تاریکی گہری ہے مگر لاڑکانہ اندھا نہیں


کچھ نہ بھی ہو تو پاکستان پیپلزپارٹی کی داستان لپیٹ کر کہا جاتا ہے کہ اب پارٹی ختم ہو چکی ہے تو لاڑکانہ پی ایس 11 کے ضمنی انتخابات کے نتائج کے بعد تو اس بات کو شدومد سے کہنے کی وجہ بھی مل گئی ۔۔ سو زیب داستان یہ ہے کہ پاکستان پیپلزپارٹی اپنےگھر سے ہار گئی اور ہامری سیاسی تاریخ یہ باب بند ہو گیا۔

مگر کیا واقعی ایسا ہے!!

پاکستان پیپلزپارٹی کی قیادت کا آبائی حلقہ این اے 200 ہے، جس میں پی ایس 11 اور پی ایس 12 کے علاقے بھی آتے ہیں تاہم ہرحلقہ انتخاب کی اپنی سیاست ہوتی ہے، پی ایس 11 پر پاکستان پیپلزپارٹی کوئی پہلی بار نہیں ہاری ہے بلکہ یہ پاکستان پیپلزپارٹی کو اس حلقہ انتخاب میں تیسری شکست ہے، روایتی طور پر یہ نثار احمد کھوڑو کا انتخابی حلقہ رہا ہے۔

شہید بے نظیر بھٹو کے دور 1993 میں پی ایس 11 کے انتخابی حلقے کو پاکستان پیپلزپارٹی نے ہارا تھا، اس وقت شہید میر مرتضیٰ بھٹو نے یہ سیٹ جیتی تھی۔ 2018 کے انتخابات میں پاکستان پیپلزپارٹی یہ نشست ہار چکی تھی اور اب ضمنی انتخابات میں اپنی ہاری ہوئی نشست کو واپس لینے کی کوشش کر رہی تھی۔ لاڑکانہ شہر کے اس حلقہ انتخاب میں پاکستان پیپلزپارٹی کو ہمیشہ سخت مقابلے کا سامنا کرنا پڑا ہے اور ایسا نہیں ہے کہ یہاں سے پاکستان پیپلزپارٹی کو ہروا دینا کوئی خاص بات نہیں، کہیں سے بھی کسی سیاسی جماعت کا ہارنا خاص اہمیت کا حامل ہوتا ہے تاہم پی ایس 11 کی نام نہاد شکست کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ بس داستان ختم ہو گئی، اگر ایسا ہوتا تو 1993 اور 2018 میں بھی یہی سب ہوا تھا۔

میں پی ایس 11 میں ہونے والی انتخابی صورت حال کا لمحہ بہ لمحہ شاہد اور ایک فریق کے کردار کا حامل رہا، کارنر میٹنگز سے جلسے، ریلیاں اور احتجاج میں شریک رہا، پولنگ ڈے سے ووٹوں کی گنتی تک کے معاملے کو اپنی آنکھوں سے دیکھا، پولنگ ڈے کی صورت حال کو دیکھنے کے بعد لاڑکانہ میں کوئی غیر جانب دار فرد پاکستان پیپلزپارٹی کی شکست کا تصور تک نہیں کر سکتا تھا مگر پھر بھی طے شدہ نتائج کے مطابق پاکستان پیپلزپارٹی کو ہروا دیا گیا۔

لاڑکانہ میں جمعیت علمائے اسلام اور پی ٹی آئی مل کر پاکستان پیپلزپارٹی کے خلاف الیکشن لڑ رہے تھے۔ الیکشن کمیشن اور اسٹبلشمنٹ کا ان دونوں جماعتوں کو اس حد تک تعاون تھا کہ پی پی خواتین ووٹرز کو ہراساں کر کے انہیں جی ڈی اے امیدوار کو ووٹ ڈالنے پر مجبور کی اجاتا رہا، جس کا ویڈیو ثبوت موجود ہے اور الیکشن کمیشن کو بھی بروقت بتایا گیا۔ ایسے واقعات دیکھنے کو ملے کہ پریذائیڈنگ آفیسر نے پی پی کی ایک خاتون پولنگ ایجنٹ کو یہ کہہ کر پولنگ اسٹیشن سے نکال دیا کہ آپ نے صرف انٹرمیڈیٹ تک پڑھائی کی ہے۔ پاکستان پیپلزپارٹی کو پولنگ کا وقت ختم ہوجانے کے بعد سات بج کر 35 منٹ تک 69 پولنگ اسٹیشنز کے فارم 45 موصول ہوئے، جن میں پیپلزپارٹی کی برتری واضح تھی، اس کے بعد کوئی نتیجہ نہیں دیا گیا اور تین گھنٹے بعد اچانک بتایا گیا کہ پیپلزپارٹی کا امیدوار ہار چکا ہے۔

سیکیورٹی اہل کاروں نے جی ڈی اے کے امیدوار سے سوال تک نہیں کیا کہ وہ کیوں شکارپور کے ڈاکو اور دس دس مرڈرز کی ایف آئی آر میں نامزد افراد کو ساتھ لے کر اسلحہ لہراتے گھوم رہا ہے مگر پی ایس 11 میں پی پی امیدوار کو محض اس بنیاد پر سیکیورٹی اہلکاروں نے روک دیا کہ اس نے گلے میں پارٹی پرچم کے رنگ کا رومال کیوں بندھا ہوا ہے، اس صورت حال میں ضمنی انتخابات ہوئے اورجیتتے جیتتے پی پی پی کو ہروا دیا گیا۔

سیٹ بیک اسے کہتے ہیں کہ پاکستان پیپلزپارٹی نے گھوٹکی کے ضمنی انتخابات میں حکمران جماعت پی ٹی آئی کو شکست دے کر قومی اسمبلی کی سیٹ پی ٹی آئی سے چھینی تھی مگر اس ایشو پر میڈیا پر کوئی پروگرام نہیں ہوا اور اب سب بالشتیے دو دن سے پی پی کے خاتمے کا ڈھنڈورا پیٹ رہے ہیں۔ پی پی پی نے پی ایس 11 کے مسلط کئے گئے نتائج کے مطابق بھی اپنے ووٹوں میں اضافہ کیا ہے، حریف امیدوار کی 11 ہزار کی برتری کو چھ ہزار تک محدود کیا ہے۔ اس ضمنی انتخاب میں بہت کم مارجن سے جیت ہار کا فیصلہ ہونا تھا اور اسٹبلشمنٹ نے اسی بات سے فائدہ اٹھایا کہ کم مارجن کی صورت میں دھاندلی بہت آسان ہوتی ہے۔

پاکستان پیپلزپارٹی نے پی ایس 11 کے ضمنی انتخابات کے لئے لاڑکانہ والوں کے شدید مطالبے پر ایک ایسے فرد کو ٹکٹ دیا، جو صرف ایک کارکن تھا، کسی لینڈ کروزر والے کو ٹکٹ نہیں دیا گیا، 1978 میں 16 برس کی عمر میں پاکستان پیپلزپارٹی کے اسٹوڈنٹ ونگ پی ایس ایف کو جوائن کرنے والے جمیل سومرو اپنے زمانہ طالب علمی میں اس وقت گرفتار ہوئے جب وہ ذوالفقار علی بھٹو شہید کی ناجائز سزا کو مسترد کرتے ہوئے جج مولوی مشتاق کے خلاف جلوس نکال رہے تھے، جنرل ضیا کے خلاف ایم آرڈی میں فعال کردارادا کرنے والے جمیل سومرو ایک بنیادی سیاسی کارکن ہیں، وہ 22 برس سے بلاول ہاؤس میں مختلف عہدوں پر اپنی ذمہ داریاں ادا کرتے رہے ہیں۔

سن دو ہزار میں شہید بینظیر بھٹو نے جمیل سومرو کو پاکستان پیپلزپارٹی کی فیڈرل کونسل کا رکن بنایا اور اس کے دو سال بعد انہیں پارٹی ٹکٹ بھی دیا، 2004 میں شہید بینظیر بھٹو نے انہیں ہدایت کی کہ وہ آصف علی زرداری کے ساتھ رہیں، منور سہروردی کی شہادت کے بعد جمیل سومرو کو بلاول ہاؤس میڈیا سیل کا انچارج بنا دیا گیا جبکہ 2010 میں وہ سندھ حکومت میں مشیراطلاعات بھی رہے، پاکستان پیپلزپارٹی کی سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کے ممبر جمیل سومرو تین سال سے پی پی چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کے سیاسی مشیر کے فرائض سرانجام دے رہے ہیں۔

جب الیکشن ہوتے ہیں تو ایک پولنگ ڈے پلان بنتا ہے اور لاڑکانہ کے ضمنی انتخابات میں سلیکٹرز نے یہ پلان بنایا کہ جی ڈی اے امیدوار معظم عباسی کی یوسی ون اور ٹو میں جہاں برادری کی وجہ سے کافی حمایت ہے، وہاں ووٹنگ کی شرح میں اضافہ ہو اور حلقے کی دیگر تیرہ یوسیز میں پولنگ پراسس کو مختلف بہانوں سے سست کر دیا جائے جبکہ بالخصوص لاڑکانہ کی خواتین جن میں پی پی پی کی خاصی حمایت ہے، ان کے پولنگ اسٹینشنز پر رخنے ڈالے جائیں چنانچہ اس پولنگ ڈے پلان پر ہوبہو عمل ہوا اور یہ مجھےتسلیم ہے کہ یہ پاکستان پیپلزپارٹی کی ناکامی ہے کہ وہ باوجود بھرپور مزاحمت کے ان چالبازیوں کو مکمل طریقے سے کاؤنٹر نہیں کر سکی۔

اسٹبلشمنٹ کی جانب سے لاڑکانہ میں پی پی پی کی شکست کو آرگنائز کرنے کے بعد اب پوری توجہ اس بات پر ہے کہ پارٹی اختلافات کو اس کا ذمہ دار ٹھہرا کر پارٹی کی عدم مقبولیت کو بہانہ بنایا جائے جبکہ لاڑکانہ شہر کی تباہی کے تراشے ہوئے قصے سنا کرعوامی غم و غصے کو اس دھاندلی زدہ شکست کی وجہ بتایا جاتے مگر یہ شاید درست بیانیہ نہیں ہے، لاڑکانہ میں پی پی پی ہاری نہیں ہے بلکہ اسے منظم طریقے سے ہرایا گیا ہے۔

لاڑکانہ میں جی ڈی اے امیدوار معظم عباسی کو اپنے اثاثے چھپانے کے جرم میں الیکشن کمیشن نے ڈی سیٹ کیا تھا۔ پی ٹی آئی اور جے یو آئی کی حمایت سے آج پھر اسی امیدوار کو زبردستی جتوا دیا گیا ہے، اثاثے برآمد کر کے چوروں کو کیفرکردار تک پہچانے کے دعوے کرنے والے آج ایک اثاثے چھپانے کے مجرم کی نام نہاد فتح کا جشن منارہے ہیں، یہ کافی افسوس ناک صورت حال ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی نتائج کو چیلنج کرنے جا رہی ہے، انتخابی عمل کے شفاف ہوئے بغیر عوام کی حکمرانی کا خواب پورا نہیں ہو سکتا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).