کینیڈا میں 2019ء کے وفاقی انتخابات


کینیڈا میں 21 اکتوبر کو وفاقی انتخابات ہو رہے ہیں۔ کینیڈا میں وفاقی، صوبائی اور مقامی تین سطح کی حکومتوں کے لئے انتخابات منعقد ہوتے ہیں لیکن یہ انتخابات اپنے اپنے علیحدہ اوقات میں ہو رہے ہوتے ہیں۔ وہاں ممکن نہیں ہوتا کہ قومی اسمبلی کے انتخابات کا اثر صوبائی اور صوبائی انتخابات کا مقامی حکومت پر پڑے یا قومی حکومت دوسری سطحوں پر اپنا اثر ڈال سکے۔ آئین کے مطابق ہر سطح کی حکومت اپنے دائرہ کار میں آزاد اور خود مختار ہوتی ہے۔

قومی اور صوبائی سطح کے انتخابات مقامی انتخابات کی نسبت آسان سمجھے جاتے ہیں۔ جب کسی شخص کو پارٹی لیڈر بنایا جاتا ہے تو کم از کم پہلا انتخاب اس کے ذاتی کرشمہ (Charisma) پر لڑا جاتا ہے۔ اس کے بعد آنے والے انتخابات کی بنا پارٹی کی کارکردگی پر ہوتی ہے۔ جس طرح پچھلے انتخابات میں لبرل پارٹی نے جسٹن ٹروڈو کی کرشماتی شخصیت کی وجہ سے غیر معمولی اکثریت حاصل کی تھی۔ مرکزی لیڈر کی اس شخصیت کے اثر کی وجہ سے بہت سے غیر معروف یا پہلی دفعہ سامنے آنے والے ممبران قومی اسمبلی بھی اپنی نشست جیتنے میں کامیاب رہے تھے۔ اسی طرح چند سال قبل کینیڈا کی تیسری بڑی پارٹی این ڈی پی کے لیڈر جیک لیٹن کی شخصیت کی وجہ سے پارٹی کی مقبولیت میں غیر معمولی اضافہ ہوا تھا۔ جیک کی کینسر کے ہاتھوں موت کے بعد اب پارٹی قیادت ایک بہت متحرک وکیل جگمیت سنگھ کے ہاتھوں میں ہے جن کی پسند اور ناپسندیدگی مختلف وجوہات کی وجہ سے ساتھ ساتھ چل رہی ہے۔

مقامی شہری انتخابات غیرجماعتی ہوتے ہیں اس لئے وہ خالصتاً اپنے ذاتی تعلق، تحرک اور خدمت خلق کی بنیاد پر لڑے جاتے ہیں۔ وفاقی انتخابات میں حصہ لینے کی ایک ہی بنیادی شرط ہے کہ آپ کینیڈا کے شہری ہوں، آپ پورے ملک کے کسی بھی حلقے سے انتخاب لڑ سکتے ہیں۔ واضح رہے کہ دہری یا تہری شہریت رکھنے والوں پر بھی انتخاب لڑنے کی قدغن نہیں ہے۔ شہریت کا حصول آپ کو اس بنیادی حق کی ضمانت دیتا ہے۔ نہ جانے پاکستان میں دہری شخصیت رکھتے ہوئے انتخاب لڑنے پر روک کیوں لگائی جاتی ہے۔

جسٹن ٹروڈو جہاں پچھلے انتخابات میں غیر معمولی بھاری اکثریت سے کامیاب ہوئے تھے اس دفعہ اتنی بھاری اکثریت سے کامیاب ہوتے نظر نہیں آ رہے۔ ایک طرف ذاتی کرشمے کے ساتھ ساتھ ان کی پارٹی کا مثبت پہلو یہ ہے کہ لبرل حکومت نے انتخابات میں کئے 92 فیصد وعدے پورے کئے ہیں تو دوسری طرف صوبہ البرٹا میں بے روزگاری ، پارٹی کے اندر SNC سکینڈل ( تفصیل کے لئے دیکھیں “کینیڈین انتخابات اورجسٹن ٹروڈو کی مشکلات“) اور ذاتی سکینڈل جس میں جسٹن نے ایک کالے کا روپ دھارا تھا، مشکلات کا سبب بن رہے ہیں۔ خطے کی سیاست خصوصاً امریکی صدرکے ساتھ اختلاف بھی محدود سطح پر جسٹن ٹروڈو کی لبرل پارٹی کے لئے مشکلات کا باعث بن سکتے ہیں۔

کینیڈا ایک مہاجر ملک ہونے کی وجہ سے یہاں بہت زیادہ دائیں یا بہت زیادہ بائیں کی بجائےتمام پارٹیاں نسبتاً اعتدال پسند منشور رکھتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستانی، ہندوستانی، چینی نژاد تمام پارٹیوں کی طرف سے انتخاب لڑ رہے ہیں۔ اس وقت پاکستان سے تعلق رکھنے والی سلمی زاہد اور اقراء خالد لبرل کی طرف سے وفاقی پارلیمنٹ کی ممبر ہیں۔ آنے والے انتخابات میں بھی کچھ پاکستانی نژاد افراد مختلف پارٹیوں کی طرف سےانتخابات میں حصہ تو لے رہے ہیں لیکن ابھی تک اپنا کوئی تاثر چھوڑنے میں کامیاب نہیں ہو سکے۔ خادم کے ذاتی خیال میں کچھ افراد کے لئے انتخاب جیتنے یا پارٹی منشور کو آگے لے جانے کی بجائے “کمپنی کی مشہوری” مطلوب ہے۔

الیکشن والے دن سے کافی عرصہ پہلے لوگوں کو آپشن دی جاتی ہے کہ وہ ڈاک کے ذریعے اپنا ووٹ ڈال دیں، پھر ایڈوانس پول کے لئےمختلف سینٹر بنائے اور دن مختص کئے جاتے ہیں۔ ہر شہری اپنی سہولت سے ان دنوں میں جا کر بھی ووٹ ڈال سکتا ہے۔ ہر دفعہ ایڈوانس پولنگ میں حق رائے دہی کرنے والوں میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ انتخابات والے دن بڑی خاموشی اور سکون سے لوگ آتے اور ووٹ ڈالتے جاتے ہیں۔ بطور ریٹرننگ آفیسر ذمہ داری کا تجربہ ہونے کے یہ خادم جانتا ہے کہ کتنے پرسکون ماحول اورطریق کار سے شہری اپنی قومی ذمہ داری پوری کرتے ہیں اور حکومت ہر ممکن کوشش کرتی ہے کہ کوئی بھی شہری انتخابی عمل میں حصہ لینے سے محروم نہ رہے۔

پولنگ بند ہونے کے چند گھنٹوں کے اندر ہی رزلٹ آنا شروع ہوجاتے ہیں اور کچھ گھنٹوں میں حتمی نتائج نہ ہونے کے باوجود بھی شکست و فتح کا اندازہ ہو جاتا ہے۔ حتمی نتائج سے بہت پہلے ہی رات دیر گئے ہارنے والا لیڈر جیتنے والے کو مبارک باد دے کر اپنی ہار تسلیم کر لیتا ہے، اپنے لوگوں کا شکریہ ادا کرتا اور اپوزیشن میں اپنے مثبت کردار کے لئے تیار ہو جاتا ہے۔ اسی طرح جیتنے والا بھاری ذمہ داریوں اور وعدوں کا بوجھ اٹھائے کارحکومت کے لئے کمربستہ۔

مختلف جائزوں  (Surveys) کے مطابق دونوں بڑی پارٹیاں اس وقت تقریباً برابر جارہی ہیں۔ آئندہ چند دنوں میں دیکھنا ہوگا کہ جسٹن ٹروڈو بطور وزیراعظم اپنی ذمہ داریاں سر انجام دیتے رہیں گے یا انہیں اپوزیشن کی نشستوں پر بیٹھنا پڑے گا۔ خاکسار کے اپنے اندازے کے مطابق معلق لبرل حکومت کا امکان ہے جسے این ڈی پی کی حمایت چاہیے ہو گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).