سنامن رولز کا قصہ


ہیپی فرائڈے!
ہسپتال کا ڈاکیا سارے ڈپارٹمنٹس میں ‌ صبح‌ صبح ڈاک پہنچاتا ہے اور جب تک نہ پہنچے لگتا ہے کہ ابھی دن شروع نہیں ہوا۔ فرائڈے سب کا پسندیدہ کام والا دن! آج جلدی چھٹی بھی ہوجائے گی اور دوسری اچھی بات یہ کہ ڈاکٹر سہیل کینیڈا سے آئے ہیں۔ سارا ویک اینڈ مکمل طور پر بک ہے۔

کل ہماری ایک مریضہ سنامن رولز بناکر لائیں۔ ان کے سنامن رولز کافی مقبول ہیں اور وہ مختلف فنڈ ریزرز کے لیے 400 درجن تک سنامن رولز بناتی ہیں جن سے کسی بھی مقصد کے لیے چندہ اکٹھا کرنے میں ‌ مدد ملتی ہے۔ میں ‌ نے ان کا بہت شکریہ ادا کیا اور کہا کہ یقیناً سارے آفس میں ‌ کام کرنے والے بہت خوشی محسوس کریں ‌ گے کہ آپ اپنے ہاتھوں ‌ سے سنامن رولز بنا کرلائیں ‌ اور خوشبو سے ہی وہ کافی مزیدار بھی لگ رہے ہیں۔ حالانکہ میں اس ڈبے کو بغل میں ‌ دبا کر گھر بھی لے جاسکتی تھی لیکن نہیں۔ آج چھٹی کے وقت تک جب آفس میں کام کرنے والے تمام افراد کو موقع مل جائے گا کہ وہ بھی ان سنامن رولز سے لطف اندوز ہوں، اس کے بعد لے جاؤں گی۔

ایک کلینک صرف ایک ڈاکٹر اکیلے نہیں ‌ چلاسکتا ہے۔ گھر ہو، ملک یا کوئی دکان، ہسپتال یا کلینک۔ سب اجتماعی سسٹم ہیں جن کی کامیابی کا دارومدار اس میں ‌ حصہ بٹانے والے ہر شخص پر ہے۔ کسی بھی نظام کی کامیابی کا دارومدار اس کے تمام ارکان کو مضبوط بنانے، ان کی اہمیت سمجھنے اور ان کو عزت دینے پر مبنی ہے۔

یہ ان دنوں ‌ کا قصہ ہے جب ہم لوگ سول ہسپتال لاڑکانہ میں ‌ سائکائٹری میں ‌ ہاؤس جاب کررہے تھے۔ آدھے دن میں ‌ درجنوں ‌ مریض دیکھے جاتے تھے جن کے لیے ایک ٹیم کام کرتی تھی۔ اس ٹیم میں ‌ اٹینڈنگ ڈاکٹر، رجسٹرار، ہاؤس افسر ز اور میڈیکل اسٹوڈنٹس وغیرہ سب مل کر کام کرتے تھے۔ اس چھ مہینے کی ہاؤس جاب میں ‌ بہت دلچسپ کیس دیکھنے کو ملے جو مجھے ابھی تک یاد ہیں۔

سائکائٹری میں ‌ کام کرنے سے مجھے یہ بھی اندازہ ہوا کہ ذہنی امراض کا علاج کرنا کوئی آسان کام نہیں ہے۔ ایک دلچسپ بات یہ ہوئی کہ اس انفارمیشن سے میں نے صرف مریضوں کو ہی نہیں ‌ بلکہ اپنے اردگرد لوگوں ‌ کو سمجھنا شروع کردیا۔ ڈپریشن، اینگزائٹی، بائے پولر، شائزوفرینیا، پرسنالٹی ڈس آرڈرز ان کے رویے اور مسائل سمجھ میں ‌ آنے لگے۔ کچھ نے مشورے پر عمل کرتے ہوئے اپنا باقاعدہ علاج کروایا اور کچھ سے دوستی اور تعلقات خراب ہوگئے کیونکہ ان کو یہ سننا اچھا نہیں ‌ لگا کہ ان کو اپنی سوچ یا رویے پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔

ہر انسان کے اپنے منفرد مسائل ہیں۔ کچھ دن پہلے ایک صاحب نے دلچسپ نقطہ اٹھایا۔ کہنے لگے کہ جب میری بیوی نے طلاق کے لیے عدالت میں ‌ کیس کردیا اور میرے تین بچے لے کر چلی گئی تو میں ‌ نے خودکشی کرنے سے بچنے کے لیے خود کو ہسپتال میں ‌ داخل کرا دیا۔ ہسپتال میں ‌ یہ دیکھا کہ سب مریض دوسرے لوگوں ‌ کے مسائل کے بارے میں ‌ باتیں ‌ کررہے ہیں۔ اپنے مسائل کو سمجھنا مشکل کام ہے۔ یہ سمجھنا کہ ہم بھی خود میں ‌ کچھ بہتر کرسکتے ہیں ‌ بہت مشکل ہوتا ہے۔ مشکل ہے لیکن ناممکن تو نہیں۔

ایک مرتبہ کلینک چل رہا تھا اور لنچ کا وقت ہونے والا تھا۔ سب لوگ مریض ختم ہونے کا انتظار کررہے تھے تاکہ چھٹی ہو اور گھر جائیں۔ اس وقت تک بھوک لگنا بھی شروع ہوگئی تھی۔ ایک مریض‌ اپنے ساتھ شہر کی اچھی بیکری کے باکس میں ‌ کیک لائے اور اٹینڈنگ ڈاکٹر کو دیا۔ کیک دیکھ کر ہم لوگ خوش ہوگئے کہ اب ہم کیک کھائیں گے۔ لیکن کلینک ختم ہوتے ہی ہماری کیک کھانے کی آرزو پر اوس پڑ گئی کیونکہ جاتے جاتے اٹینڈنگ ڈاکٹر صاحب نے اپنے ڈرائیور کو حکم دیا کہ سامان اٹھا کر آجاؤ۔

ہم زندگی میں ‌ بہت سارے لوگوں ‌ سے ملتے ہیں۔ بہت سارے لوگوں ‌ کے ساتھ کام کرتے ہیں۔ دنیا میں ‌ زیادہ تر لوگ اچھے ہی ہیں۔ کچھ بھلائی کرتے ہیں جن سے ہم سیکھتے ہیں ‌ کہ اچھے انسان کس طرح‌ بنیں اور کچھ لوگوں ‌ سے یہ بھی سیکھتے ہیں کہ کیسا نہیں بننا چاہیے۔ دونوں ‌ طرح‌ کے ٹیچر اہم ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).