نفرت کے بیج بونا بس کردیجئے


خوبصورت معصوم بچے دھلے چہرے، سنورے بال، اجلے لباس اور امید بھری آنکھیں لئے باری باری سکرین پر نمودار ہوتے ہیں اور اپنے اپنے ڈائیلاگ بولتے ہیں۔ انڈین آرمی کو ہم گلیاں صاف کرنے پر لگا دیں گے اور میں ابو سے کہوں گی کہ گووا کے ساحل پر ایک بڑا سا گھر لے لیں۔ مجھے ہندی زبان لکھنی نہیں آتی، اب صرف اردو چلے گی ہاں۔ کتنا مزہ آئے گا جب ہم دلی گیٹ پر گائے کے کباب کھائیں گے۔ تاج محل پر جشن تکمیل پاکستان منائیں گے۔ فتح کے بعد دوہزا ر بیس میں میں شملہ جاؤں گی۔ ہم جب آئیں گے ناں تو پورے ملک (بھارت)میں باتھ روم بنا کر دیں گے۔

سن لو آر ایس ایس کے دہشت گردو، اب ہر مسلمان کی شہادت کا بدلہ لیں گے، کیونکہ اب ہند بنے گا پاکستان۔ اللہ اکبر، اللہ اکبر اگر آپ ان الفاظ کو کسی دیوانے کی بڑ سمجھ رہے ہیں، کسی مزاحیہ ڈرامے کے ڈائیلاگ سمجھ رہے ہیں یا اسی کی دہائی کے کسی مجاہد کا خواب تو آ پ شدید غلط فہمی کا شکار ہیں۔ یہ الفاظ اس سکرپٹ کے ہیں جو جمیعت طلبہ اسلام کراچی نے جاری کیا ہے۔پینتیس سیکنڈ کا یہ پرومو امیر جماعت اسلامی سراج الحق صاحب بھی ملاحظہ فرما چکے ہیں اور ظاہر ہے انہیں پسند بھی آیا کیونکہ انہوں نے کسی قسم کا اظہار ناپسندیدگی نہیں فرمایا۔

اگر کوئی پوچھے تو زیادہ سے زیادہ وہ کہیں گے بھی تو کیا؟ یہی کہ یہ جماعت اسلامی کی پالیسی نہیں ہے۔ یاد پڑتا ہے جب جمیعت کے مجاہدوں نے موجودہ وزیراعظم عمران خان کو پنجاب یونیورسٹی لاہور میں تشددکا نشانہ بنا کر جامعہ سے نکال باہر پھینکا تھا تو مرحوم قاضی حسین احمد نے بھی کچھ ایسے ہی ردعمل کا مظاہرہ کیا تھا۔ خوف آتا ہے یہ سوچ کر کہ ہم فرشتہ صفت معصوم بچوں میںکس قدر سفاکی سے نفرت کا زہر انڈیل رہے ہیں۔

یہ بچے کل کو توانائی سے بھرپور نوجوان بنیں گے، اسی معاشرے میں اسی ملک میں گھومیں پھریں گے یا کسی اور ملک میں جابسیں گے تو اس ملک کے باسیوں کو پاکستان کا چہرہ کیسا دکھائی دے گا؟نفرت پر مبنی یہ رویہ ہمیں اقوام عالم میں کہاں لاکھڑا کرے گا؟ ابھی کل ہی کی بات ہے جب وزیرخارجہ یہ فرما رہے تھے کہ فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کی واچ لسٹ سے نکلنے کے لئے پاکستان سر توڑ کوششیں کررہا ہے اور امید ہے کہ ہم آئندہ برس یہ ہد ف حاصل کر لیں گے۔ کیا ان رویوں کے ساتھ ہماری یہ کوشش کامیابی کی منزل تک پہنچ پائے گی؟

ففتھ جنریشن وار کا بہت تذکرہ ہم سنتے ہیں اورہر کوئی یہ اچھی طرح سمجھتا ہے کہ تیری بربادیوں کے مشورے ہیں آسمانوں میں۔ کیادنیا ہماری ایک ایک جنبش تک پر نظر نہیں رکھے ہوئے؟ کل ہی بھارت نے اس پرومو کے جواب میں پچپن سیکنڈ کا ایک پرومو جاری کیا ہے۔ بعینہ اس میں بھی کم سن بچوں نے ہی اداکاری کی ہے۔ اس کے سکرپٹ پر بھی ایک نظر ڈال لیجئے۔ یہ ساری دھرتی ہی ہمارا پریوار ہے۔ آج ہم منگھل اور چاند تک جا پہنچے ہیں۔ گوگل اور مائیکرو سافٹ جیسی بڑی کمپنیوں کے سی ای او انڈینز ہیں۔ ہمارے والدین کسی سے لڑنا نہیں سکھاتے اور کسی کو بڑا چھوٹا بھی نہیں بتاتے۔

دنیا کی چوتھی سب سے بڑی سینا ہماری ہے لیکن پھر بھی ہم سب کو ہاتھ جوڑ کرپرنام کرتے ہیں۔ ہمارے دیش میں بائیس سے بھی زیادہ بھاشائیں بولی جاتی ہیں اور ہمارے ہاں سبھی دھرموں کے لوگ مل کر رہتے ہیں۔ جب تمہارے ہاں پشاور میں آتنکیوں نے بچوں کو مار دیا تھا ناں اس دن میری ماں بھی روئی تھی۔ ڈئیر فرینڈز!جو لوگ تمہارے دماغ میں زہر بھر رہے ہیں ان کو بولوکہ وہ تمہاری ایجوکیشن پراور دیش کی ڈیویلپمنٹ پر دھیان دیں۔ یہ تمہارے لئے اور پوری دنیا کے لئے اچھا ہوگا۔ اور اگر کھانا کھانے کا اتنا ہی شوق ہے تو کبھی بھی آجانا ہم تمہیں چھپن بھوگ کھلائیں گے، کیونکہ ہم مہمان کو بھگوان مانتے ہیں۔

