شہزادی کا لباس اور مولانا کی دستار


کچھ ذکر شاہی جوڑے کا کرتے ہیں کہ ٹھہرے موسم میں یہ تازہ ہوا کی خبر ہے۔ ہارون رشید صاحب نے کمال کا ٹوئیٹ کیا (اگر انہوں نے ہی کیا) کہ جو لوگ شہزادی کے لباس میں پاکستانی جھلک دیکھ رہے ہیں وہ ذہنی غلام ہیں۔ حیران ہوں کہ وہ اس بنیادی حقیقت کو ہی نہیں جانتے کہ شاہی خاندان کے کسی بھی دورے سے قبل ان کا سٹاف طے کر چکا ہوتا ہے کہ ملکہ یا شہزادی نے کون سا لباس کس وقت اور کس موقع پر زیب تن کرنا ہے۔ شہزادی کی پسند یقیناً شامل ہوتی ہے مگر اس نے سٹاف کے تجویز کردہ ملبوسات سے ہی کچھ چننا ہوتا ہے۔ یہ اتفاق نہیں ہوتا کہ چلو آج یہ پہن لیں یا فلاں جوڑا استری کرتے جل گیا تو وہ پہن لیں۔ یقیناً شہزادی کے لباس میں پاکستانی جھلک تھی اور یہی اس کے سٹاف کا کام ہے۔ اس کی تعریف کرنا ایسے ہی ہے جس طرح آپ کسی شاعر کے شعر کی تعریف کرتے ہیں۔ اگر یہ بھی غلامی ہے تو خود شاہی خاندان، انگریزوں کے لئے غلامی کیوں نہیں، کیوں انہیں جرمن خون کی علامتی بادشاہت کی ضرورت ہے۔ یہ مضبوط روایات رکھنے والی قوموں کی باتیں ہیں ہم اپنی گرتی شلوار کا ازار بند ہی سنبھال لیں تو بہت ہے۔ حیران ہوں کہ جس بات پر ہمیں شہزادی اور اس کے سٹاف کا شکریہ ادا کرنا چائیے کہ اس نے ہمارے لباس کو لیڈی ڈیانا کی طرح عزت دی ہمیں اس پر بھی اعتراض ہو گیا۔

جس نسل سے میرا تعلق ہے، اس کی شہزادی لیڈی ڈیانا تھی اور شاید ہمیشہ وہ ہی رہے کہ شہزادوں، شہزادوں کی دنیا کو دل میں بسانے کی ایک عمر ہوتی ہے جس کے گزرنے کے بعد رومانوی خواب دکھائی دینا بند ہو جاتے ہیں، ہمارے خیال میں تو لیڈی ڈیانا سے بہتر شہزادی نے کبھی آنا ہی نہ تھا، سوچتا تھا کہ آج کے نوجوانوں کس طرح بتایا جائے کہ لیڈی ڈیانا کا جادو کیا تھا۔ مگر اس دورے نے یہ الجھن بھی ختم کر دی، ہر نسل کے ہیرو اپنے ہوتے ہیں اور آج کی نسل کی شہزادی کیٹ نے بتا دیا کہ دلوں پر حکمرانی پر بھی مستقل نہیں ہوتی، لیڈی ڈیانا کی جگہ تو کوئی نہیں لے سکتا مگر نئی شہزادی بھی کم نہیں البتہ سفر ابھی باقی ہے۔

آئیے مولانا فضل الرحمان کی جانب کہ جن سے گفتگو کا موقع سافما نے فراہم کیا۔ تجزیہ آپ پر چھوڑتے ہوئےصرف رپورٹ کرتا ہوں، میں نے چند سوال کیے کہ مولانا آپ جانتے ہیں، ادارے کی یاد داشت کیا ہوتی ہے، جو پوزیشن آج کے حالات میں آپ لے چکے ہیں، فرض کریں کہ آپ کا دھرنا کامیاب نہیں ہوتا اس صورت میں آپ کےساتھ کیا سلوک ہو سکتا ہے؟ دوسرا یہ کہ آپ وزیر اعظم کا استعفیٰ چاہتے ہیں یا ایک ہی وقت میں فوج سے بھی کچھ افراد کی فراغت کی خواہش ہے؟ اور سب سے اہم یہ کہ کیا آپ سمجھتے ہیں کہ پاکستان میں وقت آگیا ہے کہ اب آخر کار عوام حکمران طبقے سے اپنا حق حکمرانی چھین لیں گے؟

مولانا کا جواب تھا کہ ابھی پاکستان میں وہ وقت نہیں آیا کہ عوام اپنا حق حکمرانی چھین سکیں۔ تحریک اور نظریہ اپنا مقصد فوراً حاصل نہیں کرتے، اس میں وقت لگتا ہے، ہم اگر اپنی زندگی میں یہ مقصد حاصل نہ بھی کر پائے تو آنے والی نسلوں کو ایک نظریہ تو دے کر جائیں گے۔ دوسرا یہ کہ ہم تشدد کے خلاف ہیں، ہم نے تو طالبان سے جنگ میں پاک فوج کی مدد کی ہے۔ جہاں ایک ہزار خودکش بمبار روزانہ کہ بنیاد پر بھرتی ہوتے تھے ہماری کوششوں سے وہ تعداد سو، پھر پچاس اور آخر میں دس پر رہ گئی جس کی وجہ سے طالبان نے پاک فوج سے زیادہ ہمیں اپنا دشمن جانا اور ہماری پارٹی قیادت پر خود کش حملے شروع کر دیے۔ خود مجھ پر تین خود کش حملے ہوئے۔ پھر لال مسجد کے اپریشن پر بھی ہم نے فوج کا ساتھ دیا جس کی وجہ سے مولانا عزیز آج تک مجھ سے بات کرنے کا روادار نہیں کہ اس وقت آپ لندن چلے گئے تھے۔ مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ ہم پاکستان کے آئین پر یقین رکھتے ہیں اور اسی کی روشنی میں عوام کے جائز حقوق مانگتے ہیں۔ اس کا مطلب ہر گز یہ نہیں کہ ہم فوج کے ادارے کے ہی خلاف ہیں۔ ایک دوست کا سوال تھا کہ جو ویڈیوز جاری ہوئیں، ان میں جو ڈنڈے پکڑے گئے، آپ نے گارڈ آف آنر لیا، وغیرہ یہ سب کیا تھا۔ مولانا کا جواب تھا کہ ہم نے متعدد ملین مارچ کئے ہیں، پچاس لاکھ افراد کے اجتماع منعقد کئے ہیں ان تمام میں ہمارے یہ جانباز سیکیورٹی کے فرائض انجام دیتے ہیں، یہ ہماری پارٹی کے جانباز ہیں جو داخلی راستوں پر تعینات ہوتے ہیں مگر یاد رکھیں کہ ہمارے جانباز خود مقامی انتظامیہ کے ساتھ مل کر کام کرتے ہیں، جہاں تک گارڈ آف آنر کا معاملہ ہے تو یہ بھی ہماری پارٹی کی روٹین ہے، اس سے قبل کراچی کے اجتماع میں بھی وہاں کی قیادت کو گارڈ آف آنر دیا گیا، فرق صرف یہ تھا کہ اس مرتبہ میں گیا تھا تو مجھے مل گیا۔

ایک سوال ہوا کہ آپ نے کتنے دن کا دھرنا دینا ہے، ان کا جواب تھا کہ آپ وہ 126 دن والی بات کو بھول جائیں، اتنا لمبا دھرنا، کارکنوں کو بھی اکتاہٹ کا شکار کرتا ہے اور شہری زندگی بھی اجیرن ہو تی ہے، دوسرا یہ کہ اپوزیشن کی دیگر پارٹیوں کے کارکنان ابھی ہماری طرح تیار بھی نہیں اس لئے ہم جائیں گے، اگلے لائحہ عمل کا اعلان کریں گے، احتجاج ہو گا، مطالبات رکھے جائیں گے اور پھر بات اگلے مظاہرے کی تیاری کی ہو گی۔ برادر بزرگ افتخار احمد نے مولانا کو ان کی ایک ویڈیو دکھائی جس میں وہ جنرل حضرات کی بنگال کی شکست کا ذکر کرتے ہیں۔ مولانا کا جواب تھا کہ انہیں در اصل ایک ریٹائیرڈ جنرل صاحب پر اعتراض تھا جنہوں نے بقول ان کے، یہ کہا کہ مولانا بھارتی ایجنٹ ہیں اس وجہ سے وہ آر ایس ایس کی طرز پر جنگجو تیار کرتے ہیں، جبکہ وہ جنرل صاحب بخوبی واقف تھے کہ ایسا کچھ نہیں، اب اگر ریٹائرمنٹ کے بعد کوئی جنرل سیاسی جھوٹ کا سہارا لے تو اس کا جواب تو دینا بنتا ہے۔

تمام گفتگو کا لب لباب یہ تھا کہ ہم کوئی انقلاب نہیں لا رہے اس میں وقت لگتا ہے۔ ہم فوج کے ساتھ تھے اور ہیں، جمہوری حقوق کی جدو جہد جاری رہے گی۔

ایک دوست کا سوال تھا کہ آپ کس طرح سمجھتے ہیں کہ اسلامی روایات کو خطرہ لاحق ہو گیا، اس پر ان کا جواب تھا کہ آپ لوگ لاہور میں رہتے ہیں اور آپ کے نزدیک جو باتیں اہم نہیں ہوتیں، ملک کے دیگر لوگوں کے لئے وہ زندگی موت کا مسلہ ہوتی ہیں، مثلاً آسیہ بی بی کو رہا کر دیا گیا، دوسرے ملک پہنچا دیا گیا۔ یہ ہمارے لئے بہت نازک اور حساس معاملہ تھا۔ آپ اس کو کسی اور طرح دیکھتے ہیں لیکن میں اپنے ووٹر کی نمائندگی کرتا ہوں۔ آپ کے نزدیک خواتین کو سیاسی اجتماع میں شرکت کرنا چائیے مگر ہمارا ووٹر اس کو اچھا نہیں سمجھتا، اس لئے ہمیں اس کو تسلیم کر کے آگے بڑھنا ہے۔

رپورٹ کرنے کے بعد اپنا تاثر بیان کروں تو سچی بات ہے کہ مولانا کسی کو بھی حیران کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ وہ کس وقت اپنی کس بات کا مطلب کیا بیان کر دیں یہ کوئی نہیں جانتا۔ ایک طرف رخ کریں تو مولانا کارل مارکس کے انقلاب کا واحد جانشین دکھائی پڑتے ہیں دوسری جانب دیکھیں تو وہ گاندھی کے عدم تشدد کا علم تھامے دکھائی دیتے ہیں۔ ان کے دل میں کیا ہے؟ وہ اسلام آباد جا کر کیا کر دیں یا کیا کہہ دیں، کوئی نہیں جانتا، سیاسی مخالف بھی نہیں، ان کے ساتھی بھی نہیں کہ وہ جوابی بیانیہ تیار سکیں یا انتظامی کارروائی مرتب کریں اور اسی کو سیاست کہتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).