ایک پیشہ ور نعت خواں اور ایک ولایتی بابو


میرے دوست نواز کی والدہ اچانک بیمار ہو گٸیں۔ وہ سات سمندر پار بیٹھا لمحہ لمحہ اپنی امی کی صحت کے بارے پوچھ رہا تھا۔ امی کو شوگر جوڑوں میں درد بلڈ پریشر اور نہ جانے کس کس بیماری نے جکڑ رکھا تھا ۔ عمر کا بھی تقاضا تھا صحت سنبھلنے پر ہی نہیں آ رہی تھی ۔ میرا دوست نواز پریشان تھا۔ دسمبر میں پاکستان آنےکا شیڈول طے تھا۔ جس ملک میں نواز بزنس کرتا تھا، وہاں دسمبر میں بچوں کو اسکول کی چھٹیاں ہوتی ہیں۔ لیکن أج امی کی طبیعت زیادہ خراب تھی۔ ایک ایک  لمحہ قیامت کی طرح گزر رہا تھا۔ شام تک دو بار امی سے بات ہوٸی۔ ابا نے بھی تسلی دی پاکستان میں موجود نواز کا اکلوتا چھوٹا بھاٸی بھی حوصلہ دے رہا تھا۔ نواز کی سبھی بہنیں بھی امی کے پاس موجود تھیں۔ وہ بھی کہہ رہی تھیں بھاٸی فکر نہ کریں ہم سب امی کے پاس ہی ہیں۔

سب نے ڈھارس بندھاٸی تھی مگر میرا دوست نواز انجانی پریشانی اور عجیب سے وہم میں مبتلإ تھا اس کی أنکھوں میں بار بار نمیکیں پانی کے جالے بن رہے تھے۔ اپنے آفس کے اسٹاف کے سامنے کسی معصوم بچے کی طرح رونا بہت غیرمناسب تھا لیکن بار بار پلکوں پہ امنڈ آنے والا اشکوں کا سیلاب کہاں تک جذب کیا جاسکتا تھا۔ اب تقریباً أدھے گھنٹے سے وہ کبھی ابا کے نمبر پر کبھی اماں کے نمبر پر اور کبھی بھاٸی کے نمبر پر مسلسل فون کر رہا تھا لیکن اس کا فون کوٸی بھی اٹینڈ نہیں کررہا تھا۔

نواز کے لیے اب بات کرنا بھی دشوار تھا۔ اسے لگ رہا تھا، اگر کسی نے اس کو مخاطب کیا تو گلے سے آواز کی جگہ رونے کی دھاڑ نکلے گی، کوٸی بیس سے پچیس بار سب کے نمبرز ملانے کے بعد کہیں پاکستانی وقت کے مطابق رات بارہ بجے چھوٹی باجی نے فون اٹینڈ کیا۔ وہ بھی کوٸی بات کرنے کے بجائے بلک بلک کر رو رہی تھی۔ نواز بھی آفس سے اٹھ کر واش روم چلا گیا تھا، تا کہ اس کے دفتر کے عملے کے لوگ اسے روتا نہ دیکھ لیں۔ دونوں بہن بھاٸی خوب روئے۔ چھوٹی بہن نے بس اتنا کہا بھاٸی امی۔ اور پھر رونے لگی۔ نواز نے فوراً پاکستان جانے کا پروگرام بنایا۔ نواز اور اس کی بیوی چند گھڑیاں بعد براستہ دبٸی پاکستان روانہ تھے۔ ادھر حاصل پور اسپتال کے عملے نے حسب روایت بے بسی ظاہر کرتے ہوۓ علاج کرنے سے معذرت کرلی اور انتہاٸی پریشان کن اور تشویشناک حالت میں مبتلإ نواز کی اماں کو بہاولپور ریفر کردیا۔

نواز کا چھوٹا بھاٸی اور ابا جی رات کے اس پہر کسی ایمبولینس والے کو، مریض کو بہاولپور پہنچانے پہ آمادہ کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔ کوٸی بھی ایمبولینس والا اس حال میں مریض کو بہاولپور لے جانے کے لیے تیار نہ تھا ۔ ہر کوٸی یہی کہہ رہا تھا مریض کو گھر لے جاٸیں۔ بچوں کے پاس رکھیں۔ یہ قیمتی گھڑیاں ہیں۔  وقت اور پیسہ ضاٸع مت کریں۔ جو حالت مریض کی ہے آپ بہاولپور نہیں پہنچ پاٸیں گے۔ مگر نواز کے ابا اور بھاٸی بضد تھے ۔ وہ ہرحال میں بہاولپور جانا چاہتے تھے۔ وہ تقدیر سے الجھنا چاہتے تھے یا شاید انھیں اپنی دعاٶں پہ بھروسا تھا۔

خدا خدا کرکے ایک ایمنولینس والے کو ان پہ رحم آ گیا ۔ جلدی جلدی مریض کو ایمبولینس میں ڈال کر وہ لوگ بہاولپور کے لیے روانہ ہو گٸے۔ سو کلومیٹر کا فاصلہ کب طے ہوا پتا ہی نہ چلا ۔ اب نواز کی اماں وارڈ میں داخل کر لی گٸی تھیں۔ ڈیوٹی پر موجود ڈاکٹر بھی سچ مچ کوٸی فرشتہ تھا۔ اس نے اپنی تمام قابلیت کو بروئے کار لاتے ہوۓ اماں کو ٹریٹ کیا۔ صبح تک اماں کو ہوش آ گیا تھا۔ اگلے دن لگ بھگ دس بجے دن نواز اور اس کی بیوی بھی ہزاروں میل کا سفر طے کرکے بہاولپور وکٹوریہ اسپتال پہنچ چکے تھے۔

جب نواز اور اس کی اماں آمنے سامنے أئے تو وہ رقت آمیز منظر کسی بھی انسان کو رلانے کے لیے کافی تھا ۔ اسپتال کے ساٸیڈ روم میں موجود تمام لوگ رونے اور ایک دوسرے کو دلاسہ دینے میں مصروف تھے ۔ ایک ہفتہ اسپتال میں داخل رکھنے کے بعد کچھ دواٸیاں دے کر ہسپتال کے سینیٸر ڈاکٹر نے نواز کی اماں کو ڈسچارج کردیا ۔ اب وہ لوگ واپس گھر پہنچ چکے تھے اہل محلہ جو کسی افسوسناک خبر کے انتظار میں تھے نواز کی اماں کی خبرگیری کو امڈ آئے۔

اسی محلہ میں ایک مشہور و معروف نعت خواں کا بھی گھر تھا۔ وہ نعت خواں جس کی سریلی أواز اور مہذب گفتگو کا طوطی صرف حاصل پور میں ہی نہیں بلکہ دور دور تک کے دیہات اور شہروں میں بولتا تھا۔ پیسے کی فراوانی تھی ۔ کسی بھی نعت خوانی کے پروگرام کے منہ بولے پیسے وصول کرتا تھا۔ بڑے بڑے امیر لوگ جب اسے محافل میں مدعو کرتے تو عقیدت سے اس کے ہاتھ چومتے، خود زمین پر بیٹھتے مگر اسے عزت احترام والا مقام دیتے۔ اب تو سنا ہے وہ کسی ٹی وی چینل پہ بھی پروگرام کرنے لگا ہے۔ نعت خواں کی اماں پہلے بھی اکثر نواز کی اماں سے ملنے آ جایا کرتی تھی۔ آج جب وہ نواز کی اماں کی خبرگیری کو آٸی، اس وقت نواز اپنے ہاتھوں سے اپنی اماں کو سوپ پلا رہا تھا اور نواز کی بیوی اماں کے پاٶں دبا رہی تھی ۔

یہ منظر دیکھ کر نعت خواں کی اماں نے نواز کی اماں سے رشک سے کہا بہن تم بہت قسمت والی ہو۔ ایک تمھاری اولاد ہے انگریزوں کے ملک میں رہ کر بھی جانتی ہے کہ ماں باپ کا کیا مقام ہے اور ایک میرا بیٹا ہے پورا زمانہ اسے ولی پیر اور پتا نہیں کیا کیا سمجھتا ہے لیکن جب وہ گھر ہوتا ہے تو میرا اور اپنے ابا کا جینا حرام کیے رکھتا ہے۔ اپنے ابا سے گالی کے علاوہ بات نہیں کرتا۔ اس کے ابا کو یا مجھے اجازت نہیں کہ اس کے کمرے میں داخل ہو سکیں۔ کچھ دن پہلےکی بات ہے شہر میں ایک جگہ میلاد کا پروگرام تھا۔ بری قسمت اس کے ابا بھی وہاں چلے گٸے۔ گھر آ کر اس نے اپنے ابا کو وہ گالیاں دیں کہ بس زمین نہیں پھٹی۔ نواز نے حیرت سے پوچھا اماں کیوں گالیاں دیں؟ تو اس نے بتایا کہ بیٹا وہ کہتا ہے میری توہین ہوتی ہے۔ وہ اب بہت بڑا نعت خواں بن گیا ہے ناں۔ اپنے ابا کے میلے کچیلے کپڑے پھٹے جوتے اسے پسند نہیں۔

نواز نے کہا اماں اب تو وہ ٹھیک ٹھاک پیسہ کماتا ہے اپنے ابا کو اچھے کپڑے اور جوتے کیوں نہیں لے کر دیتا۔ آپ کا بیٹا میرا فیس بک فرینڈ ہے۔ ہم ایک دوسرے کو اچھی طرح جانتے ہیں۔ آپ کہیں تو میں بات کرتا ہوں۔ اس کی اماں نے کہا ناں بیٹا ناں۔ وہ مجھے بھی مارتا ہے۔ اگر اسے پتا چل گیا کہ میں نے تمھیں سب بتایا ہے تو مجھے جان سے ما ردے گا۔ کاش وہ بہت بڑا نعت خواں بننے کی بجائے اچھا انسان بن جاتا ۔ کاش وہ بھی تیری طرح  ولایت چلا جاتا۔ بیٹا ہمارا بیٹا مکار ہے جو باہر لوگوں میں کچھ اور ہے اور گھر اپنے ماں باپ کے ساتھ کچھ اور۔

بہت بڑے نعت خواں کی اماں کی باتیں سن کر نواز کی اماں نے اسے تسلی دی اور اپنے ولائتی بیٹے کی پیشانی پہ بوسہ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).