سارے موسم من کے موسم 


کچھ لوگوں کے نزدیک باہر کے موسم کا اندر کے موسم سے گہرا تعلق ہوتا ہے۔ اندر کا موسم تب خوش گوار ہو گا جب باہر کا موسم دل فریب اور حسین ہو گا لیکن میرے نزدیک حقیقت اس کے برعکس ہے۔ سارے موسم من کے موسم ہوتے ہیں۔ موسم تو انسان کے اندر اس کلی سے پھوٹتا ہے جو وجود قلب میں پیوست ہوتی ہے۔ بظاہر موسمی بارش انسان کے من کے اندر خوشی کے شادیانے نہیں بجا سکتی اس کے من کے صحن میں برستی بارش کی وجہ سے موسمی بارش اسے  آسمان سے گرتے آنسو لگیں گے جو اس کے جذبات کی ترجمانی کر رہے ہیں۔ موسم کی بارش تو من کی بارش کا استعارہ ہے گرما۔ سرما خزاں بہار تو سب عارضی علامتی موسمی استعارے ہیں، اصل موسم تو من کا موسم ہوتا ہے۔

دل نا امید تو نہیں ناکام ہی تو ہے
لمبی ہے غم کی شام مگر شام ہی تو ہے

انسان جون جولائی کی موسمی سختی کو برداشت کرنے کی سکت رکھتا ہے اور خوش رہتا ہے۔ جب یہ گرم موسم من کے اندر وصالِ یار کے موسم بن جائیں۔ ورنہ ماہ دسمبر بھی اگر من کے اندر  ہجر کا موسم لائے تو یہ پر کیف نظارے بھی من کے اندر خوشیوں کے شادیانے نہیں بجا سکتے۔ من تو پھر بھی وصال یار کے موسم کا منتظر ہی رہے گا جس طرح باہر کا موسم دکھائی نہیں دیتا محسوس ہوتا ہے اسی طرح من کا موسم بھی محسوس ہوتا ہے دکھائی نہیں دیتا۔ ہر انسان اپنی عمر کے ادوار میں اپنے من کے موسموں سے گزرتا ہے، فرق صرف یہ ہے کہ کسی پر کوئی موسم پہلے آتا ہے کسی پر بعد میں۔

درد آشنا وہی ہے جس پر وہ موسم گزر چکا ہو

من کے موسم میں اگر بہار ہو تو اکیلا انسان بھی انجمن ہوتا ہے لیکن اگر من کے موسم میں خزاں اتر آئے تو زندگی اپنی تمام رعنائیوں اور رنگینیوں کے باوجود اپنا اثر کھو دیتی ہے۔ انسان کو اپنی زندگی کے کینوس پر بکھرتے دلفریب رنگ بھی متاثر نہیں کرتے۔ انسان کی سوچ اس کے حالات اور خیالات پر گہرے نقوش چھوڑتی ہے۔

انسان کے من کا موسم ہی اسے زندگی کی صعوبتوں اور پریشانیوں سے نکال لاتا ہے اور مقابلہ کرنے کی ہمت پیدا کرتا ہے۔ لیکن اگر من کے موسم میں غم کی شام لمبی ہو جائے اور سورج  طلوع نہ ہو  تو یہی من کا موسم اسے کمزور بنا دیتا ہے اور اندر ہی اندر اس کے وجود کو کھا جاتا ہے۔

من کا ایک موسم برسات کا بھی ہوتا ہے جب انسان اپنے اوپر اپنے پروردگار کی طرف سے برستی عنایات کی بارش میں صبر و شکر کرتا ہے۔ وہ اپنے پروردگار کی طرف سے دی گئی لاتعداد نعمتوں کو بارش کے ان گنت قطروں سے متشابہ کرتا ہے اور اس کا من خدا کے شکر میں بھیگا رہتا ہے۔ من کے صحن میں ہجر وصال، خوشی غم، خزاں بہار کے موسم  اترتے ہیں لیکن آج کا انسان تو من کے موسم سے بےخبر ہے۔

کون سا موسم اس کے من پر کب اترتا ہے اور کیا نقوش چھوڑتا ہے اسے پتہ ہی نہیں چلتا۔ وہ دور کے سیٹلائیٹ سے موسم کی جانچ پڑتال کرتا ہے لیکن من کے موسم کی سائنس کو نہیں سمجھتا۔

سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ ہم اپنے من کہ موسم کو اچھا کیسے رکھیں؟ جب انسان صبر و شکر کا دامن تھام لے اور اپنے پروردگار کی رضا کو اپنی رضا سمجھے تو وہ اپنے من کے موسم میں ہمیشہ خوش رہتا ہے کیونکہ سارے موسم من کے موسم۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).