لاپتہ ساتھی ، ذاتی ڈائری کا ایک ورق


میں نے اس دور میں روزانہ ڈائری لکھنا شروع کی تھی جب واقعتاً صحافت پابہ زنجیر تھی مگر زندہ تھی اور محب وطن صحافی آزادی صحافت کے لئے جہد مسلسل میں مصروف تھے۔ آج اگرآزاد صحافت اورآزاد صحافی کا تصور ختم ہو رہا ہے یا ختم کیا جا رہا ہے تو یہ عمل ایک سال میں شروع نہیں ہوا۔ آج سوشل میڈیا نے ہر شہری کو صحافی بنا دیا ہے تو یہ بھی کوئی عجوبہ نہیں۔ سوشل میڈیا نے آج جنم نہیں لیا، یہ تو روایتی میڈیا کے ساتھ ساتھ پھلتا پھولتا رہا ہے۔ جب کوئی حکومت ترکی جیسے ملک کو مثال بنا کر ترقی کرنا چاہتی ہو تو صحافت بھی تو ترکی والی ہی ہوگی۔

پاکستان کو ترکی جیسا ترقی یافتہ ملک بنانے کا نعرہ مشرف کے دور حکومت میں گونجا تھا۔ کیا کسی دانشور نے بھی ترک صحافت کا آزاد صحافت سے موازنہ کیا؟ یہ تو تین دہائیاں پہلے دیوار پر لکھ دیا گیا تھا کہ حکمران نواز، مفاد پرست لکھاری دانشوروں کا ٹولہ ایک دن صحافیوں کو ان کی صحافت سمیت قبر میں اتاردے گا، لیکن ایسا کرنے والے یہ بھول گئے کہ قبروں میں جسم اتارے جاتے ہیں روحیں نہیں۔ زندگی کے جس شعبہ میں بھی جدوجہد رکتی ہے وہاں ارتقائی عمل رک جاتا ہے۔

جدوجہد وہ چیز ہے جس کی کوئی انتہا نہیں ہوتی، ایک آدمی کی تنخواہ ایک ہزار سے دس ہزار روپے کردی جائے اور اس کے بعد وہ شخص ٹانگ پہ ٹانگ رکھ کر بیٹھ جائے کہ اسے اس کی منزل مل گئی ہے تو اس کی یہ بھول اس کی ہی نہیں پورے معاشرے کی سزا بن جاتی ہے۔ یہ خوش قسمتی ہے کہ میڈیا کے کئی ادارے ایسے ہیں جنہوں نے’’قتل عام‘‘ میں حصہ نہیں لیا۔ جہاں اب بھی صحافی اور کسی حد تک صحافتی اقدار زندہ ہیں، لیکن صحافیوں کو بھی دور جدید کے تناظر میں اپنی ذمہ داریوں سے پوری طرح نبرد آزما ہونا پڑے گا۔

تحقیق، عملیت اور جستجو کا راستہ اپنانا ہوگا۔’’ڈیسک نیوز‘‘ کا زمانہ لد گیا اب وہی زندہ رہے گا جس کے پاس ’’وہ خبر‘‘ ہوگی جو کسی اور کے پاس نہ ہو۔ آپ کے قلم میں اگر سیاہی ہی نہیں ہے تو آپ کو یہ کہنے کا بھی کوئی حق نہیں کہ صحافت پابندیوں میں گھری ہوئی ہے، اگر ایسا ہی ہے تو اس کا ذمہ دار کون ہے؟ یہ فیصلہ بھی ہو ہی جانا چاہئے۔

