کرنٹ اکاونٹ سمجھی جانے والی عورتیں



’’آپ کے شوہر آپ کو کیوں چھوڑ گئے‘‘؟ یا ’’آپ دوسری شادی کیوں نہیں کر لیتیں‘‘؟ ایسے سوالوں کے جواب ہر کس و نا کس، بالخصوص کسی اجنبی کو دینا، کس قدر مشکل ہوسکتا ہے اس کا اندازہ سوال کرنے والے کو نہیں ہوتا۔ اور ایسے میں جب سنگل مدر کے بچے بھی ساتھ ہوں، وہ حیران نظروں سے ماں کو کبھی سوال کنندہ کو دیکھتے ہوں، تو ایک بیوہ یا طلاق یافتہ ماں کی دلی کیفیت کا اندازہ ایک وہ خود ہی لگا سکتی ہے۔ اکیلی ماں کو ہمارا معاشرہ ابھی تک قبول نہیں کر پایا۔

اسکول میں بچوں کی فیملی فوٹو لینے کا چلن عام ہے۔ جب یہ تصویریں دیکھ کر بچوں سے اسی قسم کے سوال بچوں سے کیے جائیں، کہ تصویر میں تمھارے والد کیوں نہیں ہیں؟ تب بچوں سے کس جواب کی امید رکھی جائے؟

پتا کیجیے تو سنگل مدرز کی اکثریت نے یہ طرز زندگی خود اپنے لیے منتخب نہیں کیا، بلکہ حالات کے جبر نے، انھیں اس بند گلی میں لا دھکیلا ہے۔ شوہر کی وفات، بسلسلہ روزگار دوسرے شہر یا ملک میں سکونت یا پھر میاں بیوی میں علاحدگی، یہ وہ چند عوامل ہیں، جو ایک عورت کو باپ کا کردار ادا کرنے پر مجبور کرسکتے ہیں۔

صرف کچھ دیر کے لیے اُس تنِ تنہا ماں کے کرب کو محسوس کیجیے، جس کے ساتھ، بچوں کی پرورش و غم روزگار جڑا ہو۔ ایسی ایسی دشواریاں ہوتی ہیں کہ کہنے کو الفاظ کم پڑ جائیں، لیکن اردگرد، یہاں تک کہ اس عورت کے خاندان کو بھی اس کا اندازہ نہیں ہو پاتا۔

مغربی معاشرے میں، جہاں سوشل سیکیورٹی کا مربوط نظام، ایک حد تک شہریوں کے حقوق کو یقینی بناتا ہے، وہاں اکیلی ماں کا اپنے بچوں کی پرورش کرنا، قدرے آسان ہے لیکن پاکستانی معاشرے میں اس کے ساتھ بہت سے معاشی، خانگی، نفسیاتی مسائل جڑے ہیں۔ اس صورت حال سے دو چار خواتین کو، اپنی ذمہ داریوں سے بطریق احسن نبرد آزما ہونے کے لیے، جن ذہنی اور نفسیاتی دباؤ کا سامنا کرنا پڑتا ہے اس پر بات نہیں کی جاتی۔

بہتر تعلیمی قابلیت یا پیشہ ورانہ ڈگری رکھنے والی مائیں تو کسی نہ کسی طرح ایک باعزت روزگار تلاش کر ہی لیتی ہیں لیکن ایک اوسط تعلیم یافتہ اور غیر ہنر مند عورت کے لیے حصول روزگار تقریباََ نا ممکن ہے۔ ایسی بے روزگار ماں اپنی اولاد کے روزمرہ اخراجات کے لیے والدین، بہن بھائیوں یا دوسرے رشتہ داروں پر انحصار، اس کی عزت نفس کو کیسے تباہ کرتا ہے۔ ترحم آمیز لہجے، ہم دردی کا ناٹک، اور تلخ ماضی کے حوالے جب روز سننا پڑیں، تو دل پر کیا کیا گزرتی ہے، یہ سنگل مدر ہی جانتی ہے۔

وہ کون والدین ہوں گے جو اپنے بچوں کی بہترین تعلیم اور اچھی تربیت کے ساتھ، ساتھ اپنے وسائل میں رہتے ہوئے ان کے محفوظ مستقبل اور معصوم خواہشات کی تکمیل نہیں چاہتے ہوں گے۔ سبھی والدین اس کی مقدور بھر سعی کرتے ہیں اور یہی جستجو ان کی زندگی کا محور و مقصد بن جاتی ہے۔ لیکن ایک اکیلی ماں کے لیے یہ چیلنج کس قدر کٹھن ہے۔ وہ کس طرح تنِ تنہا روزمرہ کے مسائل کا سامنا کرتی ہے؟ جہاں فکر معاش اُسے گھر نہیں بیٹھنے دیتے، وہیں مختلف طرح کے خدشات، مثلاََ بچوں کی حفاظت اور تربیت کے حوالے سے اُسے بے چین رکھتے ہیں۔

سنگل مدر کو بیک وقت بہت سے کردار ادا کرنے ہیں۔ جہاں اسے ہمہ وقت ماں اور باپ بن کر اپنے بچوں کی نفسیاتی اور جذباتی مدد کرنی ہے وہیں اپنے آپ کو بھی سنبھالنا ہے کہ اس کا ٹوٹا ہوا حوصلہ کہیں اس کے بچوں کی شخصیت پر منفی اثر نہ ڈالے۔ ایسی ماں اپنی سی تمام کوشش کے باوجود ہمیشہ ایک احساس جرم کا شکار رہتی ہے، کہ بچوں کے لیے اس کی توجہ اور تربیت میں کچھ کمی باقی ہے۔ ایسا سوچتی ہے، کہ بچوں کو خاندان کا وہ تحفظ اور اعتماد میسر نہیں، جس کی کمی ایک مرد پوری کر سکتا تھا۔

