ ترنت انہیں سکائپ کے دوستوں میں شامل کیا اور پیغام بھیجا کہ ”میں وہی ہوں مومن مبتلا“…. وہ پہچان گئے اور شرف شمولیت در فہرست دوستاں بخشا۔

اس کے بعد کی گفتگو کچھ یوں تھی،

”آپ کہاں ہیں“؟

”جی میں بیروت میں ہوں“۔

”اچھا؟ خوش آمدید۔ کس محلے میں؟“۔

”جی عین المریسہ میں“۔

”واہ! کس گلی میں؟“ ۔

”جی کوچہ یوسف پاشا میں“۔

کمال ہے! کس عمارت میں؟۔

”جی فینکس اپارٹمنٹس میں“ ۔

”سمندر کی جانب یا دوسری جانب والے فلیٹوں میں؟“

”جی سمندر کی جانب“۔

”اچھا، تو ذرا بالکونی میں نکلو…. “۔

بندہ نکلا تو کیا دیکھتا ہے کہ اس پتلی گلی کے دوسری جانب، عین سامنے والی عمارت کی بالکونی میں طارق صاحب کھڑے ہاتھ ہلا رہے ہیں۔

تمہید ذرا لمبی ہو گئی۔ لذیذ بود حکایت، دراز تر گفتم۔ طارق صاحب بیروت کی امریکی یونیورسٹی میں ”خلاقانہ تحریر“کے استاد ہیں۔ یہ انکشاف ہم پر اس سے پہلے ہی ہو چکا تھا کہ یہ بھی ایک مضمون کے طور پر پڑھایا جاتا ہے۔ چنانچہ اس پر ہم پہلے ہی حیرت زدہ ہو چکے تھے۔ طارق صاحب بھی بقول اقبال، ”پریشان حال، آشفتہ مو“ لوگوں کے طائفہ ترقی پسنداں سے تعلق رکھتے ہیں۔ انہوں نے فیض صاحب کی زیر ادارت نکلنے والے افرو ایشیائی ادیبوں کی انجمن کے رسالے ”لوٹس“ کے تمام شمارے یونیورسٹی کی لائبریری میں جمع کر لئے تھے۔ یہ رسالہ بیک وقت عربی، انگریزی اور فرانسیسی میں نکلتا تھا۔ طارق صاحب کے مجموعے میں واحد خرابی یہی تھی کہ شمارے تو خیر تمام موجود تھے مگر ایک زبان میں نہیں۔

اکثر انگریزی کے، مگر بہت سے عربی کے، چند فرانسیسی والے نسخے تھے۔ چند ایک کی ورق گردانی کا ہمیں بھی موقع ملا۔ ہمارے محدود مطالعے میں آج تک اس قدر اعلی درجے کے مضامین ایک رسالے میں نہیں گزرے۔ کہیں مغربی افریقی ادب میں مزاحمتی استعاروں کا بیان ہے، کہیں ازبک شاعری میں مذہبی علامتوں کے استعمال پر، کسی مضمون میں جنوبی ہند کی مصوری کے جدید رجحانات کی بحث تو کہیں مشرقی افریقہ میں عوامی ناٹک منڈلیوں کا بکھان …. سر ورق اور حاشیوں پر دنیا بھر کی مصوری اور خطاطی کے نمونوں کی بہار کا تو الفاظ میں بیان ہو ہی نہیں سکتا۔

ہماری دلچسپی، بوجہ سستی، شعری و افسانوی مواد میں زیادہ تھی، وہ بھی جنوبی ایشیائی ادب کے حوالے سے۔ اس تلاش پر نکلے تو سخت مایوسی ہوئی۔ زیادہ تر نثری چیزیں تو ایک ہی کامریڈ اور ان کے اہل خانہ کی لکھی ہوئی شامل تھیں۔ ساحر لدھیانوی کی کچھ نظمیں نظر پڑیں تو وہ اس نوع کی کہ ”خون پھر خون ہے، ٹپکے گا تو جم جاے گا“۔ فیض صاحب کی اپنی بھی ایک دو نظمیں ہیں مگر انگریزی و عربی تراجم سب کے نہایت ردی. یقینا اس میں کچھ دوش سکہ بند کامریڈ لوگوں کی مخصوص پالیسی کا بھی ہوگا، مگر سچ پوچھیں تو ہمیں اس میں فیض صاحب کی معروف سہل انگاری زیادہ محسوس ہوئی۔

ذرا سوچیے کہ خود ہمارے ملک میں اس دور میں غنی خان، شیخ ایاز، گل خان نصیر اور استاد دامن اعلی درجے کا مزاحمتی ادب تخلیق کر رہے تھے مگر اس کا کوئی ذکر تک نہ ملا۔ چلیں یہ الزام ”پارٹی لائن“ پر ڈال دیں تو بھی حبیب جالب اور اجمل خٹک کیونکر نظر انداز ہو گئے۔ یہ تو ’پارٹی‘کے سکہ بند لوگ تھے۔ افغان شعرا کا تو ذکر ہی کیا…. فیض صاحب کی سہل انگاری کا ایک مسلم ثبوت ہم تصویری شہادت کے طور پر ساتھ لے آے تھے جو یہاں بھی دوستوں کی خدمت میں پیش ہے.

تمام کے تمام عربی شماروں کی مجلس ادارت میں فیض صاحب کا نام ’فائز احمد فائز‘ چھپا ہوا ہے اور اس کی تصحیح کی آخر تک ہمارے، بقول ابن انشا ،’دولے‘ شاعر نے زحمت نہیں کی۔ یہ سب اس بات کے باوصف کہ فیض صاحب انگریزی کے تو بادشاہ تھے ہی، عربی پر بھی پوری طرح قادر تھے۔

ہماری خوش گمانی تو اس باب میں یہی ہے کہ فیض صاحب نے ”پارٹی لائن“ کی سختی کے پیش نظر ادارتی امور میں زیادہ دلچسپی نہیں دکھائی۔ لوٹس کے دفتر والی عمارت تو اسرائیلی قبضے کے دوران ڈھا دی گئی تھی مگر ”کیفے یونس“ نامی وہ قہوہ خانہ اب تک موجود ہے جہاں فیض صاحب، بقول عینی شاہدین، صبح کو شام کیا کرتے تھے۔ ہم نے بھی ایک دو بار وہاں قہوہ نوشی کی ہے۔ اس سے ہماری شاعرانہ صلاحیتوں کو تو خاص فیض نہیں ملا البتہ یک گونہ سستی جو ہماری طبیعت میں پائی جاتی ہے، اس کا الزام ہم اس قہوہ خانے کی کافی کی تاثیر پر ڈال کر بری الذمہ ہو جاتے ہیں۔ کوئی اعتراض کرے تو لوٹس کے مدیران کی فہرست پیش کردیتے ہیں، سو آپ کی خدمت میں بھی، طویل غیر حاضری کے جواز کے طور پر حاضر ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).