ایک تیکھی لڑکی اور میں


”آؤ میرے ساتھ“ میں نے کہا۔ وہ میرے ساتھ چل پڑی۔

”تمہارا بلڈ گروپ او نیگٹو ہی ہے ناں۔ “

”مجھے نہیں پتا۔ “

”اوہ! پہلے چیک کرنا پڑے گا۔ مگر دو بوتلیں چاہیں، کسی اور سے بھی لینا پڑے گا۔ “

میں نے قمر کو یونیورسٹی کے دوستوں سے رابطہ کرنے کے لیے کہا۔ سعدیہ کا بلڈ گروپ بی پازیٹو تھا۔ یہ پتا چلتے ہی اسے بڑی مایوسی ہوئی۔ وہ مدد کرنا چاہتی تھی مگر کر نہیں پائی تھی۔

”تم نے ہمارا بہت ساتھ دیا ہے۔ اگر ہم فوری طور پر راشد کو یہاں نہ لاتے تو بہت نقصان ہو جاتا۔ “ میں نے کہا۔

”پلیز ایسا مت کہو۔ میں نے کوئی احسان نہیں کیا۔ “ اس کے لہجے میں خلوص تھا۔ میں نے اس کے باوجود اس کا شکریہ ادا کیا۔ دوست آن پہنچے اور خون کا انتظام ہو گیا۔ سعدیہ جانا تو نہیں چاہتی تھی مگر میرے اصرار پر اپنے گھر چلی گئی۔ شام تک راشد کی طبیعت کچھ سنبھل چکی تھی۔ میں نے باقی دوستوں کو بھی بھیج دیا۔ قمر میرے ساتھ تھا۔ راشد پرائیویٹ روم میں تھا اور اس کا جسم پٹیوں میں جکڑا ہوا تھا۔ دواؤں کے اثر سے وہ غنودگی کے عالم میں تھا۔ تب اچانک وہاں سعدیہ آ گئی۔

”تم؟ “

”میں راشد کی حالت کے بارے میں جاننا چاہتی تھی۔ “ اس نے بتایا۔

”اب کافی بہتر ہے مگر ابھی ہسپتال میں رہنا ہو گا۔ “

” او کے۔ تم لوگوں نے کھانا کھایا؟ “ اس نے پوچھا۔

”اوہ! نہیں، خیال ہی نہیں رہا۔ “ میں نے چونک کر کہا۔

”مجھے پتا تھا، ایسا ہی ہو گا۔ باہر میری گاڑی میں کھانا موجود ہے۔ اب پہلے کھانا کھا لو پھر کوئی اور بات ہو گی۔ “ وہ بولی۔

قمر گاڑی سے کھانا لے آیا۔ کھانا کھاتے ہوئے میں سعدیہ کے بارے میں سوچ رہا تھا۔ اس کی شخصیت کا یہ پہلو نیا لیکن بہت خوبصورت تھا۔

ایک نرس نے آ کر راشد کو چیک کیا۔ پھر ڈرپ میں دو تین انجکشن ڈال کر اسے چلا دیا۔ کچھ دیر بعد ڈاکٹر صاحب نے چیک کیا اور ہمیں تسلی دی کہ سب کچھ نارمل ہے اور وہ بہت جلد صحت یاب ہو جائے گا۔ ڈاکٹر صاحب گئے تو قمر بھی اٹھ کھڑا ہوا۔

”تم کہاں چلے؟ “ میں نے پوچھا۔

”یار ذرا باہر کا چکر لگا کر آتا ہوں۔ “

میں بنچ پر بیٹھا تھا۔ سعدیہ کرسی پر بیٹھی تھی۔ قمر کے جانے کے بعد وہ اٹھی اور میرے پاس آ کر بیٹھ گئی۔

”وصی مجھے بہت دکھ ہو رہا ہے۔ ان لڑکوں نے اسے بہت بری طرح مارا ہے۔ “ وہ دھیرے سے بولی۔

”ہاں دکھ تو بہت ہے، راشد ٹھیک ہو جائے ان کو بھی دیکھ لیں گے۔ “ میں نے غصے سے مگر دبی دبی آواز میں کہا۔

” اچھا تمہارے نوٹس میرے پاس پہنچے تھے۔ میں نے کچھ ڈسکس بھی کرنا تھا۔ “ وہ بولی۔

”میرے نوٹس؟ “

”ہاں! قمر اور راشد نے تو کہا تھا کہ انہوں نے رات بھر جاگ کر نوٹس بنائے ہیں مگر مجھے پتا ہے وہ تمہاری کاوش تھی۔ “

”خیر کوئی بات نہیں۔ تم کیا ڈسکس کرنا چاہتی تھیں۔ “

”ابھی موقع نہیں پھر کبھی بات کروں گی۔ “

”اؤ کے۔ “

”سنو! تم اتنے الگ تھلگ کیوں رہتے ہو؟ “ اس نے میری طرف چہرہ گھماتے ہوئے کہا۔

”نہیں تو، ایسا نہیں ہے۔ میرے تو بہت سے دوست ہیں۔ “ میں نے حیرت سے کہا۔

عین اسی وقت قمر کمرے میں داخل ہوا۔

”دیکھو ایک دوست یہ ہے اور ایک پٹیوں میں جکڑا پڑا ہے۔ “ میں نے مسکرا کر کہا۔

”اب قمر آ گیا ہے۔ ہم تھوڑی دیر کے لیے باہر لان میں چلتے ہیں، میں نے کچھ بات کرنی ہے۔ “

وہ بولی۔

”ٹھیک ہے۔ “ میں اٹھ کھڑا ہوا۔ باہر لان میں ٹہلتے ہوئے ہم باتیں کر رہے تھے۔ پھر ایک جگہ پر رک گئے۔

”اتنا عرصہ ہو گیا ہے تم نے کبھی مجھے دیکھا بھی نہیں۔ “ سعدیہ نے عجیب سے لہجے میں کہا۔

”کیا مطلب؟ میں نے تو تمہیں کئی بار یونیورسٹی میں دیکھا ہے۔ “

”بالکل غلط، کبھی نہیں دیکھا۔ اب دیکھو میری طرف۔ “

کھمبے پر لگی ہوئی لائٹ اس کے چہرے پر پڑ رہی تھی۔ وہ میرے اتنے قریب کھڑی تھی کہ میں اس کی گرم گرم سانسیں اپنی گردن پر محسوس کر رہا تھا۔

”سعدیہ تم کیا کہنا چاہتی ہو؟ “

”وصی! میں تمہیں کیسی لگتی ہوں؟ تم نے کبھی بتایا ہی نہیں۔ “ میں چونک اٹھا۔

”تم بہت اچھی لڑکی ہو، تھوڑی تیکھی ہو مگر دل کی بہت اچھی ہو۔ ہاں بہت خوبصورت بھی ہومگر تم یہ کیوں پوچھ رہی ہو؟ “

”کیوں کہ میں تم سے بہت پیار کرتی ہوں۔ “ اس کے سرخ ہونٹ کپکپائے۔ میں نے اس کا ہاتھ تھام لیا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3