اس کالم میں مجھے ماضی کا حال سے تقابل نہیں کرنا، میرے نزدیک تو’’حال‘‘ زمانے کی کوئی قسم ہی نہیں ہے۔ ماضی ہوتا ہے یا مستقبل، جو لوگ حال میں ٹھہر جاتے ہیں وہ بیکار پتھر بن جاتے ہیں۔ ہر قسم کے حالات میں چاہے وہ کتنے ہی کٹھن اور نامساعد کیوں نہ ہوں چلتے رہنا چاہئے۔ مسلسل چلتے رہنے والوں کا کوئی زمانہ حال نہیں ہوتا وہ تو روشن مستقبل کی تعمیر کر رہے ہوتے ہیں۔ آزادی کبھی نہیں مرتی ، آزادی کا تحفظ کرنے والوں کا موجود ہونا لازمی ہوتا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ آزادی صحافت تو آج بھی اپنی جگہ کھڑی ہے مگر آزادی کے طلبگار اب خال خال ہیں۔

 1978ء یوم آزادی ہے اور قائد اعظم کا مزار ہے، لوگوں کا ہجوم ہے مگر سکوت ہے، اگر یہاں انسانوں کی بجائے سمندر کا پانی آ جاتا تب بھی اس کی لہروں سے ارتعاش ضرور پیدا ہوتا۔ شام چار بجے مجھے بابائے قوم کے حضور پیش ہونا ہے،مگر چار سو پہرے ہی پہرے ہیں۔ انسانوں کا خاموش سمندر مجھے اپنے دامن میں پناہ دیتا ہے اور میں مزار قائد کے احاطے میں پہنچ جاتا ہوں، جہاں میں نے قائد کے سرہانے کھڑے ہوکر زور دار آواز میں اللہ کے حضور انسانوں اور انسانیت کی آزادی کی دعا مانگنا شروع کی۔ میری آ واز سننے والوں کے چہروں پر زندگی کے آثار نمودار ہونا شروع ہوگئے۔

دعا ختم کرکے پیچھے مڑکر دیکھا تو میرے دوسرے ساتھی احمد علی علوی ،سلیم شاہد، محمد عمر مہڑی اور عبدالفتاح مرکھنڈ بھی حسب پروگرام وہاں آ چکے تھے۔ پروگرام کے مطابق ہم پانچوں کو علیحدہ علیحدہ مزار قائد کے احاطہ میں پہنچنا تھا اور ایک ساتھ گرفتاری پیش کرنا تھی۔ جونہی ہم پانچوں نے یک زبان ہو کر آزادی صحافت زندہ باد کے نعرے بلند کئے مزار قائد پر موجود لوگوں کا جم غفیربھی ہمارا ہم زبان بن گیا۔ سکوت ٹوٹ چکا تھا اور آزادی کے متوالوں نے ایک حشر بپا کر دیا تھا۔ ایجنسیوں کے لوگ ہماری جانب لپکے تو لاکھوں افراد نے تالیوں کی گونج میں ہمیں خراج تحسین پیش کیا۔

ہم گرفتار ہونے سے پہلے ہی فتح مند قرار دیے جا چکے تھے۔ انہی تالیوں کی گونج میں ہمیں پولیس کے ڈالے میں دھکیل کر تھانہ بریگیڈ پہنچا دیا گیا۔ اس زمانے میں ایک نیم مذہبی اور نیم سیاسی جماعت کے افراد بھی پولیس اور ایجنسیوں کے اہلکاروں کے مددگار ہوا کرتے تھے جنہیں ہم ’’صالحین‘‘ کہا کرتے تھے۔ ہماری اس گرفتاری کے مشن میں بھی صالحین کا کردار نمایاں تھا۔ جس وقت تھانے کے اندر ہمیں پولیس کے ڈالے سے نیچے اتارا جا رہا تھا، ایک ’’صالح‘‘ نے میرے ساتھ گرفتاری دینے والے بزرگ صحافی احمد علی علوی کو غلیظ گالیوں سے نوازا تھا۔ احمد علی علوی ایک بڑے اخبار کی ایمپلائز یونین کے صدر تھے اور ان کی عمر ستر سال کے قریب تھی، ہم پانچوں کو ایک لاک اپ میں بند کردیا گیا۔

