اولاد کی محبت آگے سفر کرتی ہے


جنوری 2011 میں شادی شدہ ہونے کا اعزاز حاصل ہوا۔ اور دسمبر 2011 میں ایک درجہ مزید ترقی پا کر باپ بننے کا شرف بھی حاصل ہو گیا۔ ویسے تو اس سلسلےکی باقی تیاریوں کے ساتھ ساتھ خود میں ایک باپ کے امڈتے جاذبات بھی محسوس ہوا کرتے تھے لیکن ان کا حقیقی احساس اپنی بیٹی کو ہاتھوں میں اٹھا کر اور پیار کر کے ہی ہوا۔ اب ماشا اللہ سے تین بچیوں کا باپ ہوں اور وقت کیساتھ بہت سی تبدیلی بھی اپنے آپ میں رونما ہوتی محسوس ہوئی ہے۔

لاشعوری طور پہ نہ جانے کیوں باپ ہونے کے ناطے اپنے رویے کو میں اپنے والد کے ساتھ موازنہ کرتا پایا جاتا ہوں۔ کہ ہمارے والد کا رویہ ہمارے ساتھ کیسا تھا اور اب مجھے اپنی بیٹیوں سے کیسا برتاؤ رکھنا چاہیے۔

میرے لیے تو میرے ابوجی ایک آئیڈیل باپ ہی رہے ہیں۔ بچپن میں امی دوسری ماؤں کی طرح ڈرایا ہی کرتی تھیں کہ آ لینے دو ابو کو انھیں سب بتاؤں گی۔ جس کی وجہ سے سہم جانا ایک قدرتی بات تھی۔ ابو کا ہمیشہ سے رعب ضرور رہا ہے لیکن ایسا بھی نہیں ہوا کہ گھر میں ان کی موجودگی کی وجہ سے ایک خوف کا احساس طاری رہا ہو۔ ایک نادیدہ سی بے تکلفی بھی ہوا کرتی تھی۔ لیکن جو سب سے اہم بات سیکھی اور اب تک کوشش ہوتی ہے کہ اسے زندگی کی روٹین میں شامل رکھا جائے وہ ہے اپنی روزمرہ کی مصروفیت کے باوجود بچوں کو توجہ دینا۔

ہمارے گھر میں ہمیشہ سے اصول رہا ہے کہ رات کا کھانا سب نے اکٹھے ایک میز پہ کھانا ہے۔ چاہے کسی کی کیسی بھی مصروفیت ہو کھانا اپنے مقررہ وقت پہ اور ہمیشہ سب کے ساتھ کھانا۔ ابوجی کا کہنا تھا کہ یہی وقت ہوتا جب سبھی گھر پہ موجود ہوتے تو اس طرح انھیں سب سے مل کے بیٹھنے کا موقع ملتا ہے۔ پھر ہم بہن بھائی سے کچھ نہ کچھ پوچھنا اور بتانا۔ اسی طرح مختلف سرگرمیوں کی طرف متوجہ کرنا۔ مجھے یاد ہے کہ جمعرات کو نیلام گھر لگا کرتا تھا۔ ویک اینڈ کی وجہ سے ابو بھی ٹی وی کو ٹائیم دیا کرتے تھے تو اس پروگرام میں ہماری دلچسپی برقرار رکھنے کیلیے ابوجی نے یہ طریقہ اختیار کیا کہ جو بچہ بھی پروگرام میں پوچھے گئے سوالات کا جواب دے گا اسے ایک روپیہ انعام دیا جائے گا۔

اس دلچسپی کی وجہ سے اپنی معلومات کو بڑھانے اور پھر مطالعہ کا شوق پیدا ہوتا چلا گیا۔ اب وقت کیساتھ والدین کا اولاد کیساتھ برتاؤ اور رویہ بھی بدل رہا ہے۔ اولاد کیساتھ نسبتا زیادہ بے تکلفی ہے۔ پہلے جو ایک حد فاصل ہوا کرتی تھی اب اس میں کمی آ رہی ہے۔ میں خود کو اپنی بچیوں کیساتھ ایک باپ ہوتے ہوئے بھی کچھ بے تکلف ہونے کو پسند کرتا ہوں۔ اتنا کہ اگر انھیں کوئی مسئلہ درپیسش ہو یا کوئی بات بتانی ہو تو اس وجہ سے نہ ججھکیں کہ بابا کہیں ناراض نہ ہوں۔

یہ اسی وجہ سے ہے کہ میں نے ابوجی کو بھی ایک باپ کی حیثیت کیساتھ ایک ایسے تعلق دار کو پایا جس کیساتھ اپنا سب کچھ شئیر کیا جا سکے۔ ماں باپ اور اولاد کے درمیان کم سے کم اتنی ذہنی ہم آہنگی ہو تو آگے بھی سفر کرتی رہتی ہے ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).