جاہلوں کی دعا… خدا بیٹی کے نصیب اچھے کرے


بچوں کی شادی کیسے اور کیونکر؟ طے کرتے ہوئے کیا دیکھا جائے؟ کیا نظر انداز کیا جائے؟

ہم اور ہمارے دوست اس عمر میں ہیں کہ بچوں کی تعلیم کے مرحلے ختم ہو چکے یا ہونے کو ہیں اور اب رفیق سفر کے انتخاب کا مرحلہ ہے۔ کچھ دوست اس مقام سے گزر چکے، کچھ ابھی سوچ وبچار کی کیفیت میں ہیں۔ سو ہوتا کچھ یوں ہے کہ جب بھی مل بیٹھتے ہیں یہی ایک موضوع زیر گفتگو ہوتا ہے۔ ایسی ہی ایک محفل میں گرما گرم بحث تھی کہ شریک حیات کیسا ہو؟

اگر داماد چاہیے تو لڑکا سمارٹ اور ہینڈسم ہو، خوش شکل ہو، خاندان اچھا اور مختصر ہو، تعلیم یافتہ ہو، زات پات مناسب ہواور پھر ایک آواز آئی

“ارے دفع کرو ان سب باتوں کو، بس کماتا اچھا ہو, کافی ہے”

اور اگر بہو چاہئے تولڑکی حسین ہو، کم عمر ہو، تعلیم یافتہ ہو، سارے گن جانتی ہو ، پڑھے لکھے ماں باپ ہوں، روپے پیسے والے ہوں، لمبا چوڑا خاندان نہ ہو۔پھر کسی نے لقمہ دیا

“ دیکھ لینا زبان کی لمبی نہ ہو، تمہیں برداشت نہیں کرے گی”

ہم ایک گوشے میں دبکے یہ سب سنتے رہے اور اپنے آپ سے پوچھا کیے،

اس سارے قصے میں کیا کہیں ذہنی مطابقت کا بھی کوئی ذکر ہے؟

بچے کیسا جیون ساتھی چاہتے ہیں اس بارے میں کوئی غور وفکر؟

بچوں کی زندگی گزارنے کی کیا خواہشات ہیں کوئی سوچ اس بارے میں؟

اپنے بچوں کی شخصیت کا کوئی دھیان اور زندگی ساتھ میں بتانے والے ساتھی کی طبعیت کی ہم آہنگی؟

ہمارے معاشرے میں مشکل یہ ہے کہ لوگ باگ آج کے دور میں بھی ذہن اور اس کی احتیاجات کو اہمیت دینے کے لئے تیار نہیں۔ زیادہ تر نگاہیں چندھیا دینے والی چکا چوند پہ مر مٹتے ہیں۔ ہر دو افراد کی ظاہری خصوصیات پہ نظر رکھے ہوئے جانچ پڑتال کی جا رہی ہوتی ہے اور وہ خزانہ جو ذات کے نہاں خانوں میں پوشیدہ رہتا ہے، کے متعلق کوئی سوچنا پسند ہی نہیں فرماتا۔

 بیشتر دوست آج بھی اس بات پہ یقین رکھتے ہیں کہ اگر دو اجنبی افراد کو زندگی گزارنے کے لئے جوڑ دیا جائے تو گزر ہی جائے گی، بھلے کیسی بھی گزرے۔ اس زنگ آلود زندگی کا مفہوم سمجھنے سے ہم قاصر ہیں۔

پہلے یہ سمجھ لیجیے کہ کسی بھی جوڑے میں کوئی بھی سو فیصد برا نہیں ہوتا۔ کوئی ایک شیطان نہیں اور دوسرا فرشتہ نہیں ہوتا۔ بات صرف اتنی سی ہے کہ وہ دونوں ایک دوسرے کے لئے نہیں بنے ہوتے، ان کا آسمان ایک نہیں ہوتا۔

