ڈاکٹر صاحبہ کہیں حمل تو نہیں ہے؟


ڈاکٹر صاحبہ!
یہ بوڑھا کھوسٹ میرا پیچھا نہیں چھوڑتا۔ ایک پوتا ہے، بیٹی بھی بیاہ چکی ہوں، اس کا دل ابھی نہیں بھرا۔

سولہ سترہ سال کی تھی، ساتھ والے گھر میں یہ رہتا تھا دور پارکا رشتہ دار بھی تھا۔ ہمارے گھرا ٓنا جاناتھا، جانے وہ کون سا وقت تھاکہ میں اس کی آنکھوں کو بھا گئی۔ چھپ چھپ کے دیکھتا رہتا۔ گھر کا کوئی کام ہوتا بھاگ کر آجاتا۔ ”لاؤ! میں کر دیتا ہوں۔ “ ایک دن ماں نے کہہ ہی دیا ”بیٹا اب دروازہ کھٹکھٹا کر آیا کرو“۔ اگلے ہی دن اس کی ماں میری ماں کے کانوں میں کھسر پھسر کر رہی تھی۔

ماں کہہ رہی تھی ”وہ تو ٹھیک ہے بہن، لیکن میری بیٹی کے ابھی گڑیا کھیلنے کے دن ہیں، بالی سی عمر ہے۔
اور اس کی بھی تو ابھی ابھی مسیں بھیگی ہیں، تجھے کیا جلدی ہے۔ ”

”تم ہاں کروبہن! جنم جنم انتظار کر لوں گی“ اس کی ماں آہستہ سے بولی۔ ”لیکن یہ چاند میرے ہی گھر میں اترنا چاہیے“
”اس کے باپ سے پوچھ کر بتاؤں گی“

اس دن ایک اچھا کام ہوا کہ اس کا میرے گھر میں آناجانا بند ہو گیا۔

گاؤں میں میلہ تھا۔ کبڈی ہو رہی تھی۔ میں گاؤ ں کی دوسری عورتوں کے ساتھ چھت پر بیٹھی دیکھ رہی تھی معلوم نہیں اس کو کیسے پتا چل گیا۔ جب بھی کبڈی ڈالنے جاتا، ہماری طرف جھک کر مٹی کو ہاتھ لگاتا، چومتا اورپھرماتھے پر لگا لیتا۔ بہت بعد میں ایک مرتبہ میں نے پوچھا ایسا کیوں کر رہے تھے، کہنے لگا ”میرا قبلہ جوادھر تھا۔ “

”ڈاکٹر صاحبہ میں آپ کو کیا بتاؤں، اس نے مجھے زندگی بھر کتنا تنگ کیا ہے۔

ایک دن اکیلی دیکھ کر میرے گھر میں گھس آیا۔ میں ڈر کے چھوئی موئی ہو گئی، بولا صرف ایک بات کہنے آیا ہوں، ”اونچے چاک والی قمیض مت پہنا کرو، ہوائیں دامن کے ساتھ اٹھکیلیاں کرتی ہیں اورگول سریں، صفا رانیں دیکھ کر فرشتے بھی بہک جاتے ہیں۔ “

”اصل بات بتاؤ! کیا مسئلہ ہے؟ آپ میرے پاس کیوں آئی ہیں؟ “ ڈاکٹر ہنس کر بولی۔

”وہی تو بتانے لگی ہوں۔ “
”ڈاکٹر صاحبہ! ہماری شادی ہو گئی۔ ایک ماہ، دو ماہ، چار ماہ، سال دو سال!

عورتیں کہتی ہیں، مرد بادل جیسے ہوتے ہیں۔ نئی نئی برسات آتی ہے توخوب برستے ہیں۔ ہر طرف جل تھل کر دیتے ہیں۔ ساون بھادوں گزر جائے تو خشکے کا موسم شروع ہوجاتا ہے، عورتیں گھر گرہستی میں لگ جاتی ہیں اور مرد ادھر ادھر الجھ جاتے ہیں، ۔ پھراگر کبھی بادل آبھی گئے تو برسے برسے نہ برسے نہ برسے۔ لیکن یہ مرد، ڈاکٹر صاحبہ، میرا مرد! کبھی آندھی کبھی طوفان، کبھی بن بادل برسات۔

بیس سال تک اس نے مجھے ایک رات سکون سے نہیں سونے دیا۔ اس کے بعد بھی میں سوچتی رہی کہ شاید یہ اب بوڑھا ہو جاے گا۔ لیکن اف اللہ! ”

”آپ کا مرد تو پھر بہت ظالم بھی ہوگا؟ “ ڈاکٹر نے پوچھا۔

”نہ ڈاکٹر صاحبہ، پیار بہت کرتا ہے۔ گھڑکیاں بھی ایسے دیتا ہے کہ مدھر گیت لگتی ہیں اور اس کی جھڑکیاں پھول بن کر برستی ہیں۔ ایک مرتبہ میں بیمار ہو گئی تین ماہ چارپائی پر پڑی رہی۔ اس نے میری بہت خدمت کی۔ سار ی ساری رات میرے کندھے دباتا رہتا۔ مالش کرتا تھا۔ کہتے ہیں کہ گھی آگ کے پاس پڑا ہو گا تو ضرور پگھلے گا۔ میں سو چتی وہ کیسے صبر کر رہا ہوگا۔ کبھی تھوڑی سی طبیعت سنبھلتی تو کہتی آؤ، لیٹ جاؤ۔ لیکن ڈاکٹر صاحبہ تین ماہ تک اس نے مجھے ذرا تنگ نہیں کیا۔ “