اگر بچے شیرخوارگی کی حد سے نکل آئے ہوں تو ایسے میں ’9 تا 5‘ ملازمت کا جاری رکھنا انتہائی دشوار ہوتا ہے۔ اسکول سے واپسی پر تھکے ہارے بچوں کے استقبال کے لیے، جب ماں موجود نہ ہو، کوئی ان کی خوراک کا خیال نہ رکھ سکے، تو ایسے میں بچوں کے رویے میں ایک بد اعتمادی دکھائی دینے لگتی ہے۔ وہ اپنے اس ادھورے خاندان کا تقابل اپنے باقی دوستوں سے کرنے لگتے ہیں۔

اسی طرح شام کو دفتر سے واپسی پر دن بھر کی مشقت سے چور ماں کا کام ختم نہیں ہوتا۔ جہاں اسے اگلے دن کے لیے خود کو ذہنی اور جسمانی طور پر تیار کرنے کا وقت درکار ہے، وہیں بچوں کی ذمہ داریاں بھی ادا کرنی ہیں۔ اسکول کا ہوم ورک، رات کے کھانے کی تیاری، بچوں کو وقت دینا، کسی طرح سہل نہیں۔ یہ صورت احوال جہاں اس ماں کی ذہنی پریشانیوں میں اضافے کا باعث بنتی ہے، وہیں غیر ارادی عدم توجہی کے اثرات، بچوں کی تعلیم و تربیت پر بھی دکھائی دینے لگتے ہیں۔

اکیلی ماں پر دوسری شادی کے لیے گھر والوں اور معاشرے کا ایک مستقل دباو، اسے زندگی کے کسی ایک نقطے پر مرتکز کرتے، اس کی شخصیت میں کجی پیدا کر دیتا ہے۔ ایسے مشورے دینے والے اکثر مستقبل کے خدشات کو یکسر نظر انداز کر دیتے ہیں۔ بظاہر اس مسلم معاشرے میں، جہاں دوسری شادی آج بھی ایک ٹیبو سمجھی جاتی ہے، وہاں بچوں کے ساتھ نئے رشتے کے ساتھ ایڈجسٹ کرنا، شخصی راحت، خوشی، سکون اور تحفظ کی قیمت پر، بچوں کے کل کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ۔ یہ فکریں کہ زندگی میں آنے والا نیا مرد، ان بچوں کو قبول کرے گا یا نہیں، یا یہ بچے اس شخص کو اپنی زندگی میں جگہ دے پائیں گے، کہ نہیں؟ پھر یہ اندیشہ کہ دوسری شادی کے بعد اولاد پیدا ہونے کی صورت میں، سابق شوہر کے بچوں کا مستقبل کیا ہو گا؟ وغیرہ۔

ہمارا معاشرہ ایک اکیلی ماں کو اس عورت سے یکسر مختلف سلوک کا نشانہ بناتا ہے، جس کا شوہر موجود ہو۔ کام کی جگہ ہو یا گلی محلہ، غلیظ توقعات کا کیچڑ ہر وقت اردگرد پھیلا دکھائی دیتا ہے۔ کہیں ہم دردی، کہیں مالی مدد، کہیں شادی کے جھوٹے وعدے، لیکن مقصد صرف ایک۔ اس عدم تحفظ کے ماحول میں زندگی گزارنا روز مرنے جیسا ہے۔

پدر شاہی معاشرے میں رہتے ہوئے ان رویوں کا سامنا، کہ ایسی عورت کو ایک کرنٹ اکاونٹ سمجھا جائے، ایک معمول ہے۔ قیاس کر لیا جاتا ہے، کہ ایسی عورت، مرد سے جنسی تعلق کی بھوک میں مبتلا ہے۔ یہ ’’خدمات‘‘ پیش کرنے والے ہمہ وقت موقِع کی تاک میں رہتے ہیں۔ ایسے ’’جری مرد‘‘ سنگل مدر کو ذہنی اور نفسیاتی تشدد کا نشانہ بنانے سے نہیں چوکتے۔ ایسے کہ دوست اور دشمن کی تخصیص نہیں رہتی۔ شہوت بھری نگاہوں کے حلقے میں گھری ایک اکیلی اور پریشان حال عورت کی نفسیات پر، یہ رویے، کیسے نقوش چھوڑتے ہیں، اس پر صفحوں کے صفحے سیاہ کیے جا سکتے ہیں۔

اگر چہ آج ہمارے معاشرے کی اقدار تیزی سے تبدیل ہو رہی ہیں لیکن اپنے اپنی ہستی کو فراموش کیے، بچوں کی پرورش کی فکر میں مبتلا، جہد مسلسل کا شکار سنگل مدر کے متعلق، سماج کے تصورات تبدیل نہیں ہوئے۔ کب تبدیل ہوں گے؟ ہوں گے بھی یا نہیں؟ لیکن ہونے تو چاہیے۔

وہ رت اے ہم نفس جانے کب آئے گی
وہ فصل دیر رَس جانے کب آئے گی


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).