کندھا المیڈا کا، بندوق نواز لیگ کی ،اور نشانہ؟


\"aqdas

ترکی کے ایک مشہور ناول نگار مہمت مرات الدان  سے منقول ہے کہ ’’اگر آپ کے ملک میں آزادیٔ صحافت نہیں تو آپ نہ تو اخبار ٖٖخریدیں اورنہ ہی خبریں دیکھیں، کیوں کہ آپ کو جھوٹ سننے کی کوئی ضرورت نہیں۔ اس صورت میں آپ کے پاس ایک سچی خبر تو ہے، اور وہ یہ کہ آپ کے حکمران آپ کو بیوقوف بنا رہے ہیں۔‘‘

اگر حقیقت کی نگاہ سے دیکھا جائے تو بات سچی ہے۔ یہ روش اب بہت پرانی ہو چلی۔ حکومت  یا ریاست میڈیا کو کنٹرول کرنے کی کوشش کرتی  ہے اورمیڈیا  اپنی آزادی کی جنگ لڑتا ہے۔ میڈیا کو کنٹرول کرنے میں ’’قومی مفاد‘‘ کی اصطلاح کا استعمال عام ہے۔  قومی مفاد  کے نام پر آزادی رائے پر قدغن صرف پاکستان کا خاصہ نہیں، بلکہ دنیا بھر میں ایسی کئی مثالیں موجود ہیں جہاں حکومت کی کارکردگی پر سوال اٹھانے والوں کو ’’غدار‘‘ یا ملک دشمن قرار دیا جاتا ہے۔ امریکہ کی مثال لیں تو پہلے جولین اسانج اور پھر ایڈورڈ سنوڈن کو اس بناء پر غدار قرار دیا گیا کہ ان کی جاری کردہ معلومات امریکی مفاد  کے منافی ہیں اور اس سے امریکہ کی سلامتی کو خطرہ پہنچا ہے۔ بات  اس حد تک آگے بڑھ گئی کہ دونوں کو دوسرے ممالک میں پناہ لینی پڑی۔  حالیہ دنوں میں وکی لیکس پر شائع ہونے والی ایک خبر کے مطابق امریکی صدارتی امیدوار ہیلری کلنٹن ،جولین اسانج کو ڈرون حملے میں مروانا چاہتی تھیں۔ جبکہ ایڈورڈ سنوڈن کی داستان بھی کچھ کم غمگین نہیں، انہیں روس نے بچا لیا، ورنہ اب امریکہ میں غداری  کا مقدمہ بھگت رہے ہوتے۔

اس کے باوجود اسی امریکہ میں نوم چامسکی ، گلین گرین ولڈ، جیرمی سکاہل اور سیمورہرش جیسے صحافی بھی موجود ہیں، جو حکومت اور فوج کی پالیسی  کو سرِ عام تنقید کا نشانہ بناتےہیں، انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے خلاف آوازاٹھاتے ہیں، بلیک واٹر جیسی تنظیموں کا پردہ چاک کرتے ہیں، ابو غریب  اور گوانتانامو کی تصاویر جاری کرتے ہیں۔ اسی سنوڈن کو امریکی صحافتی برادری کی جانب سے پلٹزر پرائز دیا جاتا ہے۔ اپنے صحافی بھائیوں کو بچانے کے لیے پوری صحافتی برادری میدان میں آجاتی ہے، کیونکہ انہوں نے ’’قومی مفاد‘‘ اور ’’قومی سلامتی‘‘ کو صرف کچھ مقدس لوگوں یا اداروں تک محدود نہیں کیا ہوا۔ تھامس جیفرسن کے بقول

’’ہم سب کی سلامتی آزاد صحافت میں ہے۔‘‘

ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم نے قومی مفاد اور قومی سلامتی  کو چند لوگوں، اداروں یا منصوبوں تک محدود کر رکھا ہے۔ جہاں ان پر سوال اٹھتے ہیں وہیں قومی مفاد کو خطرہ لاحق ہو جاتا ہے۔ مگر درحقیقت وہ خطرہ قومی مفاد کو نہیں، چند گنے چنے افراد کے ذاتی مفاد کو لاحق ہوتا ہے۔ ورنہ قومی مفاد میں تو یہ بھی ہے کہ آزادئ رائے ہو، انسانی حقوق کا تحفظ ہو، لوگوں کو انصاف ملے، ملک میں امن ہو اور سب سے  بڑھ کر عوام ’’باشعور‘‘ ہوں۔ بے شعور عوام کسی بھی قوم کے مفاد میں نہیں، بقول جالب

بے شعور لوگ ہیں

زندگی کا روگ ہیں

وقتی طور پر تو اچھا لگتا ہے کہ عوام بے وقوف بن رہی ہے، نہ سوال پوچھتی ہے، نہ کسی کو پوچھنے دیتی ہے۔ چاروں انگلیاں گھی میں اور سر کڑاہی میں۔ مگر حقیقت اس کے برعکس ہے۔ ایسی ہی  اقوام ہٹلر اور مسولینی نے بھی بنانے کی کوشش کی۔ عوام کو بے وقوف بنایا۔ میڈیا کے ذریعے عوام میں قومی یکجہتی کا کچھ ایسا ہی خاکہ بنایا جیسا آج ہمارے ہاں بنایا جا رہا ہے: ایک چپ اور سو سکھ۔ وہ بھی یہی کہتے تھے کہ کوئی سوال نہ اٹھاؤ، یہ قومی مفاد اور سلامتی کے خلاف ہے۔ ایک وقت تھا کہ یہ دونوں عروج پر تھے، پھر وقت نے پلٹا کھایا اور دونوں عبرت کا نشان بن گئے۔  پاکستان میں بھی صاحبان اقتدار کو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ بے شعور قومیں آخر میں روگ بن جایا کرتی ہیں۔ اگر کوئی ان کو سوال کرنا سکھا رہا ہے، اگر کوئی ان کو حقیقت بتا رہا ہے، اگر کوئی ان کو باشعور بنا رہا ہے تو خدارا اسے روکیں نہیں۔

صحافت ریاست کا چھوتھا ستون ہوتی ہے۔ صحافی کا کام خبر دینا، ریاستی پالیسیوں پر نظر رکھنا اور ان سے متعلق سوالات اٹھانا ہوتا ہے۔ اسے ’’واچ ڈاگ میڈیا‘‘ کہا جاتا ہے۔ صحافی کو کوئی خبر ملے گی تو وہ  کچھ تحقیق کے بعد اسے شائع کرے گا اور یہی اس کا کام ہے۔ کبھی کبھار ایسا بھی ہوتا ہے کہ خبر کو بغیر تصدیق کے شائع کیا جاتا ہے۔ اگر آپ کو یاد ہو تو پاکستان میں ایک ویڈیو چلائی گئی جس میں سوات میں ایک لڑکی کو کوڑے مارے جا رہے تھے۔ اس ویڈیو کو میڈیا پر بارہا چلایا گیا۔ بین الاقوامی میڈیا میں بھی پاکستان  کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا، انسانی حقوق کے اداروں نے بھی بہت سختی سے اس کا نوٹس لیا اور پاکستان کی بہت سبکی ہوئی۔ کچھ عرصہ بعد یہ واضح ہوا کہ مذکورہ ویڈیو جعلی تھی۔ صحافتی اداروں اور صحافیوں کی یہ ذمہ داری تھی کہ  پہلے اس ویڈیو کی صداقت کی تحقیق کرتے اور پھر اسے چلاتے۔ سٹیورٹ ہال اسی تناظر میں لکھتے ہیں کہ بسا اوقات میڈیا کچھ خبریں بلا تصدیق شائع کر دیتا ہے کیوں کہ میڈیا گروپس پر بھی یہ دباؤ ہوتا ہے کہ کون سا گروپ عوام کی زیادہ توجہ حاصل کر پاتا ہے۔ اسی دباؤ کی وجہ سے نہ صرف بہت سی خبروں کی تحقیق میں غفلت برتی جاتی ہے، بلکہ خبر کے ان پہلؤں کو زیادہ اجاگر کیا جاتا ہےجن سے عوام کی توجہ اپنی جانب مبذول کروائی جا سکے۔

