شادی خوشی کا ملاپ ہے یا زبردستی کا بندھن؟


گیارہویں جماعت کا انگلش کا پیریڈ تھا۔ چارلس ڈِکنز کے ناول دا گریٹ اکسپیٹیشنز پر بحث ہو رہی تھی۔ مس ہیویشم کی لباس عروسی میں سالوں انتظار پر بات ہوئی۔ اور بات سے بات نکل کر شادی اور محبت پر جا نکلی۔ میرا ایک نارویجین اسٹوڈنٹ بولا ”ہمارے یہاں تو شادی کی بنیاد محبت پر ہوتی ہے، آپ کے یہاں شادی کی بنیاد کیا ہے‘‘؟

میں اسے کوئی تسلی بخش جواب نہ دے سکی۔ لیکن اس سوال نے مجھے چونکا ضرور دیا۔ ہماری شادیوں کی بنیاد کیا ہے؟

شادی کے لفظی معنی خوشی کے ہیں۔ یہ بندھن خوشی اور محبت کا ہونا چاہیے۔ ہماری بیشتر قسم کی شادیوں میں ہر قسم کے لین دین بھاؤ تاؤ پر بات ہوتی ہے۔ مطالبات اور فرمایشوں کی فہرستیں ادھر اور ادھر سے تھمائی جاتی ہیں۔ ہر رسم کیسے ادا ہو گی، کھانے میں، کیا کیا ہوگا، بارات کا استقبال اور رخصتی کیسے ہو گی۔ جہیز میں کیا آئے گا اور حق مہر کتنا ہو گا۔ ان سب امور پر گفتگو ہوتی ہے۔ نہیں بات ہوتی تو یہ کہ کیا لڑکا لڑکی دونوں اس بندھن پر دل سے راضی ہیں؟ کیا وہ ایک دوسرے کو پسند کرتے ہیں؟ کیا شادی کی اس دیگ میں محبت کی کوئی مٹھاس بھی ہے؟ یا یہ صرف دو خاندانوں کے درمیان ایک معاہدہ ہے جس میں ایک فریق ہمیشہ بھاری رہتا ہے اور دوسرا دباؤ میں۔ کیا نکاح نامے میں درج وعدے اور قول سنائے اور دہرائے جاتے ہیں؟

میں ناروے میں رہتی ہوں۔ میرے کام کی نوعیت ایسی ہے کہ مجھے نوجوان نسل سے ملنے اور ان کی مشکلات جاننے کے مواقع ملتے ہیں۔ اس ماحول میں پاکستانی تارکین کے بچوں کی تعلیم اور تربیت پر میں ایک مضمون پہلے لکھ چکی ہوں۔ آج موضوع شادی ہے۔ جو ایک نہایت اہم اور کسی حد تک پیچیدہ ہے۔ بچوں کے بڑے ہوتے ہی والدین کو ان کی شادیوں کی فکر لاحق ہو جاتی ہے۔ کسی بھی قسم کی پے چیدگی کے خطرے سے بچنے کے لئے بہتر یہی سمجھا گیا کہ جلد از جلد ان کی شادیاں کر دی جائیں۔

تیس چالیس یا اس سے بھی زیادہ سال پہلے جب پاکستانی تارکین وطن نے مغربی ممالک کا رخ کیا تو وہ اپنے ساتھ وہی سوچ لائے۔ وہ اسی زمانے میں محصور رہے۔ زمانہ بدل گیا پاکستان بھی کسی حد تک بدل گیا لیکن یہ لوگ اب بھی اسی دور میں رہ رہے جس میں وہ اس وقت رہ رہے تھے۔ وہی خاندان کی فوقیت، وہی برادری کا غرور اور وہی بے وجہ کا احساس برتری اور وہی تنگ نظری ہے۔ کاغذی شادی۔ یعنی پیپر میرج۔ شادی کی کئی قسمیں ہیں۔ طے شدہ شادی۔ یعنی ارینجڈ میرج۔ محبت کی شادی۔ یعنی لو میرج۔ زبردستی کی شادی۔ یعنی فورسڈ میرج۔ ایک اور قسم بھی ہے کاغذی شادی یعنی پیپر میرج۔

ارینجڈ میرج۔ یہ شادی کی سب سے پسندیدہ قسم ہے۔ اور زیادہ تر شادیاں اس طرح ہوتی ہیں۔ والدین یا بڑے بات طے کر دیتے ہیں اور شادی ہو جاتی ہے۔ اگر ایسی شادی میں لڑکا لڑکی کی مرضی اور پسند بھی شامل ہو تو یہ شادی اچھی اور کامیاب ثابت ہو سکتی ہے۔ ارینجڈ میرج میں ترجیحات کی فہرست میں سب سے اوپر کزنز میرج ہے۔ اس میں خاندان، برادری، ذات اور فرقے کا کوئی جھگڑا نہیں ہوتا۔ پاکستانی تارکین جو مغربی ممالک میں آ بسے اسی ذہنیت کو لے کر آئے۔ ملکوں کی شادیاں ملکوں سے، راجاوں کی راجاوں سے، چودھریوں کی چودھریوں سے شیخوں کی شیخوں سے۔ وغیرہ۔

کزنز سے شادی کو اس معاشرے میں نا پسند کیا جاتا ہے۔ اور یہ تقریبا متروک ہے۔ امریکا کے چوبیس اسٹیٹس میں یہ غیر قانونی ہے۔ یورپ میں ممنوع تو نہیں لیکن ناپسندیدہ ضرور ہے۔ یورپ کے شاہی خاندان تو ایک عرصے تک آپس میں شادیاں کرتے رہے۔ آج بھی یہ سب کسی نہ کسی طرح رشتے دار ہیں۔ ناروے کے شاہ برطانیہ کی ملکہ کے دوسرے کزن ہیں۔ لیکن اب ایسی شادیاں سخت ناپسندیدہ سمجھی جاتی ہیں۔ اس کی بڑی وجہ یہ خطرہ ہے کہ ہونے والے بچے کسی جینیٹیک بیماری کا شکار ہو سکتے ہیں۔

میاں بیوی کزنز ہیں ان کے والدین بھی آپس میں کزنز ہیں اور شاید والدین کے والدین بھی کزنز تھے۔ نیا اور تازہ خون شامل نہ ہوا اور بیمیاریاں کی جینز طاقت پکڑتی گیں۔ ایک کے بعد ایک بچہ ذہنی یا جسمانی یا دونوں طرح سے بیمار پیدا ہو رہا ہے لیکن اسے اللہ کی مرضی سمجھ لیا جاتا ہے۔ کزنز سے شادیاں آج بھی ہو رہی ہیں۔ کرنے والے اپنے دفاع میں کہتے ہیں کہ یہ جائز ہے۔ جائز تو ہے لیکن آپ پر فرض یا پابندی تو نہیں ہے نا۔ اسی طرح طلاق بھی جائز ہے اس مطلب یہ تو نہیں کہ طلاق دیتے رہنا چاہیے۔

محبت کی شادی۔ شادی کی یہ قسم کچھ اچھی نظر سے نہیں دیکھی جاتی۔ والدین کے لئے یہ بات ہضم کرنا مشکل ہوتا ہے کہ بچے اپنی زندگی کا فیصلہ خود کرلیں۔ والدین یہ حق اپنا سمجھتے ہیں۔ محبت کی شادی میں صرف محبت ہی ہوتی ہے۔ اس میں ذات برادری اور خاندان کا تعلق نہیں ہوتا۔ والدین کو بجائے بچوں کی خوشی کے خاندان والوں کے سوال جواب کی فکر ہوتی ہے۔ ”لوگ کیا کہیں گے؟ “ کا دکھ اولاد کے سکھ سے بڑھ کر ہوتا ہے۔

ایسی شادی اور بھی نا قابل قبول ہو جاتی ہے اگر یہ کسی غیر ملکی اور غیر مذہب والے کے ساتھ ہو۔ ناروے میں لڑکوں نے نارویجین لڑکیوں سے شادیاں کیں۔ کچھ کو خاندان والوں نے قبول بھی کر لیا۔ ّوالدین شریک بھی ہوئے۔ گوری لڑکی کو لال جوڑا پہنا کر ٹیکا جھومر بھی لگایا گیا۔ لیکن اگر پاکستانی لڑکی کسی نارویجین لڑکے کے ساتھ شادی کرے تو یہ سخت ناقابل قبول ہے۔ ایک لڑکی کو میں جانتی ہوں جس نے نارویجین لڑکے کو پسند کیا، وہ مسلمان بھی ہو گیا لیکن لڑکی کے گھر والے کسی طور راضی نہ ہوئے۔ دونوں نے مسجد جا کر نکاح کر لیا۔ لڑکی آخر وقت تک ماں سے التجا کرتی رہی کہ وہ شامل ہوجائے لیکن ماں نے اپنے شوہر کے کہنے پر لڑکی سے قطع رابطہ کر دیا۔

اپنی پسند اور مرضی سے شادی کرنے والوں کو سنگین نتائج بھگتنے پڑتے ہیں۔ آپ سمجھتے ہیں کہ قندیل بلوچ جسے اس کے بھائی نے مارڈالا تھا۔ اور بیٹی کو زندہ جلانے والی ماں جیسے قتل پاکستان کے کم تعلیم یافتہ کے ہاتھوں دیہاتی علاقوں میں ہوتے ہیں؟ جی نہیں۔ یہاں بھی ایک غیرت مند بھائی نے کلھاڑے کے وار کر کے اپنی تین بہنوں کو قتل کر ڈالا۔ ایک بہن کی شادی کی گئی اور وہ اس سے ناخوش تھی جدا ہونا چاہتی تھی۔ چھوٹی دو بہنوں نے اس کا ساتھ دیا اور بھائی نے تینوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔

بھائی کو 21 سال کی جیل ہوئی۔ ایک اور لڑکی نے اپنی پسند سے شادی کی جو اس کا کزن ہی تھا، لیکن والدین کو لڑکی کی یہ جرات پسند نہ آئی۔ لڑکی شوہر کے ساتھ پاکستان گئی اور لڑکی کے والدین نے ناروے میں رہتے ہوئے فون پر کرائے کے قاتلوں کا انتظام کیا اور داماد، اس کے بھائی اور باپ کو قتل کروا دیا۔ لڑکی واپس ناروے آئی اور اپنے والدین کے خلاف پولیس میں رپورٹ کی۔ مقدمہ قائم ہوا۔ عدلت نے دونوں ماں باپ کو 21 سال قید کی سزا دی اور باپ کے بھائی کو 17 سال جس نے معاونت کی تھی۔ ایسے اور بھی کئی واقعات ہیں جس میں غیرت کے نام پر اپنی ہی بیٹیوں کو بے دردی کے ساتھ سزا دی گئی۔

جبری شادی۔ یہ شادی کی سب سے زیادہ ظالمانہ قسم ہے اور اتنی ہی زیادہ عام بھی ہے۔ سب ہی یہ جانتے اور کہتے ہیں کہ اسلام نے لڑکے لڑکی کو یہ حق دیا ہے کہ وہ اپنی پسند سے شادی کریں اور طرفین میں سے کسی ایک یا دونوں پر جبر کرنے کی اجازت نہیں دیتا۔ منطقی اور جذباتی طور پر بھی یہی مناسب ہے کہ جن لوگوں نے اکٹھے زندگی گزارنی ہے ان کو انتخاب کا حق دیا جائے نہ کہ ان کو زور زبردستی سے جوڑ دیا جائے۔ اس کے باوجود جبری شادیاں ہو رہی ہیں۔

ناروے میں جبری شادی قطعی ممنوع ہے۔ جبری شادی بنیادی انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی ہے۔ اگر کسی کی شادی اس کی مرضی کے خلاف ہو، دباؤ، دھمکیوں یا کسی اور طرح کے جذباتی، نفسیاتی یا جسمانی تشدّد کا نشانہ بننے کے نتیجے میں، تو اسے جبری یا زبردستی کی شادی کہا جاتا ہے۔ ایسا کرنے والوں کو چھے سال تک کی سزا ہو سکتی ہے۔ نارویجن حکام ان افراد کی مدد کرتے ہیں جنہیں جبری شادی کا نشانہ بنایا گیا ہو یا جبری ّشادی کا خطرہ درپیش ہو۔ انہیں محفوظ رہائش اور رہنمائی مہیا کر سکتے ہیں اور کیس کی رپورٹ کرنے اور شادی کو غیر قانونی قرار دلوانے کے لئے وکیل کی مدد دلا سکتے ہیں۔ ایک فون نمبر بھی ہے جس پر کسی بھی وقت رابطہ کیا جا سکتا ہے۔

وہ لڑکیاں جن کی شادی ان کی مرضی کے خلاف کر دی جائے اور وہ ایک انتہائی تکلیف دہ تجربے سے گزرتی ہیں۔ یہ استحصال کی ایک شکل ہے اور ان کے لئے یہ عمر قید کے برابر ہوتا ہے۔ اس کے نتیجے میں سیکس کا عمل بھی ریپ تصور کیا جائے گا چاہے نام نہاد مبلغ کچھ بھی کہتے رہیں۔

ایسے بھی کیسز ہوئے ہیں کی لڑکیوں کو پاکستان چھٹیوں پر ساتھ لے جایا گیا اور وہاں ان کی زبردستی شادی کر دی گئی۔ ایک لڑکی نے ہمت کی اور گھر سے بھاگ کر کسی طرح ناروے کے سفارت خانے پہنچ گئی۔ جہاں اسے تحفظ ملا۔ ایک اور لڑکی کی کہانی جسے اس کی مرضی کے خلاف پاکستان میں شادی طے کر دی گئی اور اسے زبردستی پاکستان لے جانا چاہا۔ سفر سے پہلے گھر والوں نے اس پر باہر جانے کی پابندی لگادی، وہ کسی سے مل نہیں سکتی تھی اور اس کا فون بھی لے لیا۔

چھوٹی بہن جو پہلے گہری دوست تھی اسے بہن کی چوکیداری کا کام سونپا گیا۔ روانگی کے دن ایر پورٹ پہنچ کر لڑکی نے چپکے سے چھوٹی بہن سے التجا کی بس چند لمحوں کے لئے فون دے دے اسے اپنی دوست کو خدا حافظ کہنا ہے۔ فون لے کر لڑکی باتھ روم گئی اور پولیس کو فون کر دیا۔ پولیس فوری طور پر وہاں پہنچی۔ لڑکی کو اپنی حفاظت میں لیا۔ اور گھروالوں کو پاکستان جانے سے روک دیا۔ مقدمہ درج ہوا۔ والدین کو سزا ہوئی۔

جبری شادی کا شکار عام طور پر لڑکی ہی بنتی ہے۔ لیکن لڑکے بھی اس کا شکار ہوتے ہیں۔ ان پر بھی جذباتی، نفسیاتی اور معاشی دباؤ ڈالا جاتا ہے۔ ایک لڑکے کے ساتھ کچھ ایسا ہی ہوا۔ اسے کہا گیا کہ چھٹیاں گزارنے پاکستان جا رہے ہیں۔ وہاں والدین کی طرف سے اس پر شدید دباؤ ڈالا گیا۔ اسے عزت اور خاندانی وقار کے واسطے دیے گئے۔ لڑکا وقتی طور پر اس دباؤ میں آ گیا۔ شادی ہو گئی لیکن اس نے دولہن کو قبول نہ کیا۔ لڑکا اور گھر والے واپس ناروے آ گئے۔