ان دونوں عبارات کا تقابل کیجئے۔لمحے بھر کو ذہن پر زور دیجئے! کوئی غیر ملکی اگر ان کا تقابلی جائزہ لے گا تو اس کے ذہن میں پاکستانی قوم کا تصورکیا بنے گا اور بھارتی قوم کا تصور کیا جمے گا۔ میں یہ بات پوری دیانتداری سے تسلیم کرتا ہوں کہ بھارت کی طرف سے جاری کئے گئے پرومو میں زیب داستاں کے لئے کچھ جھوٹ بھی بولے گئے ہیں۔ مسلمانوں سمیت وہاں دوسری اقلیتوں کی زندگی اجیرن بنادی گئی ہے۔ مقبوضہ کشمیر عملی طورپر ایک جہنم بن چکا ہے جہاں انسان زندگی گزارنے کا تصور نہیں کرسکتا۔ بھارت میں تمام مذاہب کے لوگ رہ تو رہے ہیں لیکن ہنسی خوشی نہیں بلکہ مجبوری کے عالم میں۔

بھارتیہ جنتا پارٹی اور آر ایس ایس کی انتہا پسندانہ سوچ نے پورے بھارت میں دہشت پھیلا رکھی ہے۔ ہندوتوا کی سوچ بھارت کے ماتھے پر کلنک کا ٹیکہ ہے لیکن کیا ہمیںاپنی ساری توانائی بھارت کے اس چہرے کو دنیا کے سامنے بے نقاب کرنے پر صرف کرنی چاہیے یا بھارت کے اکسانے کے پھندے میں آکر اس طرح کی حرکتیں کرکے عالمی برادری کے سامنے خود کا چہرہ بھی بھیانک بنا لینا چاہئے؟ ہمارے ہاں پنجابی، پشتو، سرائیکی،سندھی اور بلوچی جیسی علاقائی زبانوں میں ابتدائی تعلیم کا مطالبہ عرصے سے کیا جارہاہے جسے ابھی تک پورا نہیں کیا جاسکا لیکن چلے ہیں ہم ہند میں اردو نافذ کرنے۔ کراچی کا کچرا ہم سے اٹھایا نہیں جاتا اوربڑھکیں ہم مار رہے ہیںکہ بتیس لاکھ ستاسی ہزار دوسو تریسٹھ مربع کلو میٹر رقبے پر پھیلے ملک میں بیت الخلا بناکر دنیا کی چوتھی بڑی فوج سے گلیاں صاف کروائیں گے۔

تین دن پہلے ڈی ایچ اے کراچی میں ایک ریستوران کو اس لئے مہر بند کیا گیا کہ وہ کھانوں میں بلیوں اور گدھوں کا گوشت استعمال کر رہا تھا اور خواب ہم دیکھتے ہیں دلی میں گائے کے کباب کھانے کے۔صرف اس لئے کہ اس سے ہندو مذہب کے ماننے والوںکو اذیت پہنچے۔ میرے خدا!ہمیں کسی کو اذیت پہنچائے بغیر خوشی کیوں نہیں مل سکتی؟ ہمیں یہ بات نہیں بھولنی چاہئے کہ اسی بھارت کے شہر وں دلی،بمبئی، امرتسراورکیرالہ میں جب کسی نوجوان، ادھیڑ عمر یا بوڑھے کی آواز مقبوضہ کشمیر میں مظالم کے خلاف اٹھتی ہے تو وہ ہمارے کانوں میں رس گھولتی ہے اور ایساہو بھی کیوں نہ؟

دنیا کتنی بھی بھیانک کیوں نہ ہوجائے ظلم کے خلاف بولنے والی کچھ نہ کچھ زبانیں ہر معاشرے میں موجود رہتی ہیں۔ ارون دھتی رائے اس کی ایک روشن مثال ہیں۔ تو میرے پیارے پاکستانیوکہنا یہ ہے کہ آنے والا وقت علم اور ٹیکنالوجی کا ہے۔ بھلے آپ نے جنگ بھی لڑنی ہے تو یقین کیجئے اس کے لئے دس بیس یا سو پچاس ایٹم بم کسی کام کے نہیں بلکہ اس کے لئے روایتی اسلحے کے انبا ر چاہئیں، اسلحے کے انبار لگانے کے لئے ٹیکنالوجی کی دوڑ میں بہت آگے بڑھنے کی ضرورت ہے اور ٹیکنالوجی میں آگے بڑھنے کے لئے پیسے کے بڑے بڑے ڈھیر چاہئیں۔

پیسے کے ڈھیر لگانے کے لئے آپ کو مضبو ط اور مستحکم معیشت چاہئے، مضبوط، مستحکم اور بڑی معیشت علم کے بغیر ایسے ہی ناممکن ہے جیسے پانی کے بغیر مچھلی۔اگر آپ بڑی اور مستحکم معیشت کا ہدف حاصل کر لیں گے تو آپ جنگ کے بغیر ہی اپنے اہداف حاصل کر لیں گے۔ اس لئے کوشش کیجئے اپنے بچوں کی توجہ صرف اور صرف علم پر مرکوز کیجئے نہ کہ دلی میں گائے کے کباب کھانے پر، کباب گھر پر بھی کھائے جا سکتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).