پی ایف یو جے اور کراچی یونین آف جرنلسٹس کی ساری کی ساری قیادت ’’انڈر گراؤنڈ‘‘ تھی۔ لہٰذا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا کہ کوئی تھانے میں ہمارا حال پوچھنے بھی آئے گا۔ رات کو ہمیں کھانا بھی اسی بدبو دار کمرے میں دیا گیا اور حاجت ضروریہ سے فراغت کے لئے بھی یہی کمرہ تھا ۔ ہمارے جوتے بھی لاک اپ کے باہر ہی اتروا لئے گئے تھے، شاید ان جوتوں سے اس گندی حوالات کا ’’تقدس‘‘ مجروح ہونے کا خطرہ تھا، اس رات ہمیں سونے بھی نہیں دیا گیا تھا۔ پولیس اور سی آئی ڈی سمیت تمام تحقیقاتی اداروں کے اعلی افسر تھانے میں پہنچ چکے تھے۔

ہمیں علیحدہ علیحدہ ایک ایک کو حوالات سے باہر نکالا جاتا رہا اور سوال جواب کئے جاتے رہے۔ ایک سوال یہ تھا کہ ’’فنڈنگ‘‘ کون کر رہا ہے؟ مارشل لاء حکام اور ایجنسیوں کو شبہ تھا کہ ایک سیاسی جماعت ہمارے پیچھے ہے۔ ایک حساس ایجنسی کے افسر نے مجھے دھمکاتے ہوئے’’نوید‘‘ دی کہ تم لاہور میں کوڑے کھا کر بھی باز نہیں آئے اب تمہیں ’’سخت ترین‘‘ سزا دی جائے گی۔

سخت سزا عمر قید یا پھانسی ہی ہو سکتی تھی، جبکہ میں اس وقت حساب سود و زیاں سے گزرا ہوا ایک صحافی کارکن بن چکا تھا۔(انیس سو بیاسی میں تو یقینی طور پر مجھے لٹکانے کا پروگرام بن چکا تھا جب مجھے شاہی قلعہ اور لال قلعہ میں قید رکھا گیا تھا لیکن قدرت نے اس وقت بھی مجھے بچا لیا تھا)۔ دوران تفتیش ہم پانچوں پر ہی واضح کر دیا گیا تھا کہ صبح ہونے تک تم میں سے ایک تو ’’غائب‘‘ ہوجائے گا اور باقی چار مارشل لاء عدالت کے رحم و کرم پر ہوں گے۔

گرفتاری دینے کے لئے کراچی آنے سے پہلے مجھے لاہور میں ہی اطلاع مل چکی تھی کہ آزادی صحافت کی اس بڑی جنگ میں کراچی کے مختلف علاقوں سے روزانہ جو پانچ صحافی اور ان کے ساتھی گرفتاری دیتے ہیں ان میں سے ایک ’’لا پتہ‘‘ ہوجاتا ہے۔ سزا کے بعد جیل جانے تک اس لاپتہ کا کسی کو کوئی پتہ نہیں چلتا۔

عمومی خیال یہ تھا کہ پانچ میں سے ایک کو کسی عقوبت خانے میں پہنچا دیا جاتا ہے جہاں اس پر طرح طرح کے مظالم ڈھائے جاتے ہیں۔ اللہ اللہ کرکے رات ختم ہوئی اور ہمیں دن چڑھتے ہی حوالات سے نکال کر ایس ایچ او کے کمرے میں پہنچا دیا گیا۔ وہاں میں نے غور کیا کہ ہم پانچ نہیں چار لوگ ہیں۔ ہمارے پانچویں ساتھی عبدالفتاح مرکھنڈ کو ،ہماری آنکھوں میں دھول جھونک کر ’’لاپتہ‘‘ کر دیا گیا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ (یہ میری ڈائری کا ایک ورق تھا، بقیہ اوراق کبھی کبھار آئندہ سامنے لاتا رہوں گا)

بشکریہ روزنامہ نائنٹی ٹو


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).