دولہن کے کاغذات اور ویزا کا مسئلہ آیا تو لڑکے نے صاف انکار کر دیا۔ والدین کی طرف سے پھر اصرار ہوا تو لڑکے نے پولیس میں والدین کے خلاف پرچا کٹوا دیا کہ اس پر نفسیاتی دباؤ ڈال کر زبردستی شادی کے بندھن میں باندھ دیا گیا اور وہ اس شادی کو نہیں مانتا۔ والدین کو پولیس کے پوچھ گچھ کے لئے بلا لیا۔ مقدمہ درج ہو گیا۔ والدین تھانے کچہری کے چکروں میں پھنسے بیٹا جدا ہوا۔ پاکستان بیٹھی دولہن کے نصیب پھوٹے۔

اب یہاں بھی پاکستانیوں کی شادیاں ہو رہی ہیں۔ برادری کے کئی لوگ یہاں مل جاتے ہیں بلکہ پورے پورے خاندان یہاں آباد ہو چکے ہیں۔ ایک اور واقعہ۔ میری ایک جاننے والی ہیں انہیں اپنے ملنے والوں کی طرف سے بیٹے کی شادی کا دعوت نامہ ملا۔ بلاوا مہندی کا بھی تھا۔ مہندی کی تقریب رنگا رنگ ہوتی ہے اور بہت ہلا گلا ہوتا ہے۔ وہ بچوں سمیت پہنچ گیں۔ تقریب ایک ہال میں تھی۔ مہمان آ گئے۔ دولہن والے بھی پہنچ گئے۔ دولہن ایک کمرے میں بیٹھی منتظر تھی کہ لڑکا اسٹیج پر آ جائے تو وہ بھی سہلیوں کے جھرمٹ میں نکل کر سہج سہج اسٹیج پر آئے۔

لڑکے کی ڈھنڈیا پڑی۔ لڑکا غائب۔ فون کیا تو فون بند۔ دوست تو سارے تقریب میں تھے سب ہی لاعلمی دکھا رہے تھے۔ کچھ اور لوگوں سے رابطہ کیا۔ کہیں سے پتا نہ چلا۔ لڑکے والوں نے رندھے ہوئے گلوں سے مہمانوں سے معذرت کی۔ لڑکی والے شدید غم و غصہ میں وہاں سے چلے گئے۔ لڑکا اپنے ایک دوست کے گھر چھپا بیٹھا تھا جو مہندی کی تقریب میں موجود تھا اور گھر والوں کے ساتھ اسے ڈھونڈھنے کی اداکاری بھی کرتا رہا۔ چند دنوں بعد لڑکے نے گھر والوں سے رابطہ کیا کہ میں بار بار آپ سے کہتا رہا مجھے یہاں شادی نہیں کرنی۔ میں کسی اور کو پسند کرتا ہوں اور شادی بھی اسی سے کروں گا۔ والدین نے صاف انکار کیا۔ لڑکا مستقل طور پر خاندان سے کٹ گیا۔

کاغذی شادی۔ شادی کی یہ قسم انتہائی عجیب ہے۔ اس میں دونوں فریق راضی ہوتے ہیں۔ کسی پر زبردستی یا دباؤ نہیں ہوتا۔ لیکن یہ شادی گھر بسانے کے لئے نہیں کی جاتی۔ یہ ایک کاروبار ہے۔ ایک فریق کو کسی ملک کی شہریت چاہیے اور دوسرا فریق رقم کے عوض اس پر تیار ہو جاتا ہے۔ یہ ریاست سے دھوکا دہی کے عمل میں آتا ہے۔ شادی کو ہمارے معاشرے میں ایک مقدس فریضہ سمجھا جاتا ہے۔ کاغذی شادی اس فریضے سے مذاق ہی ہے۔ لیکن یہ مذاق جاری ہے۔ اسے سہولتی معاہدہ قرار دیا جاتا ہے۔

باٹم لاین۔ شادی کا فیصلہ بچوں کو خود کرنے دیں۔ دین اور دنیا کی خیر اسی میں ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).