شہرت بخاری کو بچھڑے پندرہ برس بیت گئے


\"aslam-malik\"آج اردو اور فارسی کے ممتاز شاعر پروفیسر شہرت بخاری کی 15 ویں برسی ہے۔ انہوں نے 11 اکتوبر 2001 کو لاہور میں وفات پائی۔ شہرت صاحب نے لکھا تھا

شہرت ہے کہ اب وجہ پریشانی احباب

اٹھ جائے گا جس روز تو آئے گا بہت یاد

آج شہرت صاحب کو بتایا جا سکتا ہے کہ مصرع اولیٰ میں ان کا دعویٰ درست نہیں تھا۔ وہ احباب کی پریشانی کا باعث نہیں تھے، وہ تو دل آسائی اور وضع داری کا نشان تھے۔ مصرع ثانی میں البتہ شہرت بخاری نے صحیح پیش بینی کی۔ وہ دنیا سے رخصت ہونے کے پندرہ برس بعد بھی انہیں یاد ہیں جنہوں نے ان کے شعر سے اکتساب  فیض کیا، ان کی مجلس سے لطف اٹھایا۔

شہرت بخاری کا اصل نام سید محمد انور تھا۔ 2دسمبر 1925 کو لاہور میں ہی پیدا ہوئے تھے۔ اردو اور فارسی میں امتیازی حیثیت سے ایم اے کیا۔ عملی زندگی کا آغاز مجلسِ زبانِ دفتری سے کیا ، پھر تدریس کی طرف آئے۔ اسلامیہ کالج لاہور کے صدر شعبۂ اردو و فارسی رہے۔ ریٹائر منٹ کے بعد کچھہ عرصہ اقبال اکیڈمی کے ڈائریکٹر کے طور پر بھی کام کیا۔

شاعری میں پہلے نرگس تخلص تھا۔ احسان دانش سے تلمذ حاصل ہوا تو ان کے مشورے پر شہرت تخلص اختیار کیا۔ ۔حلقۂ اربابِ ذوق کے اہم \"shohrat\"رکن تھے۔ حلقہ اربابِ ذوق میں جب نوجوانوں نےغمِ دوراں کا ذکر کچھہ زیادہ زور شور سے شروع کیا تو کچھہ بزرگوں نے اسے سیاست قرار دیا ، ۔حلقے پر سیاسی کا لیبل لگایا اور الگ سے حلقہ اربابِ ذوق (ادبی) بنا لیا۔ سیاست سے نفور کے باعث شہرت صاحب بھی اس میں پیش پیش تھے لیکن پھر ضیاع الحق کےدورِ جبر میں کسی بھی حساس شخص کیلئے سیاست سے دور رہنا ممکن نہ رہا توشہرت صاحب بھی سیاست میں ایسے آئے کہ جلا وطن بھی ہونا پڑا۔

شہرت صاحب کہتے تھے کہ ان کی اہلیہ فرخندہ بخاری انہیں سیاست میں لائیں اور فرخندہ صاحبہ کہتی ھیں کہ وہ تو ایک گھریلو عورت تھیں ، سیاست سے شہرت صاحب نے روشناس کرایا ۔

شہرت صاحب کے اردو شعری مجموعے طاقِ ابرو ، دیوارِ گریہ ، اور شبِ آئینہ کے عنوان سے شائع ہوئے ، فارسی کلام کی کوئی خبر نہیں۔ ان کی صاحبزادی نے بھی لاعلمی ظاہر کی۔

کچھہ اشعار:

\"pak-tea-house\"
جو ہے وہ نکلنا چاہتا ہے
ہے ننگ مکان پر مکیں

کسی کی روح کا بجھتا ہے شعلہ
کسی کی آنکھہ میں جلتا ہے کاجل

جال میں اتنے بھی بے بس نہ ہوئے تھے ہم
دلدل بھی نہیں لیکن نکلا بھی نہیں جاتا

کافر ہوں جو حسرت ہو جینے کی مگر شہرت
اس حال میں یاروں کو چھوڑا بھی نہیں جاتا

خود نوشت سوانح عمری ’’کھوئے ہوئوں کی جستجو‘‘ سے ایک اقتباس\"shoh-auto\" :

’’میں آئینہ کبھی نہیں دیکھتا، یہاں تک کہ شیو بھی بغیر ٓآئینے کے کرتا ہوں، بال بھی بغیر آئینے کے سنوارتا ہوں اور ٹائی بھی بغیر آئینے کے باندھتا ہوں۔ سبب تومجھے معلوم نہیں، بس اتنا جانتا ہوں کہ آئینہ میری زندگی میں وجود نہیں رکھتا۔ اتفاقاً کبھی سامنے آ جائے تو مجھے کچھہ دکھائی نہیں دیتا۔ اگر کوئی مجھہ سے سوال کرے کہ تیری ناک کیسی ہے؟ یا تیرے چہرے پر کوئی تل ہے ؟ تو میں اسے جواب نہ دے سکوں گا۔ پس میں اپنے آپ کو اپنے ذریعے دیکھتا ہوں آئینے کے ذریعے نہیں ،اسی طرح دنیا اور اہلِ دنیا کو بھی اپنے ذریعے دیکھتا ہوں، پرکھتا ہوں، کسی اور ذریعے سے نہیں “۔

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments