مشتری ہشیار باش، فضل الرحمان آرہا ہے



خاکسار یاد آ گئے۔ خاکی کپڑے اور کندھوں پر بیلچے۔ اگر چہ یہ تحریک بھی زیادہ تر مذہبی تحریکوں کی طرح اپنے بانی کی زندگی تک ہی زندہ ر ہ سکی اور اپنے تمام تر جذبات و احساسات کے ساتھ وقت کے اٹھتے طوفانوں کی نذر ہوگئی۔ لیکن مارچ 1940  میں یہ اتنے نڈر اور طاقتور ہوگئے تھے کہ ڈبی بازار لاہور میں انہوں نے جلوس روکنے والے پولیس آفیسر کو قتل کر دیا۔ پولیس نے گولی چلا دی۔ ہزاروں خاکسار گرفتار ہوئے یا مارے گئے۔ مرنے والوں میں امیر تحریک کا بیٹا بھی شامل تھا۔

اس کے ارکان فوجی طرز کی وردی پہنتے تھے۔ تحریک سے وابستہ ہونے والے افراد ایک ’خونی معاہدہ‘ لکھتے تھے، ”میں دل و جاں سے وعدہ کرتا ہوں کہ تحریک کے ساتھ رہوں گا اور کسی قسم کی قربانی سے دریغ نہیں کروں گا اور اگر میں کسی قسم کی بے وفائی کروں، خدا مجھے جہنم کے سب سے نچلے درجے میں ڈال دے۔“ یہ عبارت بعض مرتبہ خون سے لکھی جاتی اسی لئے اسے خونی معاہدہ کہتے تھے۔ 1940 سے 1947 کے ہنگامہ خیز دور میں انہوں نے پابندیوں، گرفتاریوں اور کالا پانی کی سزاؤں کے باوجود سیاست میں ہلچل مچائی رکھی۔

جب مولانا فضل الرحمان نے اپنی ڈنڈا بردار فوج کی رونمائی کی تو ان کا مقصد شاید یہی تھا کہ موجودہ حکومت کو اسی طرح خوفزدہ کیا جائے جیسے خاکسار کیا کرتے تھے۔ مولانا نفسیاتی جنگ لڑ رہے ہیں۔ انہیں پتا ہے کہ موجودہ حکمرانوں میں ذہنی دباؤ برداشت کرنے کی صلاحیت کم ہے۔ مولانا دو ماہ سے حکومت  پر دباؤ برقرار رکھے ہوئے ہیں۔ عمران خان اور ان کے ساتھی ان حالات میں غلطیاں کر رہے ہیں اور یہی مولانا کا مقصد ہے۔

جب لانگ مارچ اور دھرنے کا پروگرام بننا شروع ہوا تھا تو یہ خیال تھا کہ عمران خان کو لانے والے ان کی پشت پر موجود ہیں اور ان حالات میں کوئی ان کا بال بھی بیکا نہیں کرسکتا۔ حکومت بھی اسی خوش فہمی میں تھی کہ سب ہمارے ساتھ ایک ہی پیج پر موجود ہیں۔ لیکن اب بہت سے تجزیہ نگار اس سے مختلف کہانی بیان کر رہے ہیں۔ پہلے دوسرے درجے کی قوتوں کی بات ہوئی اور اب سنا جا رہا ہے کہ اعلیٰ سطح سے بھی حکمرانوں کو اپنے معاملات خود ٹھیک کرنے کا مشورہ ملا ہے۔ اگر یہ سچ ہے تو مولانا کو اتنی تگ و دو کرنے کی کیا ضرورت ہے؟ یہ حکومت تو اتنی کمزور ہے کہ بغیر سہارے کے کھڑی ہی نہیں رہ سکتی۔

پاکستاں کی سیاسی تاریخ تو یہ بتاتی ہے کہ بڑے بڑے طرم خاں بھی سہارے کے بغیر زمین بوس ہو جاتے ہیں یا ان کو جیلوں کی مٹی چاٹنے پر مجبور کر دیا جاتا ہے۔ اگر موجودہ حکومت کو گرانا ہی مقصد ہے تو اسی پارٹی میں سے کسی کو ہلا شیری دے دی جائے وہ خود ہی دوسرے دن وزیر اعظم بن سکتا ہے۔ پھر مولانا کو تکلیف کیوں دی جا رہی ہے؟

مولانا موجودہ سیاست دانوں میں سب سے زیادہ گھاگ لیڈر ہیں۔ ان کو بھی پتا ہے کہ عمران خان کو لانے والے ان سے نا امید ہو چکے ہیں اوراس کا جانا ٹھہر گیا ہے۔ پھر وہ اتنا زور کیوں لگا رہے ہیں؟ ایک وجہ تو بظاہر یہ نظر آتی ہے کہ وہ اپنے ووٹر پکے کر رہے ہیں، لیکن اگر ان کے اندازے کسی وجہ سے غلط ہو گئے تو ان کے ووٹ اور زیادہ خراب ہو جائیں گے۔ اس لئے یہ وجہ اتنی اہم نہیں۔ اگر وہ جیت بھی جاتے ہیں تو ان کے ووٹ پھر بھی ایک حد سے زیادہ نہیں بڑھ سکتے۔ پھر وہ اتنی محنت کیوں کر رہے ہیں۔ جب کہ اس کے بغیر بھی منزل مقصود سامنے نظر آ رہی ہے۔

اپوزیشن کی دوسری پارٹیاں بھی ان کے ساتھ چلنے میں ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کر رہی ہیں۔ اور اگر وہ محدود پیمانے پر ان کے ساتھ چلنے کو تیارہوئے بھی ہیں  تو صرف اس لئے کہ سیاستدان کسی بھی عوامی اجتماع اور سیاسی تحریک سے دور نہیں رہ سکتے۔ لیکن لگتا ہے کہ وہ ان حالات میں ابھی بھی گو مگو کی کیفیت کا شکار ہیں۔
مولانا مذہبی سیاست کرتے ہیں۔ مولانا کی سیاست ہمیشہ حالات اور راولپنڈی کے موسم کے ساتھ ساتھ بدلتی ہے۔
تحریک پاکستان سے لے کر آج تک ہمارے ملک میں بہت سی مذہبی پارٹیاں سیاست میں ہل چل کا باعث بنتی رہی ہیں لیکن وہ کبھی بھی عوامی مقبولیت کی اس سطح تک نہیں پہنچ سکیں کہ کوئی متاثر کن نتائج دکھا سکیں۔ احرار ہوں یا خاکسار کچھ نہ کر سکے۔

جمعیت علماء اسلام (سابق جمعیت علمائے ہند) ہو یا جماعت اسلامی، کبھی بھی چند سیٹوں سے آگے نہ بڑھ سکیں۔ لیکن مذہبی سیاسی پارٹیاں ہمیشہ حکومتوں کو گرانے اور ڈرانے  میں کامیاب رہی ہیں۔ جہادی سوچ اور کشمیر و افغانستان کی مہم جوئی ان کی عسکری طاقت کو جلا بخشتی رہی ہے۔ اس کے علاوہ ان جماعتوں اور گروپوں کی اندرونی و بیرونی پشت پناہی ان کی اس صلاحیت کو مزید بڑھانے میں ممد رہی ہے۔ اس لئے جب بھی کوئی مقبول قائد عطا شدہ حدود کو پار کرنے کی کوشش کرتا ہے تو ان جماعتوں کے صرف چند سو مجاہدین پورے ملک کو بند اور حکمران کا دھڑن تختہ کر دیتے ہیں۔

پچھلی صدی کی آخری دہائی کا مقبول نعرہ ظالمو! قاضی آ رہا ہے، ہمیشہ جمہوری قوتوں کے خلاف ہی استعمال ہوا۔ جماعت اسلامی جو تین دہائیوں تک یہ کار خیر انجام دیتی رہی اب اپنے انجام کو پہنچ چکی ہے۔ پچھلی دو حکومتیں گرانے کے لئے طاہرالقادری، تحریک لبیک یا رسول اللہ اور ملی یکجہتی کونسل کی خدمات سے استفادہ کیا گیا۔ طاہر القادری کی توپیں اب قابل استعمال نہیں رہیں، ٹی ایل پی اپنی حدود سے متجاوز ہو کر درماندہ نگاہ ہو چکی ہے اور ملی کونسل پر اقوام متحدہ اور مغربی ممالک کا دباؤ ناقابل برداشت ہے اس لئے اب لگتا ہے کہ مولانا کی یہ موجودہ مہم اگلی ایک یا دو دہائیوں میں جمہوری حکومتوں کو لگام ڈالنے کی تیاری ہے۔

پیپلز پارٹی اور نواز لیگ کی اول درجہ کی تمام قیادت کو زیر حصار رکھ کر مولانا کو کھلا میدان مہیا کیا گیا ہے تا کہ وہ اپنی طاقت کا بھر پور مظاہرہ کر سکیں۔ خاکی وردی اور فوجی طرز کا سیلوٹ مولانا کے آنے والے شکاروں کو متنبہ کرتا ہے کہ وہ خاکساروں کی طرح ملک کی سیاست میں عسکری مہم جوئی کر سکتے ہیں۔ مشرق وسطی میں متوقع سرد و گرم جنگ میں بھی مولانا اور ان کے حواری انتہائی اہم ہیں۔ ایران کے خلاف کسی بھی قسم کی مہم جوئی میں ان کی ڈنڈا بردار فوج کوئی بھی شکل اختیار کر سکتی ہے۔ مسلم لیگ نواز اور پیپلز پارٹی کو سوچنا چاہیے کہ کیا ان کو مجبور کر کے مولانا کی طرف دھکیلا جا رہا ہے؟ ان کو سوچنا چاہیے کہ آج جس کا وہ ساتھ دینے جا رہے ہیں کل وہ ان کے راستہ کا کانٹا تو نہیں بن جائے گا؟ ان کو یاد رکھنا چاہیے کہ پرویز مشرف کو ایک ہی اسمبلی سے دوسری بار منتخب کروانے میں مولانا کا سب سے اہم کردار رہا ہے اور اس وقت وہ تمام جمہوری قوتوں کے خلاف آمریت کے مدد گار تھے۔ مولانا ابھی بھی وہی ہیں، وہ راولپنڈی کے موسم کے موافق ہی چلتے ہیں اوراسی چمن کی ہوائیں ان کی اڑان کوہمیشہ مدد فراہم کرتی رہی ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).