نواز شریف کہتے ہیں کہ جینا ذلت سے ہو تو مرنا اچھا


مرد آہن میاں نواز شریف نے نیب عدالت میں پیشی کے موقع پر اکبر الہ آبادی کا مشہور شعر پڑھ کر فیصلہ سازوں کو ببانگ دہل یہ پیغام دیا ہے کہ وہ اپنی جان تو دے دیں گے مگر غیر جمہوری طاقتوں کے سامنے کبھی نہیں جھکیں گے۔

اکبر نے سنا ہے اہل غیرت سے یہی
جینا ذلت سے ہو تو مرنا اچھا

تین سال کے ابتلا و آزمائش کے دور میں اب تو نواز شریف کو شاید یہ بھی یاد نہیں ہوگا کہ وہ کتنے بے سرو پا اور جعلی کیسوں کا سامنا کر رہے ہیں۔ جب سے نواز شریف نے عزم صمیم سے سول بالادستی کی جنگ لڑنا شروع کی ہے، فیصلہ سازوں نے انہیں ہر قیمت پر اس گستاخی کی عبرت ناک سزا دینے کا تہیہ کر رکھا ہے۔ چنانچہ دنیا دیکھ کر رہی ہے کہ نواز شریف، ان کے خاندان اور قریبی ساتھیوں کے لیے عرصہٕ حیات تنگ کردیا گیا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ ان پر یا قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرنے والے ان کے ساتھیوں میں سے کسی پر بھی اب تک کرپشن یا اختیارات کے ناجائز استعمال کا ایک بھی الزام درست ثابت نہیں ہوا۔

شاہد خاقان عباسی، خواجہ برادران، مفتاح اسماعیل، شہباز شریف، مریم نواز، احمد چیمہ وغیرہ میں سے کسی پر فرد جرم عائد نہیں کی جا سکی۔ مگر نواز شریف کو ”راہ راست“ پر لانے کے لیے انہیں پابند سلاسل کر کے انہیں جھکانے اور توڑنے کی اپنی سی کوششیں جار ی ہیں۔ لیکن اب تک میاں صاحب کے حریف نہ ن لیگ کو توڑسکے اور نہ ان کے حوصلوں کو۔ جب سے میاں صاحب نے مولانا کے آزادی مارچ میں بھرپورشرکت کا عندیہ دیا ہے تب سے مریم نواز اور ان کو اس طرح سفاکی سے مظالم کا نشانہ بنایا جارہا ہے کہ انسانی، اخلاقی اور سیاسی قدریں ماتم کر رہی ہیں۔

انسانیت دم بخود ہے اور شرم و حیا خجل و نادم۔ ادھر نہتی مگر بہادر لڑکی مریم نواز سے جیل میں اس قدر ناروا، انسانیت سوز اور بہیمانہ سلوک کیا جارہا ہے کہ مقبوضہ کشمیر کے عقوبت خانوں کی یاد تازہ ہو جاتی ہے۔ گھر کے کھانے کی بندش کے بعد چھوٹے سے کمرے میں قید مریم کے لیے اسی کمرے میں ایک ٹاٹ کا پردہ لٹکا کر لیٹرین بنا دی گئی ہے۔ اوڑھنے کے لیے بوسیدہ اور کھٹملوں سے بھری ہوئی بدبودار چادر دے دی گئی ہے۔ انہیں مزید خوفزدہ کرنے کے لیے ان کے کمرے میں بچھو، سانپ اور چھپکلیاں چھوڑ دی گئی ہیں۔ یہ سب کچھ میاں نواز شریف کے حوصلوں کو توڑنے کے لیے کیا جارہا ہے۔ مگر آفرین ہے بہادری و استقامت کی نئی تاریخ رقم کرنے والے باپ بیٹی پر کہ جنہوں نے فیصلہ سازوں اور کٹھ پتلی حکومت کے ہر گھٹیا وار کو خندہ پیشانی سے برداشت کیا ہے۔

یہ حقیقت اب کھلا راز بن چکی ہے کہ ن لیگ کی قیادت کے خلاف پانامہ سے اقامہ اور کرپشن کی جھوٹی اور من گھڑت داستانوں کے پیچھے کس کاہاتھ ہے؟ عوامی سیاسی و سماجی شعور اب پختگی کی کئی منازل طے کر چکا ہے۔ ابھی چند روز قبل ہی وزیر داخلہ فرما چکے ہیں کہ نواز شریف اپنے جرائم کی نہیں بلکہ سول بالا دستی کے لیے مقتدرہ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کھڑا ہونے کے ”گناہ“ کی سزا کاٹ رہے ہیں اور زبان حال سے بقول غالب یہ کہہ رہے ہیں

حدچاہیے سزا میں عقوبت کے واسطے
آخر گناہ گار ہوں کافر نہیں ہوں میں

اس سے قبل مقتدرہ کی ترجمانی کا فریضہ ادا کرنے والے مجاہد ختم نبوت جناب شیخ رشید بھی کہہ چکے ہیں کہ اگر پانامہ کیسز میں نواز شریف کی سزا کالعدم بھی ہو گئی تو ان پر اور کیس بنا کر انہیں جیل میں ڈال دیا جائے گا۔ اس سارے پس منظر میں آج نیب عدالت میں لگائے گئے باغیانہ نعرے بہت معنی خیز ہیں۔ عمران خان کو لانے والوں نے سنا ہے کہ دس سال کی منصوبہ بندی کر رکھی ہے مگر آنے والے دنوں میں ملک میں جو سیاسی اور قانونی منظر نامہ بن رہا ہے اسے دیکھتے ہوئے لگتا ہے کہ یہ حکومت اپنی ہی بد ترین کارکردگی کے بوجھ تلے آ کر دم توڑ دے گی۔

بے بس عوام کو ڈینگی سے خود لڑنے مرنے کا مشورہ دینے والی موجودہ حکومت خیر سے تیرہ درجے، مواصلات میں بارہ درجے، صحت کے شعبے میں چھ درجے تنزلی کے علاوہ کرپشن میں دو درجے ”ترقی“ کر چکی ہے۔ مہنگائی، بے روزگاری، جرائم، داخلہ اور خارجہ محاذ پر پسپائی کے داغ اس کے علاوہ ہیں۔ اوپر سے میاں نواز شریف نے عزت کی موت کو ذلت کی زندگی پر ترجیح دے کر فیصلہ سازوں اور کٹھ پتلی حکومت کو پریشان کر دیا ہے۔ ہم تو اس انتظار میں تھے کہ میاں صاحب بارہ ارب ڈالرز ”لوٹی ہوئی رقم“ واپس کریں اور ہم انہیں جبر ناروا سے مفاہمت کا طعنہ دے کر انہیں اپنے حال پر چھوڑ دیں مگر ادھر تو منظر ہی کچھ اور بن رہا ہے۔ مولانا صاحب کا جوش و خروش بھی عروج پر ہے اور میاں صاحب بھی للکار رہے ہیں۔ مرد مجاہد اکیلے کس کس محاذ پر داد شجاعت دے سکیں گے؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).