جمہوریت نہیں ٹیکنوکریسی چاہیے


جمہوریت حکومت چلانے کی وہ طرز ہے، جہاں عوام ووٹ کے ذریعے اپنے لئے نمایندے منتخب کرتے ہیں اور حکومت قائم ہو جاتی ہے۔ مغربی ممالک میں جہاں جہاں جمہوریت ہے اکثر کامیاب دکھائی دیتا ہے لیکن پاکستان میں سات دہائیاں گزرنے کے بعد بھی لوگ طرز حکمرانی سے مطمئن نہیں۔ جمہوریت ایک اچھا نظام حکومت ہے لیکن صرف ان کے لئے جو پڑھے لکھے ہوں۔ صحیح اور غلط میں فرق کرسکتے ہوں۔ اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے میں کسی کو مداخلت نہ کرنے دیتے ہوں۔ بد قسمتی سے پاکستان میں مفلوج جمہوریت تو ہے لیکن اس ملک کے عوام آج تک یہ فیصلہ نہ کرسکے کہ ان کے لئے کون اچھا ہے کون برا۔ اس کی اصل وجہ تعلیم کی کمی اور حکومت چلانے کے طریقے سے بے خبری ہے۔

پاکستان میں جب الیکشن ہوتا ہے تو سیاسی ماحول یک دم گرم ہو جاتا ہے۔ ہرکوئی اپنے اپنے سیاسی نعروں کے ساتھ میدان میں اترتا ہے اور عوام کو چونا لگانے کی کوشش کرتا ہے۔ شروع ہی سے یہی گنے چنے لوگ حکمرانی کر رہے ہیں۔ کسی نے روٹی کپڑا اور مکان دینے کی لالچ دے کر عوام سے ووٹ لیا اور اقتدار کے مزے لوٹنے لگا، تو کوئی جابر حکمرانوں سے انصاف دلانے کے بہانے آیا اور مہنگائی کا طوفان برپا کر دیا۔ یہاں پاکستان پیپلز پارٹی سے لے کر پاکستان مسلم لیگ نون اور پاکستان تحریک انصاف سمیت دیگر چھوٹے بڑے سیاسی اور مذہبی کارڈ استعمال کرنے والے جماعتوں کا مقصد صرف اقتدار میں آنا ہوتا ہے۔ نا کہ عوام اور اس ملک کی بھلائی کے لئے کام کرنا، ورنہ تو سات دہائیاں گزرنے کے بعد بھی قدرتی وسائل سے مالامال اس ملک کا یہ حال نہ ہوتا۔

آزادی سے اب تک غریب عوام ظالم حکمرانوں کی چکی میں پستا چلا آرہا ہے۔ نا تو عوام کو معیاری تعلیم دی گئی، نہ یہ لوگ مغرب کی طرح با شعور ہوئے اور نہ اس ملک کی اقتصادی حالت بہتر ہوئی بلکہ آج بھی ملک کی وہی حالت ہے جوآزادی سے پہلے تھی۔ اس ملک پر جمہوری حکمرانوں کے ساتھ ساتھ عسکری قیادت نے بھی بڑا ظلم کیا ہے۔ آج کی خراب معیشت، غربت، بے روزگاری، صحت کے مسائل، تعلیم کی کمی اور دیگر معاشرتی مسائل کی سب سے بڑی وجہ پاکستان میں بیمار جہموریت اور ڈکٹیٹر شپ کیہے، کیونکہ یہاں حکمرانوں نے پرانے زمانے کی طرح لوگوں کو اپنا غلام بنا لیا ہے۔ یہاں حکمرانوں نے یہ کبھی نہیں چاہا کہ اس ملک میں بسنے والے تعلیم یافتہ ہو، باشعور ہو، اگر ایسا ہوتا تو پھر مغربی ممالک کی طرح پاکستان میں بھی لوگ حکمرانوں سے ان کی کارکردگی کے بارے میں پوچھتے۔

آج کل ملک میں جو حالات ہیں، کوئی نہیں جانتا کہ جمہوریت ہے یا ڈکٹیٹر شپ، پاکستان تحریک انصاف کی حکومت پر شروع سے یہ داغ ہے کہ ان کے اقتدارمیں لانے میں اسٹیبلشمنٹ کا بڑا کردار ہے، اور انہی لوگوں کے اشاروں پر حکومت گامزن ہے۔ تحریک انصاف نے اقتدار میں آنے سے قبل لوگوں کو انصاف دلانے کے وعدے کیے تھے مگر خود بڑے بے انصاف نکلے۔ اس متنازع جمہوری حکومت نے مہنگائی کے سارے ریکارڈ توڑے، معیشت کا وہ حال کر دیا جو کسی ڈکٹیٹر نے کیا تھا، نہ کسی کرپٹ جمہوری حکمران نے۔ ملک کو اندرونی اور بیرونی سیکیورٹی خطرات سے دوچار کیا اور بقول مولانا فضل الرحمان، کشمیر کا سودا بھی کر دیا ہے۔

پاکستان میں غریب آئے دن غربت میں ڈوبتا جارہا ہے اور امیروں اور حکمرانوں کی عیاشیوں میں دن بدن اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ یہ حکمران اگر کسی ترقی یافتہ ممالک میں چلے جاتے ہیں تو وہاں کے عالی شان محلوں کی نقل اور بہترین طرز زندگی اپنی ذات کے لئے بہت جلد اپناتے ہیں لیکن ان ممالک میں لوگوں کی خوش حال زندگی کا راز جاننے کی زحمت گوارا نہیں کرتے۔ ترقی یافتہ ممالک میں بسنے والے لوگوں کی زندگی جیسے تو پاکستان عوام سوچ بھی نہیں سکتے۔ البتہ اگر سوچتے ہیں تو یہ کہ پینے کے لئے کل پانی ملے گا کہ نہیں، آج کا روزگار کل تک ہاتھ میں ہو گا یا نہیں۔ بچوں کو تعلیم دلا سکیں گے؟ سرکاری اسپتالوں میں اپنے خاندان کا علاج کرواسکیں گے یا وہ سب ضروریات جو انسان کی روزمرہ زندگی سے وابستہ ہیں، ان سے یہ لوگ محروم رہیں گے؟

جمہوریت میں ہمارے حکمرانوں کی دل چسپی اتنی ہے کہ موجودہ حکومت کی اڑتالیس رکنی کابینہ میں 17 غیر منتخب نمایندے شامل ہیں۔ فردوس عاشق اعوان کو وزارت اطلاعات کے لیے مشیر مقرر کیا گیا ہے وہ گزشتہ عام انتخابات میں سیالکوٹ سے ہار گئی تھیں۔ اسی طرح وزیر اعظم کی جگہ  کابینہ ڈویژن کے اجلاس کی صدارت کرنے والے غیرمنتخب نعیم الحق  کی واحد کوالیفیکیشن وزیر اعظم سے دوستی ہے۔ ایک غیر منتخب مشیر کیبنٹ ڈویژن کے ایک اہم اجلاس کی صدارت کس قانون کے تحت کر سکتے ہیں؟

اب اگر منتخب اور غیر منتخب نمایندوں کی یہی حیثیت ہے تو کیوں نا اس ملک میں ماہرین فن کی حکومت قائم کی جائے؟ ٹیکنو کریسی آنے سے انتخابات میں دھاندلی کا ڈھنڈورا پیٹنے والوں کا منہ بھی بند ہو جائے گا، لوگوں کو بھی کرپٹ سیاسیتدانوں سے الرجی ہے، ان سے چھٹکارا بھی مل جائے گا اور وزارتوں میں ماہر لوگ بیٹھیں گے۔ کیونکہ تحریک انصاف کے جمہوری حکومت کا معیار تو یہ ہے کہ پچھلے دور حکومت میں خیبر پختون خوا کی وزارت تعلیم ایف، اے فیل نمایندے کو سونپی گئی تھی اور آج بھی پختون خوا کے سارے یونیورسٹیوں کا چانسلر کہلانے والا صرف میٹرک پاس ہیں۔ ان کو تعلیمی سرگرمیوں کا اتنا شوق ہے کہ کرکٹ میچ کے لئے صاحب نے پشاور یونیورسٹی کے طلبا کے ڈگری ڈسٹریبوشن پروگرام کینسل کر دیا تھا۔

پارلیمانی نظام جمہوریت پاکستان کے لیے موزوں نہیں، جس کا اندازہ قائد اعظم محمد علی جناح نے بہت پہلے ہی لگا لیا تھا۔ 10 جولائی1947ء کو قائد اعظم نے از خود تحریر کردہ نوٹ میں فرمایا، پارلیمانی قسم کی حکومت صرف انگلستان ہی میں کامیاب رہی ہے۔ اس کے علاوہ کہیں بھی نہیں۔ صدارتی قسم کی حکومت پاکستان کے لیے زیادہ موزوں ہے۔ قائد اعظم کو بہت اچھی طرح سے اندازہ تھا کہ جاگیردارانہ ذہنیت جس کا غلبہ مغربی پاکستان میں بہت ہے، اپنے ذاتی مفادات کے لئے جمہوریت کا گلا گھونٹے گی۔ وقت نے قائد اعظم کو درست ثابت کر دیا۔ اگر وہ کچھ دن اور حیات پا جاتے تو وہ ضرور آئین کو صدارتی نظام میں تبدیل کر دیتے، کیونکہ صدارتی نظام میں ٹیکنو کریسی کو رائج کرنے کی گنجائش ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).