پچھلے کچھ دنوں سے پاکستان میں بھی ایک میڈیا گروپ اور خاص طور سے ایک صحافی ، سیرل المیڈا کو حکومتی اداروں کی جانب سے تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ سیرل المیڈا کا قصور صرف اتنا ہے کہ انہوں نے حساس وقت میں ایک حساس خبر شائع کی۔ البتہ یہ ایک الگ سوال ہے کہ حساسیت کی نوعیت تعین کرنے کا حق صرف چند لوگوں کے ہاتھ میں ہی کیوں ہے؟   پاناما کی بات کرو تو میاں صاحب کی حساسیت آڑے آجاتی ہے، دہشت گردوں سے متعلق دوہری پالیسی کا سوال اٹھاؤ تو وردی والوں کو چھینکیں آنے لگتی ہیں۔ بہر حال المیڈانے خبر دیتے ہوئے حکومتی ذرائع سے تصدیق کی، اورتھوڑی نمک مرچ لگا کر خبر شائع کر دی۔ پھر جو ہوا وہ اس کہانی کے موجودہ صحفے پر تحریر ہے: ’’وفاقی وزارت داخلہ نے تحقیقات کی غرض سے سیرل المیڈا کا نام ای سی ایل میں ڈال دیا ہے‘‘ یعنی ایک ہی صف میں کھڑے ہو گئے المیڈا اور ایان۔

میری رائے میں کچھ حکومتی حلقوں کی جانب سے دانستہ طور پر سیرل المیڈا کو یہ خبر دی گئی ۔ ایک معتبر اخبار میں ایک معتبر صحافی کی جانب  سے ایسی خبر شائع کروانے کا مقصد یا تو عسکری اداروں پر دباؤ پریشر ڈالنا تھا یا پھر اپنی صفائی پیش کرنا۔ مقصد جو بھی تھا، اس کے نتائج توقع کے برعکس نکلے  اور عسکری اداروں کی جانب سے اس خبر کا سختی سے نوٹس لیا گیا۔ بوکھلاہٹ کا شکار حکومت نے اپنا پرانا حربہ آزماتے ہوئے ایک صحافی پر ملبہ ڈالنے کی کوشش کی اور اس کا نام ای سی ایل میں ڈال دیا۔ اس  ڈرامے کے ڈراپ سین کا ہم سب کو انتظار ہے، مگر اب تک کی کہانی سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ تیروں کا رخ اکیلے المیڈا کی جانب ہے۔ یہاں اس بات کو مدنظر رکھنا بہت ضروری ہے کہ اگر یہ ٖخبر من و عن درست بھی ہے، تب بھی اسے شائع کرنا کوئی گناہ نہیں، چہ جائیکہ کسی صحافی کا نام ای سی ایل میں ڈالا جائے اور اس کی تحقیقات کراوائی جائیں۔

اداروں کی جنگ میں صحافیوں کو استعمال کرنا، یا صحافت کو اپنے گھر کی باندی سمجھنا  ہمارے حکمرانوں کا خاصہ ہے۔ یہ جانتے ہیں کہ صحافی کو استعمال کیسے کرنا ہے، مگر صحافی کے قلم کی عزت کیسے کرنی ہے یہ انہیں کبھی سمجھ نہیں آئے گا۔ میاں صاحب اپنی لڑائی خود لڑ نہیں سکتے، تھوڑا سا دباؤ ان سے برداشت نہیں ہوتا، اتنی ہمت ہے نہیں کہ آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر یہ باور کرا سکیں کہ میں ملک کا منتخب وزیر اعظم ہوں، جو میں کہوں وہی ہو گا، باالآخر میڈیا کا سہارا لیتے ہیں۔ خبر تو چھپوا دی تھی کم ازکم اس پر قائم تو رہتے۔ آپ سے بہادر تو وہ صحافی اور اس کا ادارہ ہیں جو کم ازکم اپنی خبر پر قائم ہیں۔ ڈر کر تردید تونہیں کر رہے۔ اب چاہے آپ غدار کہیں یا دلدار، سچ لکھنا صحافی کا حق ہے اور یہ حق آپ اس نے نہیں چھین سکتے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments