ایک تیکھی لڑکی اور میں


اس کے آنے کا پتا خوشبو دیتی تھی۔ وہ جہاں سے گزرتی ہوا میں مسحور کن مہک پھیل جاتی۔ جب وہ یونیورسٹی میں قدم رکھتی تو نہ جانے کتنی نگاہیں اس کا تعاقب کرتی تھیں یہ اور بات ہے کہ دیکھنے والے اسے چوری چوری دیکھتے تھے۔ سب کو اس کے مزاج کا پتا تھا۔ وہ جس قدر حسین تھی اتنی ہی بے باک اور نڈر بھی تھی۔ اپنی طرف غلط انداز نظروں سے دیکھنے والے کی طبیعت ایسی صاف کرتی تھی کہ اس کے بعد وہ اسے دیکھ کر راستا ہی بدل لیتا تھا۔ کئی لڑکوں نے اس کی طرف بڑھنے کی کوشش کی تھی۔ اس سے دوستی کرنا چاہی تھی مگر منہ کی کھائی تھی کیوں کہ وہ کسی کو منہ نہیں لگاتی تھی۔

اس کے بارے میں طرح طرح کی باتیں مشہور تھیں۔ کوئی اسے مغرور کہتا تھا کوئی بد دماغ۔ کئی نامراد عاشقوں نے اسے نفسیاتی مریض قرار دیا تھا۔ وہ اپنے بارے میں ہونے والی سب باتوں سے بے نیازتھی۔ روز ایک نئی تراش کے لباس میں آتی اور دل پھینک لڑکوں کے دلوں پر بجلیاں گراتے ہوئے آگے بڑھ جاتی۔ اس کے بدن کی تراش بھی ایسی تھی کہ ہر لباس اس پر سجتا تھا۔ چہرے کی خوبصورتی لفظوں میں بیان کرنا شاید ممکن نہ ہو مگر چند تفصیلیں شاید کسی حد تک اس کے خد و خال واضح کر سکیں۔ اس کی بھنویں بے حد پتلی اور باریک تھیں۔ بڑی بڑی ڈارک براؤن آنکھیں، لمبی لمبی پلکیں، بے حد چمکیلے ڈارک براؤن بال، ستواں ناک اور نتھنوں کا بے حد خفیف ابھار، بے حد سرخ گلاب کی پنکھڑیوں جیسے ہونٹ، بے حد گورے گال اور ٹھوڑی کا گڑھا جو اس کے چہرے کو مزید خوبصورت بناتا تھا۔

ہم سب فزکس ڈیپارٹمنٹ میں تھے یعنی وہ، میرے دوست اور میں۔ اپنے ڈیپارٹمنٹ میں ہونے کے باوجود اس سے کبھی بات چیت نہیں ہوئی تھی۔ اس کا نام سعدیہ تھا۔ وہ ہمیشہ اپنی دو فرینڈز اقرا اور ندا کے ساتھ نظر آتی تھی۔ وہ دونوں بھی اس کی سہیلیاں کم اور خادمائیں زیادہ لگتی تھیں۔ اس کی ہر بات پر واہ واہ کرنا اور داد دینا بھی شاید ان کے فرائض میں شامل تھا۔ اس کے والد کروڑ پتی بزنس مین تھے۔ وہ اپنی بے حد قیمتی گاڑی میں یونیورسٹی آتی تھی۔ ڈرائیور گاڑی کا دروازہ کھولتا اور وہ ایک شانِ بے نیازی سے باہر نکلتی۔ اسے دیکھتے ہی اقرا اور ندا فوراً آگے بڑھ کر اس کے دائیں بائیں چلنے لگتیں۔

میں، قمر اور راشد یونیورسٹی کے ہاسٹل میں رہتے تھے۔ قمر کو شاعری سے شغف تھا اور راشد کرکٹ کا دیوانہ تھا چناں چہ ان دونوں کو راہ پر لانے کے لیے مجھے خاصی جدوجہد کرنی پڑتی تھی۔ میں راتوں کو جاگ جاگ کر نوٹس تیار کرتا اورانہیں سنجیدگی سے پڑھائی کرنے کی تلقین کرتا رہتا تھا۔ ایک دن لنچ کے بعد جب میں ہاسٹل کے کمرے میں پڑھائی کا آغاز کرنے والا تھا تو قمر آ دھمکا۔ آتے ہی میرے سامنے بیٹھ گیا اور خواہ مخواہ مسکرانے لگا۔

