کیا سری لنکا کے خلاف نمبر ون ٹی ٹونٹی ٹیم کی شکست کے ذمہ دار مصباح الحق ہیں ؟


جب پاکستان کی ہوم سیریز کےلیے سری لنکا کی کرکٹ ٹیم کے دس کھلاڑیوں نے آنے سے انکار کر دیا تو ان کے کرکٹ بورڈ کو ایک بالکل نئی اور نسبتاً کمزور ٹیم کا اعلان کرنا پڑا۔ جس سے مجھ جیسے کرکٹ کے شائقین کو مایوسی ہوئی کہ اب تو یہ ہوم سیریز یک طرفہ ہی ثابت ہوگی اور ہماری قومی ٹیم کے کھلاڑی اپنے ہوم گروانڈ پر اپنے لوگوں کے سامنے ایک کمزور ٹیم کے خلاف ریکارڈ بنا ڈالیں گے اور ہم دونوں سیریز با آسانی جیت جائیں گے۔

مگر بات پاکستان کرکٹ ٹیم کی ہو اور کوئی انہونی نہ ہو، یہ کیسے ہو سکتا ہے۔ ون ڈے سیریز ، جس میں لگتا تھا کہ شاید کوئی اپ سیٹ ہو جائے، وہ تو ہماری ٹیم نے جیسے تیسے کر کے جیت لی۔ اصل دھچکا ٹی ٹونٹی سیریز میں لگا جو ہماری ٹیم تین صفر سے ہار گئی۔ ایک ایسا فارمیٹ جس میں ٹیم پاکستان نمبر ون ہے اور پچھلے سال جس ٹیم نے سب سے زیادہ مسلسل میچ جیتنے کا ریکارڈ بنایا، وہ عالمی رینکنگ میں نمبر آٹھ اور تقریباً سارے نئے کھلاڑیوں پر مشتمل ٹیم سے اتنی بُری طرح سے ہار گئی۔ تو بجائے اس کی وجوہات تلاش کرنے کے اس ہار کا ذمہ دار کچھ عرصہ پہلے ہی بنائے گئے چیف سلیکٹر اور کوچ مصباح الحق کو بڑی آسانی سے ٹھہرا دیا گیا۔

کیونکہ الیکٹرانک اور سوشل میڈیا پر کرکٹ تجزیہ کاروں اور شائقین کی طرف سے مصباح  پر ہی انگلیاں اٹھائی گئیں۔  یہاں تک کہ سیریز کے اختتام پر پریس کانفرنس میں بھی ان سے کیے گیے سوالات اس طرح کے تھے جن سے لگتا تھا کہ شاید پاکستان کرکٹ میں اگر کچھ غلط ہوا ہے تو بس مصباح الحق کی بطور چیف سلیکٹر اور کوچ تقرری ہے۔ اور ان سوالات کے جواب دیتے ہوئے ان کو یہ کہنا پڑ گیا کہ شاید دس دنوں میں انھوں نےہی ٹیم کو غلط گائیڈ کیا ۔جو دائیں ہاتھ سے بیٹنگ اور باولنگ کرتے تھے ان کو انھوں نے بائیں ہاتھ سے کھیلنے کا کہہ دیا تھا جس کی وجہ سے ٹیم اتنے بری طرح سے ہار گئی۔

اصولاً اگر دیکھا جائے تو صرف دس دن پہلے اپنا عہدہ سنبھالنے والا ایک شخص کیسے ہار کا اکیلا قصور وار ہو سکتا ہے ۔ لیکن ہمارے ہاں کب کوئی اصول لاگو ہوتا ہے۔  یہاں پر تو مصباح کو عہدے ملنے کے فوراً بعد ہی تنقید شروع ہوگئی تھی۔ جو سرا سر غلط ہے۔ ہاں مصباح سے احمد شہزاد اور عمر اکمل کو سلیکٹ کرنے کی غلطی ضرور ہوئی۔  ان دونوں پلیرز کو اس سے پہلے بہت مواقع مل چکے تھے اس لیے ان کی جگہ پر نئے کھلاڑیوں کو موقع دیا جاتا تو زیادہ اچھا تھا۔ بہر حال تیسرے میچ میں یہ دونوں نہیں کھیلے مگر ہماری ٹیم پھر بھی ہار گئی۔

اس لیے ہماری ٹیم کی شکست میں اس کے علاوہ  کئی اور بھی عوامل کار فرما تھے۔  جن میں بیک اپ پلیرز کا نہ ہونا، ٹی ٹونٹی کے نمبر ون بیٹسمین بابر اعظم کا سکور نہ کرنا،  باولرز خاص طور پر سپنرز کی ناقص باولنگ ، کپتان کی بطور کپتان اور کھلاڑی ناقص کاردگی اور انتہائی بری فیلڈنگ شامل تھے۔ جو پہلے ہماری ٹیم نے میچز جیتے تھے ان میں زیادہ تر میں بابر اعظم نے یا فخر زمان نے رنز بنائے تھے جو دونوں اس سیریز میں ناکام ہوئے۔ اس لیے صرف ایک یا دو کھلاڑیوں پر انحصار درست نہیں ہے۔ اور باقی جو بیٹسمین اتنے چانسز ملنے کے بعد پرفارم نہیں کر رہے چاہے وہ کپتان ہی نہ ہو ان کی جگہ ٹی ٹونٹی کے جارہانہ انداز کے نئے بیٹسمین ڈھونڈنے کی ضرورت ہے۔

پھر ہماری ٹیم کی اصلی طاقت باولنگ ہی رہی ہے۔ خاص طور پر اسپن باولنگ نے ہمیں بہت سارے میچز جتوائے ہیں۔  لیکن اس سیریز میں فاسٹ باولرز کا حال یہ تھا کہ آخری اوورز میں یارکرز کروانے کی کوشش کی ہی نہیں گئی اور شروع میں بہتر باولنگ کروا کے وکٹیں حاصل کرنے کے باوجود آخر میں تجربات کر کے اتنے رنز بنوا دیے گیے۔  اور سپنرز جو کہ مڈل اوورز میں رنز روک کر دوسری ٹیموں کو پریشر میں لاتے تھے اس سیریز میں بالکل آوٹ آف فارم نظر آئے۔ خاص طور پر شاداب خان جو کہ اب ٹیم کا مستقل حصہ ہیں مگر ان کی کارکردگی میں مستقل مزاجی نہیں رہی ہے نہ صرف وکٹیں نہیں لے رہے بلکہ رنز بھی بہت دے رہے ہیں ۔ ان کو اپنی باولنگ پر۔ بہت کام کرنے کی ضرورت ہے جب کہ اس کے ساتھ نئے سپنرز ڈھونڈنے کی بھی ضرورت ہے۔  اور باولنگ کوچ وقار یونس کو فاسٹ باولرز کے ساتھ یارکرز اور ڈیتھ باولنگ کے حوالے سے خاص طور پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔

اسی طرح فیلڈنگ آج کل کی کرکٹ میں اتنی ہی اہم ہے جتنی باولنگ اور بیٹنگ ہے۔  اس کو اچھا کیے بغیر کبھی بھی میچز نہیں جیتے جا سکتے اس کے لیے ایک اچھے فیلڈنگ کوچ کا تقرر ضروری ہے۔ اور سب سے اہم ہمارے کپتان صاحب کی اپنی پرفارمنس ہے جو کہ بہت بڑا سوالیہ نشان ہے۔  اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ سرفراز احمد کی ہی کپتانی میں ہماری ٹیم ٹی ٹونٹی میں نمبر ون بنی ہے مگر جیتیے ہوئے میچز میں بھی ان کی کارکردگی بطور بیٹسمن اچھی نہیں رہی۔ کپتان صاحب کی کوشش ہوتی تھی کہ خود نہ ہی بیٹنگ پر آنا پڑے۔ مگر اس سیریز میں مصباح الحق کے کہنے پر ان کو اوپر کھیلنا پڑا اور وہ ون ڈے اور ٹی ٹونٹی سب میچوں میں بری طرح فلاپ ہوئے۔  ان کو زیادہ سے زیادہ بطور کپتان ایک اور سیریز دے دینی چاہئیے اگر اس میں بھی اپنی بیٹنگ میں پرفارم نہ کرسکیں تو پھر ان کو ٹیم میں رہنے کا کوئی جواز نہیں ہوگا۔

ان سب عوامل پر مصباح الحق ضرور سوچیں گے اور ان کا حل ڈھونڈنے کی کوشش بھی کریں گے۔ کیونکہ پاکستان کرکٹ ٹیم کی کوچنگ کرنا بالکل بھی آسان نہیں ہے۔ مگر گراونڈ میں جا کر تو کھلاڑیوں نے ہی پرفارم کرنا ہوتا ہے۔ اس لیے ناکامی کی صورت میں صرف کوچ کو موروالزام ٹھہرانا عقلمندی نہیں ہے۔  کیوں کہ اس سے پہلے یہاں کوچ مکی آرتھر کو ہارنے کی صورت میں گالیاں پڑتی تھیں۔ حیرت ہے جو لوگ ان کو تب صلواتیں سناتے نہیں تھکتے تھے اب انھوں نے مکی کو مس کرنا شروع کر دیا ہے۔

لہذا  تنقید کرنے والوں کو تھوڑا صبر کرنا چاہیئے اور مصباح الحق کو تھوڑا وقت تو دینا چاہیئے۔ ویسے بھی ایک ہی شخص کو چیف سلیکٹر اور کوچ بنائے جانے کا تجربہ پہلی دفعہ کیا گیا ہے۔ جو کہ ایک اچھا فیصلہ ہے جس سے امید ہے اچھے نتائج  برآمد ہوں گے۔  اور مصباح الحق کامیاب کپتان کی طرح تنقید کی پرواہ کیے بغیر اپنی پرفارمنس کی بنیاد پر کوچ اور سلیکٹر بھی کامیاب ثابت ہوں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).