ڈرنا تو بنتا ہے۔۔۔


حکومت کو مولانا سے ڈرنا چاہیے۔ ڈرنا چاہیے اس انداز سے جس میں مولانا کو یقین ہے کہ دھرنے سے پہلے حکومت گھر چلی جائے گی۔

ڈرنا چاہیے اُس تیاری سے جو ڈنڈوں کی اور سلامی دیتی فورس کی صورت بغیر خوف و خطر جاری ہے۔ ڈرنا چاہیے اُس بیانیے سے جو مولانا نے ابھی دیا بھی نہیں مگر دیا تو کچھ بچے گا بھی نہیں۔

ڈرنا چاہیے اُس وقت سے کہ جب بقول مولانا عوام کا سمندر اسلام آباد کی جانب روانہ ہوگا اور اس حکومت کو خس و خاشاک کی مانند بہا لے جائے گا۔

اور ڈرنا چاہیے اُس یقین سے جو چیخ چیخ کر بتا رہا ہے کہ مولانا نے کبھی کچی گولیاں نہیں کھیلیں۔

حکومت کو ڈرنا تو نواز شریف سے بھی چاہیے جو جیل میں بند ہے مگر اُس کی آواز عوام تک پہنچ گئی ہے یا پہنچا دی گئی ہے۔

حکومت کو ڈرنا چاہیے اُس پیغام سے جو جیل میں بند ہونے کے باوجود عوام تک پہنچانا یقینی بنایا گیا۔ اور حکومت کو ڈرنا چاہیے اُس انداز سے کہ جس سے مولانا کی پریس کانفرنس تو چلانے سے رُکوا دی گئی لیکن نواز شریف کا پارٹی کارکنوں کے نام پیغام نہ رُکوایا جا سکا۔

حکومت کو ڈرنا شہباز شریف سے بھی چاہیے جن کے اجلاس کی کہانی منظر عام پر آگئی اور وہ خود پس منظر میں چلے گئے۔

شہباز شریف کی کمر درد سے بھی ڈریں، یہ بڑے ہی اہم وقت پر نکلتی ہے اور بڑے ہی اہم لوگوں تک پہنچ جاتی ہے۔ کتنی عجیب بات ہے کہ جس اجلاس کی لمحہ بہ لمحہ کارروائی کسی جاسوس یا جاسوسہ کے ذریعے سُنوائی جا رہی تھی اُس سے بھی اپنے مطلب کے نتائج ہی حاصل کئے گئے ہیں۔

ڈریں اُس وقت سے کہ شہباز کی پرواز ہو اور بھائی کی آواز ہو مگر اس کے لئے مارچ پلس کے آخری اور حتمی مرحلے کا انتظار ضروری ہے۔

ہاں ڈرنا تو حکومت کو اُس مرحلے سے بھی چاہیے جب کراچی سے بلاول بھٹو عوامی تحریک کا آغاز کر دیں اور 18 تاریخ یعنی مولانا کے مارچ سے ٹھیک نو دن پہلے عوام کی نبض پکڑنے کی کوشش کریں۔

ڈرنا تو بنتا ہے کہ بلاول بھٹو عوامی جذبات کی ترجمانی ٹھیٹھ سیاسی انداز میں کرتے ہوئے وقت سے پہلے ایسا ماحول اور پچ تیار کر دیں کہ جس میں حکومت اور سہولت کاروں کی مشترکہ رخصتی کا سامان ہو۔

یاد رہے کہ مولانا یا نون لیگ ابھی تک صرف حکومت تک ہی محدود ہیں۔ ڈرنا تو حکومت کو چاہیے کہ کہیں سہولت کاروں کے نام ہی منظر عام پر نہ آجائیں اور دباؤ کہیں اور بڑھتا دکھائی دے۔

اور ہاں ڈرنا تو حکومت کا خود سے بھی بنتا ہے کہ کہیں اُن کے ساتھ ہی کوئی ہاتھ نہ ہو جائے۔

ویسے حکومت کو یقین ہے کہ اُنھیں کوئی نہیں ہٹا سکتا۔ اور کیوں نہ ہو اُن کے اس یقین کے پیچھے کوئی غیر یقینی نہیں بلکہ انتہائی بااثر اور غیر مرئی طاقتیں ہیں۔

اور ہاں ڈرنا تو حکومت کو اُس میڈیا سے بھی چاہیے جس میں چار و ناچار وہ آوازیں بھی دم توڑ رہی ہیں جو تبدیلی کا مسلسل راگ الاپ رہی تھیں۔

حکومت کو کسی اور سے خطرہ ہو یا نہ ہو البتہ عوام سے ضرور ڈرنا چاہیے کیوں کہ یہ عوام جس یقین اور اعتماد کے ساتھ اُن کو منتخب کر کے لائی تھی کہ حالات بہتر ہوں گے، تبدیلی آئے گی، خوشحالی آئے گی، معاشی استحکام ہو گا، کاروبار چلے گا، روزگار ملے گا، ٹیکسوں کا حق ادا ہو گا، انصاف کی حکمرانی ہوگی اور احتساب سب کا ہو گا۔

لیکن یہ یقین گزرے ایک سال میں عوام کو نہیں مل سکا کہ اُن کی مشکلات کم ہو گئیں اور جینا آسان ہو گیا۔

حکومت متحرک سیاسی قوتوں سے ڈرے یا نہ ڈرے، عوام کے غیض و غضب سے ڈرنا تو بنتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32488 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp