ایک تیکھی لڑکی اور میں


”نہیں یہ نہیں ہو سکتا، پھر تم نے اس کے ساتھ چائے پی لی۔ “ قمر چیخ اٹھا۔

”ابے کہاں یار، میری ہی عقل گھاس چرنے چلی گئی تھی۔ میں نے مروت میں انکار کر دیا اور وہ بائے بائے کرتے ہوئے چلی گئی۔ “ راشد نے سر پر ہاتھ مارتے ہوئے کہا۔

”اچھا تم دونوں کا غم مشترکہ ہے، تم کہیں اور جا کر آہیں بھرو، مجھے پڑھنے دو۔ “ میں نے دروازہ کھولتے ہوئے کہا۔

”میں کہیں نہیں جانے والا۔ “ قمر بولا۔

”میں یہیں بیٹھا ہوں۔ “ راشد بھی اڑ گیا لیکن میں نے انہیں بھیج دیا۔ میں سوچ رہا تھا کہ یہ دونوں مذاق کر رہے ہیں۔ آنے والے چند دنوں میں مجھے اندازہ ہوا کہ میرا خیال غلط تھا۔ سعدیہ لڑکوں سے ملتی جلتی نہیں تھی مگر قمر اور راشد سے اس کی ہیلو ہائے ہوتی تھی۔ ایک دن وہ دونوں باری باری میرے پاس آئے اور کسی چیپٹر کے نوٹس کا مطالبہ کر دیا۔ میں حیران تھا کہ اچانک ان دونوں کو اس چیپٹر کے نوٹس سے ایسی کیا دلچسپی پیدا ہو گئی ہے۔ ذرا سی تفتیش کے بعد دونوں نے حقیقت اگل دی۔ در اصل نوٹس سعدیہ نے مانگے تھے۔ وہ دونوں اسے نوٹس فراہم کر کے اپنا سکہ جمانا چاہتے تھے۔ بہر حال میں نے نوٹس تیار کیے ہوئے تھے۔ فوٹو اسٹیٹ کاپیاں دونوں کو دے دیں۔

اگلے دن دونوں ہی منہ لٹکائے میرے کمرے میں بیٹھے تھے اور سعدیہ کے خلاف خوب زہر اگل رہے تھے۔ ان کی باتوں سے پتا چلا کہ ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کے چکر میں انہوں نے ایک ہی دن باری باری اسے دل کی کیفیت بتائی اور حسبِ سابق منہ کی کھائی۔ راشد کو یہ غم تھا کہ سعدیہ نے اسے بے نقط سنائی تھیں اور قمر کا دکھ یہ تھا کہ سعدیہ نے اسے کہا تھا کہ آئندہ وہ اسے اپنی شکل نہ دکھائے۔

”سلسلے توڑ گیا وہ سبھی جاتے جاتے، ورنہ اتنے تو مراسم تھے کہ آتے جاتے۔ “ قمر نے غمگین انداز میں فراز کا شعر پڑھا۔

”دوستو! جو ہونا تھا وہ ہو چکا ہے، اب تم دونوں اپنی اپنی حسرتوں پر آنسو بہا کے سو جاؤ لیکن یہاں نہیں اپنے کمرے میں جا کر۔ “ میں نے رسان سے کہا۔ ان دونوں کے منہ بن گئے۔

”مجھے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ تم دوستی کا حق ادا نہیں کر رہے ہو۔ ہماری دلجوئی کی بجائے ہمیں کمرے سے نکال رہے ہو۔ “ قمر نے مصنوعی ناراضی سے کہا۔

”اوہ! میں بے دھیانی میں ایسا کہہ گیا۔ اچھا بتاؤ میں تمہارے لیے کیا کر سکتا ہوں۔ غمگین گانے ڈاؤن لوڈ کر دوں۔ “ میں نے افسردگی ظاہر کرتے ہوئے کہا۔

” تم اتنا بھی کر سکو تو غنیمت ہے، عطا اللہ نیازی کے کرنا، میں رونا چاہتا ہوں۔ “ قمر نے آہ بھری۔

”راشد میاں! آپ کیا پسند فرمائیں گے، میں آپ کے لیے کیا کر سکتا ہوں۔ “ میں نے راشد کی طرف رخ کیا۔

”یار میں سوچ رہا ہوں سعدیہ سے انتقام کے طور پر اس کی سہیلی ندا سے عشق کر لوں۔ ویسے ندا بھی اچھی لڑکی ہے۔ سعدیہ نے اس کے سامنے مجھے برا بھلا کہا تھا اور وہ اسے منع کر رہی تھی۔ کہیں وہ مجھ سے پیار تو نہیں کرتی۔ “ راشد سیدھا ہو کر بیٹھ گیا۔