 شادی کے رشتے میں ظالم اور مظلوم ٹھہرنے اور ٹھہرانے کی جو بحث ہے وہ لایعنی ٹھہرتی ہے، اگر یہ تسلیم کر لیا جائے کہ ہمارے معاشرے میں شادی طے کرنے کا نظام انتہائی فرسودہ ہے۔اس بوسیدہ نظام پہ ہندو معاشرے کی شدید چھاپ بھی پائ جاتی ہے، جہاں دنیاوی لین دین کے بعد دو جسموں کو سات پھیروں میں باندھا جاتا تھا اور جدا ہونے کا کوئی تصور موجود نہیں تھا۔ معاشرے میں اسلام کی آمد کے ساتھ پھیرے نکاح میں بدل گئے لیکن شریک حیات کے انتخاب کا طریقہ کار اور ترجیحات وہی رہیں۔

عقل یہ کہتی ہے، دو اجنبی اور مختلف گھرانوں کے پروردہ لوگ تبھی زندگی کا سفر اکھٹے گزار سکتے ہیں جب وہ ایک جیسے خواب دیکھ سکیں، جب آسمانوں کی وسعتوں میں پرواز کی خواہش ایک جیسی ہو، جب دنیا فتح کرنا دونوں کا نصب العین ہو، جب آرزوؤں کی تتلیاں دونوں طرف دل وحشی کو بد مست کرتی ہوں، جب دل باتیں کریں اور ان کہی سمجھی جاے، جب دونوں طرف ساز پہ ایک ہی سر اور ایک ہی تال بجے۔

جان لیجیے اگر ایسا ہو جاۓ تو کس کی صورت و شکل کیسی ہے؟ کس کے پاس دولت کتنی ہے؟ کس کا خاندان کیا ہے؟ کس کے پاس کیا رتبہ ہے؟ سب بے معنی ہو جاتا ہے۔ زندگی کے طویل ، صبر آزما اور کھٹنائیوں سے بھرے سفر میں کون اعلی ہے اور کون ادنی، اس کا خیال کس کو رہتا ہے۔

شادی بچانے اور قائم رکھنے کے لئے روٹی کس نے سینکنی ہے اور زبان کس نے بند رکھنی ہے کا موقع ہی نہیں آپاتا۔ کس نے کس کی خدمت کرنی ہے؟ اور گھر میں آقا کون ہے؟ سب پیچھے رہ جاتا ہے۔ گھر میں مرد بالا دست ہونا چاہئے یا عورت؟ کی احمقانہ بحث دیوانے کی بڑ لگتی ہے۔

ذہنی مطابقت اور ایک دوجے کی عزت اور احساس وہ پھول کھلاتا ہے جو دنیا کے کسی عہدے، دولت، شہرت اور زباں بندی سے نہیں خریدے جا سکتے۔ ایک دوسرے کو جاننے، سمجھنے اور عزت کا عمل گھر کے آنگن میں وہ پھول کھلاتا ہے جن کی خوشبو چاروانگ پھیلتی ہے۔ ماں باپ کی ایک دوجے سے محبت دنیا کو جینیس لوگوں کا تحفہ دیا کرتی ہے، اعتماد سے عاری بونے نہیں۔

ناخوشی ایک ایسا زہر ہے جو ہولے ہولے رگوں میں سرایت کرتا ہے اور جب جان لب دم آ پہنچے تب آنکھ کھلتی ہے اور سرمایہ زندگی کے زیاں کا احساس جاگتا ہے۔

اگر آپ کو ہماری باتیں بھا جائیں اور آپ دنیا کو متاثر کرنے اور سود وزیاں کے اندیشوں سے آزاد ہو سکیں تو خدارا بچوں کو اپنی روحوں کے ساتھی منتخب کرنے میں مدد دیجیے، جسموں کے نہیں۔ یقین جانیے اپنے بچوں کی خوشگوار، کھلکھلاتی زندگی آپ کی زندگی بھی گل وگلزار بنا دے گی


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).