”اس کا مطلب ہے تم بھی اس سے بہت پیار کرتی ہو۔ اب اصل بات بھی کہہ دو۔ “ ڈاکٹر نے پھر ٹوکا۔

”وہی تو سنا رہی ہوں۔ اسی پیار نے ہی تو مصیبت میں مبتلا کر دیا ہے۔ اب میں پچاس سال سے اوپر کی ہوں۔ بال سفید ہو رہے ہیں۔ بیٹا بیٹی دونوں کی شادی کر چکی ہوں، ایک پوتا بھی ہے۔ اب تو اس کو باز آجانا چاہیے۔ اس نے مجھے کہیں کا نہیں چھوڑا۔ تین ماہ سے مجھے ماہوری نہیں آئی تھی۔ میرا دل ڈر رہا تھا، میں نے با رہا کہا کہ مجھے ڈاکٹر کے پاس لے چلو۔ کہتا تھا کہ نہیں ایسی کوئی بات نہیں، اب تم بوڑھی ہو رہی ہو۔ اب ڈاکٹر صاحبہ کل رات سے خون پڑ رہا ہے۔ درد بھی ہو رہا ہے۔ ڈاکٹر صاحبہ میں تو مر جاؤں گی۔ اس نے مجھے کہیں کا نہیں چھوڑا۔ میری بہو؟ میرا بیٹا، میرا داماد؟ داکٹر صاحبہ کچھ کریں، کسی کو پتا نہیں چلنا چاہیے۔ “

”اتنی سی بات ہے جس سے پریشان ہو۔ آپ نے پیشاب ٹیسٹ کروایا تھا؟ “ ڈاکٹر نے پوچھا۔
”نہیں۔ اس کی کیا ضرورت تھی، مجھے تو بچے کی حرکت بھی محسوس ہو رہی تھی۔ آپ میرا الٹرا ساؤنڈ تو کریں۔ “
”بی بی آپ کیسی بات کر رہی ہیں؟ تین ماہ کا حمل اور بچے کی حرکت بھی؟ “

”آپ الٹرا ساؤنڈ کر لیں۔ “
”ٹھیک ہے لیٹ جاؤ۔ “
حمل نہیں تھا۔

لیکن وہ مطمئن نہیں ہو رہی تھی، بار بار کہہ رہی تھی کہ مزید ٹیسٹ کر کے دیکھ لیں۔ باہر گئی اور پھر واپس آگئی۔ بولی میرا میاں بھی آپ سے بات کرنا چاہتا ہے اگر اجازت ہو تو بلا لاؤں۔

اس کا خاوند اونچا لمبا، کسرتی بدن، بڑی بڑی بولتی آنکھیں، کھلے کھلے ہاتھ پاؤں اور چوڑے چکلے سینے کا مالک تھا۔ چہرے پر خشخشی داڑھی جس میں سفید بال زیادہ تھے، شرمندہ شرمندہ جھکی گردن کے ساتھ اندر داخل ہوا۔ ہاتھ کی انگلیوں سی داڑھی کی کھچڑی پکاتے ہوئے بولا،

”ڈاکٹرصاحبہ! آپ میری بیٹی کی عمر کی ہیں، کیا میں کچھ پوچھ سکتا ہوں؟ شرع کے سامنے تو شرم نہیں ہوتی، لیکن کیا حمل نہیں ہے؟ ”

ڈاکٹرکہنے لگی ”مطمئن رہیں حمل نہیں ہے، آپ کی بیوی پر بڑھاپا آرہا۔ وہ سن یاس کو پہنچ رہی ہے۔ اس دوران ما ہواری کے دورانیہ میں کمی بیشی ہو جاتی ہے اور بعض مرتبہ خون بھی زیادہ پڑتا ہے۔ عورت پریشان رہتی ہے، غصہ زیادہ آتا ہے اور راتوں کو نیند میں خلل بھی آجاتا ہے۔ “

”آپ دونوں پریشان نہ ہوں کوئی ایسی بات نہیں، ایسا ہو جاتا ہے“
مرد کو کچھ حوصلہ ہوا۔ کہنے لگا،
اس نے میری جان کھائی ہو ئی تھی۔ میں اس کو سمجھا رہا تھا لیکن یہ۔ ”
ڈاکٹر صاحبہ اس کا یہ خوف کیسے ختم ہو سکتا ہے؟ ”

جب ڈاکٹرنے سمجھایا کہ اب حمل کا امکان نہ ہونے کے برابر ہے تو ان کو کچھ حوصلہ ہوا۔ جاتے جاتے مرد بڑبرانے لگا۔

”جب اس کی عمر بچے جننے کی تھی، اس وقت دو جنے، اب چلی ہے ماں بننے۔ ٹھیک ہے اب میں اسے دوسال ہاتھ نہیں لگاؤں گا“
عورت پیچھے چلتی چلتی ناک چڑھا کربولی

ؓ ”دوسا ل۔ ہوں! دیکھیں گے۔ دودن صبر کرنہیں سکتا۔ “
ڈاکٹر نے مسکراتے مسکراتے کمر کرسی کی پشت کے ساتھ لگا کر آنکھیں بند کر لیں۔

”میں تو ابھی اڑتیس سال کی ہوں، بہت سال رہتے ہیں۔ عورت کی بھی کیا زندگی ہے؟ ہر دور میں ایک نئی پابندی۔ کب اسے معاشرے کے خوف سے نجات ملے گی؟ کب وہ ذ ہنی آزادی کی منزل پائے گی؟ کب وہ بے خطرہو کر زندگی کی خوشیوں سے لطف اندوز ہوسکے گی؟ “


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).