”اف! یہ خیال مجھے کیوں نہیں آیا۔ اقرا نے کئی بار مجھے میٹھی نظروں سے دیکھا ہے۔ اس کا اور میرا نام ایک ہو کر بڑا اچھا لگے گا۔ اقرا قمر۔ واہ شاعرانہ سا نام بن جائے گا۔ شکریہ میرے دوست تم نے مجھے امید کی کرن دکھائی۔ “ قمر نے سر ہلاتے ہوئے کہا۔

میں ان کی گفتگو پر مسکرا کر رہ گیا۔ ان دنوں طلبہ تنظیمیں متحرک ہوا کرتی تھیں۔ راشد سے یہ غلطی ہوئی کہ وہ جمیعت کے ایک اجلاس میں چلا گیا۔ بعد میں جب اس کا جھکاؤ پی ایس ایف کی طرف ہوا تو جمیعت کے دوستوں کو یہ تبدیلی ایک آنکھ نہ بھائی۔ انہوں نے راشد پر دباؤ ڈالا کہ وہ پی ایس ایف سے کنارہ کش ہو جائے۔ راشد نے اسے ذاتی توہین سمجھتے ہوئے جمیعت کے روح رواں جاوید بھائی کو کھری کھری سنا دیں۔ اسے اندازہ نہیں تھا کہ اس کا نتیجہ کیا نکلے گا۔

میں لائبریری کی طرف نکلا تھا جب مجھے قمر بھاگتے ہوئے اپنی طرف آتا دکھائی دیا۔ وہ بے حد گھبرایا ہوا تھا اور اس کے چہرے پر ہوائیاں اڑ رہی تھیں۔

”وصی! غضب ہو گیا۔ جمیعت کے لڑکوں نے راشد کو بہت بری طرح مارا ہے۔ ناصر اور انور کو اس کے پاس چھوڑ کر تمہیں بلانے آیا ہوں۔ اسے فوراً ہاسپٹل لے جانا ہے۔ “

اس کی بات سنتے ہی میں بھی بھاگ کھڑا ہوا۔ عین اسی وقت سعدیہ اپنی سہلیوں کے ساتھ وہاں سے گزر رہی تھی۔ اس نے ہمیں یوں بھاگتے ہوئے حیرت سے دیکھا۔ راشد زیادہ دور نہیں تھا۔ وہ کینٹین کے ساتھ والے لان میں پڑا تھا۔ اس کے کپڑے کئی جگہ سے پھٹ چکے تھے۔ ہونٹ بھی پھٹ چکا تھا۔ بازو اور ایک ٹانگ سے خون بہہ رہا تھا اس کا مطلب یہ تھا کہ انہوں نے کسی تیز دھار آلے سے بھی اس پر وار کیا تھا۔ وہ درد سے کراہ رہا تھا۔ غم و غصے سے ہمارا برا حال تھا۔

”کسی ٹیکسی یا ایمبولینس کو بلایا ہے؟ “ میں نے تیزی سے کہا۔

”جی بلایا ہے، ابھی تک وہ پہنچا نہیں ہے۔ “ ناصر نے پریشانی کے عالم میں بتایا۔

اتنے میں سعدیہ بھی تیز تیز چلتی ہوئی ہمارے قریب آ چکی تھی۔ راشد کی حالت دیکھ کر اس کے منہ سے چیخ نکل گئی۔ اس نے فوری طور پر اپنے ڈرائیور کو بلایا۔ وہ اسے لے جانے کے لیے آیا ہوا تھا۔ تھوڑی دیر بعد ہم اس کی گاڑی میں ہسپتال کی طرف رواں دواں تھے۔

ہسپتال میں راشد کو ڈاکٹرز کے حوالے کرنے کے بعد ہم کوریڈور میں پریشانی کے عالم میں بیٹھے تھے۔ ابتدائی معائنے کے بعد پتا چلا کہ اس کے سر پر بھی شدید ضربیں لگائی گئی تھیں۔ جسم کی ہڈیاں بچ گئی تھیں مگر زخم بہت گہرے تھے۔ خون مسلسل بہتا رہا تھا جس کی وجہ سے اس کے جسم میں خون کی کمی واقع ہو گئی تھی۔ ڈاکٹر نے فوری طور پر خون کی دو بوتلوں کا انتظام کرنے کے لیے کہا تھا۔ میں نے بلڈ بنک سے رابطہ کیا مگر مطلوبہ گروپ کا خون دستیاب نہیں تھا۔ اتفاق سے میرا اور قمر کا بلڈ گروپ بھی مختلف تھا۔ سعدیہ ابھی تک وہیں تھی وہ بھی خاصی پریشان تھی۔ میں نے اس کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ چلی جائے لیکن وہ ٹھہری رہی تھی۔ اب اس نے ہمیں پریشانی کے عالم میں دیکھا تو اس نے کہا کہ میرا خون لے لو۔ میں نے اسے غور سے دیکھا وہ بے حد پریشان لگ رہی تھی۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3