صحافیوں نے قسم اٹھا لی؟


صحافی درباری نہیں ہوتا اور نہ ہی اس کے پروٹوکول میں آتا ہے کہ وہ خوشامد اور چمچہ گیری کرکے اپنے آپ کو ذلیل کرانے کے ساتھ اپنے پیشہ کی لعنت ملامت کرائے، اس طے شدہ فارمولے کے باوجود جس کو صحافت میں یہ شوق ہے کہ وہ سیاستدانوں، بیوروکرٹیس یا پھر مافیا کی خاطر درباری اور خوشامدی بنے، اس کے لئے اتنا عرض کرنا ہے کہ وہ صحافت چھوڑ کر ان کے ذاتی ملازم کی حیثیت میں یہ دھندہ کرے تو دونوں کی تسلی یوں رہے گی کہ نام نہاد صحافی کو درباری ہونے کا خطاب دربار میں مل جائے گا، دوسری طرف جو چاہتے ہیں کہ ان کے خوشامدیوں اور طبلچیوں میں کوئی صحافی موجود رہے تو ان کو بھی مل جائے گا۔

وفاقی دارالحکومت اسلام آباد سے اپنے گاؤں کی زیارت کے لئے ویک اینڈ پرگیا تو جیسے فیس بک پر اپ ڈیٹ کیا کہ اپنے گاؤں ہوں تو لیہ کے معروف صحافی و تحقیقاتی رپورٹر محسن عدیل چودھری کا فون آگیا کہ کلاسرا شام کو الیکٹرانک میڈیا ایسوسی ایشن کی تقریب حلف برادری ہے، اسلام آباد سے تو آپ نے آنا نہیں تھا لیکن اب گاؤں آچکے ہیں، لہذا آپ نے آنا ہے، میں نے عرض کیا، چودھری صاحب حکم کی تعمیل ہوگی، ادھر پتہ چلا کہ اس تقریب میں محسن عدیل چودھری نے لیہ کے ارکان اسمبلی، اپوزیشن، انجمن تاجران سے لے کر ڈپٹی کمشنر اور ڈسٹرکٹ پولیس افسر لیہ کو مدعو کیا ہوا ہے، معزز شہریوں کے  ساتھ صحافیوں کو تو بطور خاص حلف برادری کی تقریب کے لئے دعوت نامے جاری کیے گئے ہیں، مطلب لیہ کی صحافتی تاریخ میں ایک بڑافنکشن ہونے جا رہا ہے۔

میرے لیے خوشی کا لمحہ یہ تھا کہ چلو لیہ کے صحافی دوستوں سے ملاقات کے علاوہ ان کی اس تقریب میں بیٹھ کر اس بات کا اندازہ بھی ہوجائے گا کہ لیہ کے صحافی آزادی جیسی نعمت سے لطف اندوز ہورہے ہیں یا وہی سیلبس چل رہا ہے جوکہ مدت سے چلا آرہا ہے کہ صحافی خوشامدی اور درباری ہونا چاہیے، صحافی پوچھ کر خبر فائل کرے، خوشامدی مواد پر مبنی خبروں سے لے کر تابعدارکالم اور سیاسی جلسوں میں آکر ملک، پیر، سردار اور خان کے لئے ایسی لچھے دار تقریریں کرے کہ سماں باندھ دے، اور ساتھ اپنے اخبار اور چینل کو سب اچھا کی خبر اور رپورٹ بھیجے تاکہ دوسرے دن واہ واہ ہوجائے، اگر ایسا نہ کرے تو مدعی تیار رکھو، مطلب اس کو سبق سکھانے کا طریقہ واردات پوری شدت سے استعمال کرو تاکہ دوسرے صحافیوں کو بھی کان ہوجائیں کہ خان، ملک، سردار اور پیر کے خلاف سیکنڈل فائل کرنے سے پہلے ہزار بار سوچ لیا جائے۔

ادھر ضلعی انتظامیہ بھی صحافیوں کو اپنی دی گئی زبان بولتے دیکھنے کی خواہش مند ہوتی ہے، محسن عدیل اس کرب ناک اذیت سے گزرچکا ہے، لیکن یہ کہانی پھر سہی؟ میرے لیے لیہ کے الیکٹرانک میڈیا ایسوسی ایشن کی تقریب یوں خاص اہمیت کی حامل تھی کہ سارے شراکت دار ایک پلیٹ فارم پر اکٹھے ہورہے تھے، ایک طرف سیاستدانوں نے آنا تھا تو دوسری طرف ضلعی انتظامیہ کی موجود ہوگی جبکہ تیسری طرف صحافی اس موقع پر جہاں حلف اٹھائیں گے، اور وہاں پر اپنے حقیقی معنوں میں صحافی ہونے کے بارے میں احساس دلائیں گے، اور ان چہروں سے نقاب اتاریں گے جوکہ صحافیوں کو بند گلی میں دھکیلنے اور ان کو درباری بنانے کے درپے ہوتے ہیں؟

اور یوں ہم کلام ہوتے ہیں کہ تمہاری جرات کیسے ہوئی کہ تم نے خبر لگائی ہے؟ تم بڑے صحافی بن گئے ہو، دیکھیں لیں گے؟ جیسے بہاولپور کے قصبہ حاصل پور کے ایک صحافی اور طارق بشیر چیمہ کی ایک موبائل فون کال وائرل ہوئی تھی، جس میں طارق چیمہ صحافی کو خبر لگانے پر گالیاں دینے کے علاوہ اس کو قبر تک پیچھا کرنے جیسی دھمکیاں دے رہا تھا، ادھر اپنے سیاسی مخالفین کو وہ گالیاں دے رہا تھا کہ یہاں کالم میں میرے جیسے صحافی کے لئے لکھنا مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن ہے، اس صورتحال میں صحافی کوشش کررہا تھاکہ طارق چیمہ اس کی بات تو سن لے تاکہ وضاحت ہوجائے کہ چودھری کی خبر کس بنیاد پر لگی ہے لیکن ایسا کب ہوتا ہے؟

صحافی پر چڑھ دوڑنے کا فیشن عام ہے، کیونکہ اس کے پاس قلم ہوتا ہے۔ ایسے دلیر سیاستدان اس طرف تو رخ نہیں کرتے ہیں جن کے پاس قلم کی بجائے کچھ اور ہوتا ہے مطلب ڈنڈا ہوتا ہے، وہاں میٹھی میٹھی، مسکراہٹ چہرے پر سجا کر رکھتے ہیں اور خوشامدی لطیفے سناتے ہیں تاکہ وہ خوش ہو جائیں؟ جی جی، درست فرما رہے ہیں، جیسے جملہ بار بار ادا کرتے ہیں، ویسے طارق چیمہ تبدیلی حکومت میں وزیراعظم عمران خان کے وزیر ہیں؟ کیسا ہے؟

اور صحافت آزاد ہے؟ لیہ کی تقریب کی طرف چلتے ہیں طارق چیمہ کا ذکر تو صحافی کے ساتھ روارکھے گئے قابل افسوس سلوک کی وجہ سے آگیا تھا، محسن عدیل چودھری کے دیے گیے وقت کی تعمیل کے لئے شام کو لیہ پہنچ گیا اور ڈاکٹر جاوید کنجال جن سے احترام اور محبتوں کا رشتہ ہے، ان کے پاس پہنچا کہ چلو تقریب مٰیں اکٹھے پہنچ جائیں گے، ڈاکٹر صاحب نے ساتھ لیا اور جیسے تقریب میں پہنچے تو اس بات کا احساس ہواکہ محسن عدیل چودھری لیہ کا ایسا صحافی ہے جوکہ اس بات کو جانتا ہے کہ ایسی تقریبات کا انعقاد کس طرح کرنا ہے؟