”خیریت؟ یہ باچھیں کیوں کھلی جا رہی ہیں؟ “ میں نے بیزاری سے کہا۔

”گیس کرو مائی ڈئیر۔ “ اس نے دانت نکالتے ہوئے کہا۔

”تازہ غزل کا نزول لگتا ہے اور اب سمع خراشی کرنا چاہتے ہو۔ “

”جی نہیں، بات کچھ اور ہے۔ “

”تمہارا پرائز بانڈ نکلا ہے۔ “

”نہیں یار کچھ اور سوچو۔ “

”بتانا ہے بتاؤ، ورنہ جاؤ یہاں سے۔ “ میں نے تیز لہجے میں کہا۔

”اچھا اچھا بتاتا ہوں۔ آج سعدیہ سے بات ہوئی ہے۔ “ قمر بولا۔

”تم تو ایسے کہہ رہے ہو جیسے ملکہ برطانیہ سے بات کی ہو۔ اس میں اتنا سینٹی مینٹل ہونے کی کیا ضرورت ہے۔ “

”سمجھنے کی کوشش کرو یار۔ وہ میرے دل کی ملکہ ہے اور اس نے مجھے خود بلایا وہ بھی مسکراتے ہوئے۔ تم نے سنا نہیں ہنسی تو پھنسی۔ “ قمر بولا۔

”چلو یہ تو بہت اچھا ہوا۔ اب تمہاری شاعری سنور جائے گی۔ عشق میں دل ٹوٹنا شاعری کے لیے بے حد مفید ہے۔ کل جب تمہاری خوش فہمیاں دور ہوں گی پھر تمہاری شاعری میں نکھار آئے گا۔ “ میں نے سر ہلاتے ہوئے کہا۔

”جلنے کی کوئی ضرورت نہیں میرے یار، تم بھی ٹرائی کر سکتے ہو۔ میری طرف سے اجازت ہے۔ “ قمر نے بے نیازی سے کہا۔

”اجازت؟ اور تم سے؟ اول تو میں اس میدان کا کھلاڑی نہیں، ہوتا بھی تو یہ جملہ برداشت نہ کرتا۔ کہنے کو بہت کچھ ہے مگر صرف اتنا کہوں گا کہ تم انتہائی بے ہودہ انسان ہو“

” او کے سوری! آج تمہاری کسی بات کا برا نہیں مانوں گا کیونکہ میں بہت خوش ہوں۔ “ قمر نے کہا۔

عین اسی وقت راشد گنگناتے ہوئے کمرے میں داخل ہوا۔ آتے ہی ہمیں دیکھ کر پل بھر کو رکا اور پھر سے گنگنانا شروع کر دیا۔

”آپ بھی ذرا جلدی سے بتا دیں کہ اس سرشاری کا سبب کیا ہے؟ “ میں نے بھنویں اچکائیں۔

”مجھے مبارک باد دو دوستو! مجھے محبت ہو گئی ہے۔ “ راشد مسکرایا۔

” شکر ہے کرکٹ کے عشق کے بعد محور بدلا۔ کون ہے وہ بد نصیب؟ “ میں نے پوچھا۔

”بد نصیب نہیں دوست خوش نصیب تم جلن میں الٹ بول گئے۔ اور میں تو مقدر کا سکندر ہوں، جسے چاہا تھا وہ بالآخر میری طرف ملتفت ہو گیا۔ جانتے ہو کون ہے وہ؟ “

”ایک اندازہ ہے، وہ روکھی پھیکی لائبریرین امِ حبیبہ ہی ہو سکتی ہے۔ کل بڑی پیار بھری نظروں سے تمہیں دیکھ رہی تھی لیکن یار وہ بالکل ہڈیوں کا ڈھانچہ ہے اور عمر میں تم سے دگنی ہے، خیر تمہاری قسمت میں وہی لکھی تھی۔ جب میاں بیوی راضی تو کیا کرے گا قاضی۔ “ میں نے پر خیال لہجے میں کہا۔

”ناؤ دس از ٹو مچ۔ اتنا حسد اچھا نہیں ہوتا۔ سنو گے تو ہوش اڑ جائیں گے، اس کا نام سعدیہ ہے۔ میں کینٹین کے پاس سے گزر رہا تھا کہ اس نے خود مجھے بلایا اور حال احوال پوچھا۔ تم خود سوچو جو لڑکی کسی لڑکے کو گھاس نہیں ڈالتی، اس نے مجھے بلایا اور چائے پینے کی دعوت دی۔ “ راشد بولا۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3