سارے مہمانوں کو پوری توجہ دی جارہی تھی، مہانوں کو تقریب تک لے جانے کے لئے احسن عدیل چودھری موجود تھے جوکہ میرے کلاس فیلو ہیں، یوں اور پرتپاک طریقے سے ملے اور گلہ کیا کہ لیٹ کیوں آئے ہیں؟ میں نے کہا چودھری شکر کرو، آ تو گیا ہوں، آپ کو تو توفیق نہیں ہوئی کہ دعوت دیتے، یہ تو محسن چودھری نے بلایا ہے اور آپ سے ملاقات ہوگئی ہے۔ تقریب کے اسٹیج پر نظر پڑی تو رکن قومی اسمبلی ملک نیاز جھکڑ، پارلیمانی سیکرٹری رفاقت گیلانی، ادھر محسن عدیل چودھری، فرید اللہ چودھری سمیت دیگر الیکٹرانک میڈیا کے دوست جن کے لئے یہ محفل بطور خاص سجائی گئی تھی اور ان سے اس بات کا حلف لیا جانا تھاکہ وہ صحافت کریں گے نا کہ درباری اور خوشامدی ہوکر اپنے آپ اور صحافت کو داغدار کریں گے؟

الیکٹرانک میڈیا ایسوسی ایشن لیہ کی تقریب حلف برادری کے لئے سجائے گئے بڑے اسٹیج پر سابق وفاقی وزیرسردار بہادر خان سہیٹر، رائے غلام عباس بھٹی، سابق رکن صوبائی اسمبلی افتخار بابر خان کیتھران، رکن صوبائی اسمبلی شہاب خان سہیٹر، لالہ طاہر رندھاوا سمیت بزرگ صحافی انجم صحرائی کے علاوہ ہمارے تھل کے شیر صحافی ”علی شیر“ موجود تھے۔ احسن عدیل چودھری کی کوششوں اور ڈاکٹر کنجال کی محبتوں کی بدولت کرسی ہمیں بھی مل ہی گئی۔

تقریب میں ڈی پی او لیہ عثمان باجوہ کے سوا سارے بلائے گئے مہمان موجود تھے، وہ کیوں نہیں آئے، اس بارے میں ڈی پی او خود ہی بتا سکتے ہیں؟ اور پھر حلف برادری ہوئی جوکہ میرے لیے یوں اہمیت کی حامل تھی کہ صحافی کی حیثٰیت میں آپ اللہ کو حاضر ناظر جان کر اس بات کا حلف دیتے ہیں کہ آپ رنگ نسل اور ذاتی مفادات سے بالاتر ہوکر اپنی صحافتی ذمہ داریاں ادا کریں گے، مطلب بڑی قسم ہے جوکہ آپ ملک قوم اور اپنے شہریوں کو دے رہے ہوتے ہیں۔

حلف برادری کے ساتھ تقریروں کا سلسلہ شروع ہوا تو وہی کہانی لیہ کے سیاستدانوں کی طرف سے دبے لفظوں دھرانے کی کوشش کی گئی کہ صحافی کی طرف سے ایسا بھی ہوتا ہے اور ویسا بھی ہوتا ہے؟ مطلب لیہ کے صحافی اس سیلبس کو چھوڑ رہے ہیں جوکہ قیام پاکستان سے لے کر اب تک کسی نہ کسی جبر کی شکل میں چلا آ رہا ہے، ملک نیاز جھکڑ نے سینئر صحافی فرید اللہ کی تعریف کے ساتھ اس جملہ کا کہنا ضروری سمجھا کہ چودھری فرید اللہ کبھی کبھار کرجاتے ہیں، مطلب سیلبیس کی لفظ بہ لفظ پیروی نہیں کرتے ہیں۔

رائے غلام عباس بھٹی، ڈپٹی کمشنر لیہ جاوید ذیشان کو اس بات کی ضد کرکے تسلی کروارہے تھے کہ وہ لیہ میں فلاحی کاموں کے لئے پچاس فیصد فنڈز دیں گے، وہ جو بھی فلاحی کام پورے ضلع میں کریں گے، راقم الحروف وہاں بولنے کی جسارت تو نہیں کرسکتا تھا لیکن دل میں سوچ رہا تھاکہ لیہ کروڑ روڈ جس پر عباس بھٹی کا ایکڑوں میں شاندار گھر بھی ہے اور یہ لیہ کروڑ سڑک جوکہ کھڈوں کے ساتھ تباہی سے دوچار ہوچکی ہے، وہاں پر اور کچھ نہیں تو ڈپٹی کمشنر لیہ اور غلام عباس بھٹی کے ”ففٹی ففٹی“ کے فارمولے کے تحت مٹی کے ساتھ پتھر کا روڑا ہی ڈالوا لیں؟

ذرا تو لیہ کی عوام کو سکون ملے۔ حکومت پنجاب تو معذرت کے ساتھ یوں لگتا ہے کہ لیہ کی عوام کے لئے سیاسی میدان میں فوت ہوچکی ہے۔ ہمارے خیال میں ڈی سی لیہ، اس سلسلے میں غلام عباسی بھٹی کو فون کرکے لیہ کروڑ کی عوام کے لئے کھڈوں سے محفوظ سٹرک بنوانے کی کوشش تو کریں۔ تمام تر خدشات کے باوجود امید تو کی جاسکتی ہے کہ لیہ کروڑ روڈ اگلی بار جاوں گا تو کھڈوں کی بجائے روڑے سے برابر ہوگی، کچھ عوام کے لئے سہولت ہوگی۔

ادھر لیہ بائی پاس روڈ جو کہ کوٹھی قریشی تک اس حد تک کھڈوں کے ساتھ اجڑ چکاہے کہ قسم اٹھوا لیں کہ لیہ کے عوام بدترین ذلت جیسی صورتحال کا سامنا کررہے ہیں لیکن اس کے کھڈوں میں اینٹوں کے بھٹوں والی کیری یا روڑا ڈلوانے جیسا اقدام بھی نہیں کیا گیا ہے۔ اس بات کا گلہ تقریب راقم الحروف نے اپنے کالج کے سنیئر اور سابق رکن صوبائی اسمبلی افتخار بابر کیتھران سے بھی کیا کہ بابر خان، آپ نے تحریک انصاف کے لئے اپوزیشن میں خاصی قربانیاں دی تھیں، کپتان کے جلسے آپ کی ٹرانسپورٹ اور ورکروں کی وجہ سے کامیاب ہوئے تھے، اور اب بھی تحریک انصاف کے لئے پورے قدکاٹھ کے ساتھ کھڑے ہیں لیکن ایم ایم روڈ المعروف قاتل روڈ سے لے کر کروڑ لیہ روڈ اورپھر بائی پاس سے کوٹھی قریشی تک روڈ پر موت کا کھیل جاری ہے۔

ایک لمحہ کے لئے تو بابر خان خاموش ہوا کہ کلاسرا کو کیا جواب دوں، اور پھر موصوف نے اسٹیج پر موجود ارکان اسمبلی کی طرف دیکھا اور مسکرا پڑا، مطلب اب ان کا کام ہے جوکہ اسمبلیوں میں موجودہیں۔ یوں مجھے اپنے سوال کا جواب مل گیا، ا ور میں نے بھی مزید کریدنے کی کوشش نہیں کی لیکن اتنا ضرور کہا کہ حضور اپنے آپ کو سیاسی پلیٹ فارم پر اتنا متحرک تو ضرور کریں کہ ہمارے جیسے صحافی تو آپ سے لیہ کے سلگتے ایشوز پر بات کرسکیں، لیہ میں آپ کے بزرگوں کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتاہے اور یہی وجہ تھی کہ آپ کو لیہ شہر کا رکن صوبائی اسمبلی بنایا تھا۔

الیکٹرانک میڈیا ایسوسی ایشن لیہ کی جانب سے محسن عدیل چوہدری کی طرف سے لیہ میں صحافیوں کے لئے ملتان، لاہور اور اسلام آباد اور راولپنڈی جیسے میڈیا ٹاون کے منصوبہ کا مطالبہ کیا گیا، اس کی تائید رکن صوبائی اسمبلی شہاب خان سہیٹر کی طرف سے تائید کی گئی اور بتایا کہ انہوں نے وکلاء کے لئے بحیثیت ضلع ناظم لیہ وکلاء کالونی بنائی تھی، اور صحافیوں کے لئے بھی ڈپٹی کمشنر منصوبہ بنائیں تو وہ حکومت سے منظور کرائیں گے۔

ڈپٹی کمشنرذیشان جاوید نے بھی تقریب سے خطاب کیا اور ان کو اس بات کی داد دینا چاہوں گا کہ موصوف نے جلدی نہیں کی بلکہ سب کی بات تسلی کے ساتھ سنی؟ پھر اپنی تقریر میں لیہ کے صحافیوں کا شکریہ بھی ادا کیا کہ وہ ایشوز کو سامنے لانے کے معاملے میں ان کو بطور صحافی بروقت آگاہ کرتے رہتے ہیں۔ انہوں نے کہا جوکہ ہمارے ہاتھ میں ہوتا ہے وہ فورا ہو  جاتا ہے لیکن جوکام فنڈنگ سے متعلقہ ہوتے ہیں، ان میں ہم بے بس ہوجاتے ہیں۔

انہوں نے ایک بات کا خاص طورپر ذکر کیا کہ جب صحافی اس بات سے آگاہ کرتے ہیں کہ سٹرک ٹوٹی ہوئی ہے اور پانی کھڑا ہوا، مجھے آگاہی مل جاتی ہے، اور ہم آپ کی معلومات کی روشنی میں فورا متعلقہ اداروں کو آگاہ کرتے ہیں، لیکن جیسا کہ آپ کے پارلیمنٹرین یہاں پر موجود ہیں، ان کو پتہ ہے کہ فنڈنگ کے ایشوز کیا ہوتے ہیں؟ ساتھ ہی ڈپٹی کمشنر نے اس بات کا گلہ کیا کہ آپ مہینہ بعد وہی بات کرتے ہیں کہ سٹرک میں کھڈوں ہیں اور پانی کھڑا ہوا ہے۔

مطلب دوسرے لفظوں میں ان کا کہنا تھا کہ آپ کو انتظار کی سولی سے پنجاب حکومت ہی اتار سکتی ہے، وہ اپنے طورپر سٹرک جیسا ایشو جوکہ فنڈز سے جڑا ہے، اس کو حل کرنے کی کی پوزیشن میں نہیں ہیں۔ سٹرکوں کے ایشوز کے حل کے لئے آپ کے ارکان اسمبلی وزیراعلی پنجاب عثمان بزدار سے رابط کریں۔ اگلے کالم میں لیہ میں ارکان اسمبلی خاص طورپر تحریک انصاف کے رکن قومی اسمبلی مجید خان نیازی کے حوالے سے لکھوں گا جوکہ اس تقریب میں موجود نہیں تھے، وہ لیہ کو تحریک انصاف کی حکومت میں کس طرف لے کر جارہے ہیں؟

اسی طرح ڈسٹرکٹ پولیس افسر عثمان باجوہ کا تقریب میں نہ آنے کا لیہ پولیس کو کیا نقصان ہوا ہے؟ اس کو بھی بیان کرنے کی کوشش کروں گا؟ اسی طرح لیہ کے تحقیقاتی رپورٹر محسن عدیل کی تقریب میں کی گئی تقریر پر بھی بات کروں گا کہ موصوف کو ایسی تقریر کرنی چاہیے تھی یا کہانی کچھ اور تھی اور وہ کہیں اور نکل گئے؟ ادھر شہید لیہ صغیر عباس بلوچ کے قتل میں اسپیشل برانچ لیہ کے ملازم نے کس طرح پولیس کے دیگر اہلکاروں کے علاوہ انسپکٹر لیول کے افسر کو بلی چڑھایا ہے؟ کیا اسپشل برانچ جیسے پولیس کے اہم شعبہ میں ریفارمز کرنے کی ضرورت ہے؟ اور بھی بہت کچھ ہے جوکہ چاہونگا کہ تھل بالخصوص لیہ کی موجودہ صورتحال پر لکھوں جوکہ اب دیکھ کر آیا ہوں۔ فی الحال اتنا ہی؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).