مستنصر حسین تارڑ ۔۔۔ قربتِ مرگ میں محبت


\"mubashir\"قربتِ مرگ میں محبت، مستنصر حسین تارڑ صاحب کا اک تقریباً تازہ ناول ہے جو سنگِ میل پبلیکیشنز نے 2015 کو لاہور سے شائع کیا۔ چند مقامات پر کتاب بیان و اسلوب کی گھمن گھیریاں ڈالتی ہے، مگر میرے نزدیک اس کتاب کو تین سے زیادہ نشستوں میں پڑھنا، اس کی حق تلفی ہوگی۔ یہ کتاب میں نے چار نشتستوں میں ختم کی، اور افسوس ہوا کہ تین، دو، یا پھر شاید ایک نشست میں، ایک رات لگا کر یہ کتاب ختم کردیتا تو اس کتاب کے قاری ہونے کا حق ادا ہو جاتا۔ یہ کتاب، میرے علاقے ملکوال / گوندل بار کی پنجابی کی اک کہاوت کے وزن پر، باندھ باندھ کر کانوں کے نیچے مارتی ہے۔ جھنجھوڑتی ہے۔ اداس کردیتی ہے۔ کہیں کہیں تو رُلا دینے کے قریب ترین لے آتی ہے، مگر پھر تارڑ کے جادو کے مطابق، آپ کو رلانے کی قربت کی اذیت میں، کہ جس میں آپ کی پیشانی اور آنکھوں پر جذبات کا دباؤ تو ہو، مگر آنسو رواں نہ ہو سکیں، رکھتے ہوئے، آپ کو کسی اور جانب لیے جاتی ہے۔

کتاب کا تمام اگرمکمل سچ نہیں، تو مکمل سچ کے قریب تر ہی ہے۔ کتاب سے محبت کرنے والے، اور زندگی کی تمام مارا ماری کے درمیان، اپنی حساسیت و حسیات کو اپنے اندر زندہ رکھنے والے باوصف لوگ، اس کتاب کے بیان میں شاید تارڑ کی اپنی زندگی کے سچ کو بھی جان جائیں گے، اور اپنی زندگیوں کے اس سچ کو بھی جو ہر کسی کو نصیب نہیں ہوتا: محبت!

\"tarrar\"

رات کے اس پہر، مجھے یہ مضمون لکھنا ہی تھا کہ میں اس کتاب سے محبت کے حق کو ادا کرنے سے پہلے ہی قاصر ہو چکا تھا، کہ اس کو چار نشستوں میں پڑھ پایا۔ کتاب میں خاور ہے، جو مبشر بھی ہے اور شاید آپ بھی ہیں۔ اک عام سے گھرانے کا بچہ جو اپنی زندگی کے نشیب و فراز میں سے مسلسل گزرتا ہوا، کہیں تھک ہار کر اپنی زندگی اور اپنی دنیا، کہ جس کی تقریبا ہر بات اس نے مانی، اور ہر حکم کی بجاآوری کی، سے دور کہیں بھاگ جانا چاہتا ہے۔ وہ اسلام آباد کے قریب، بارہ کہو سے آگے، سملی ڈیم روڈ سے چوٹی زیریں سے ذرا آگے کی جانب، غازی گھاٹ اور دن کو بھی سیاہ نظر آنے والے کوہِ سلیمان کے دامن میں بہتے ہوئے دریائے سندھ پر ہی زندگی اور موت کو گزار دینے والے دراوڑی ملاحوں کے درمیان، اپنے اک جاگیر دار، مگر سپارٹن دوست، عباس برمانی، کی مدد سے اپنے فرار کا رستہ دریائے سندھ پر زندگی کے چند روز بسر کرنے میں تلاش کرتا ہے۔ وہ بارہ کہو، اسلام آباد، اور اس شہر میں بسر کردہ اپنی زندگی سے تو بھاگ آتا ہے۔ وجود و جسم کی زندگی سے فرار تو شاید ممکن ہوتا ہو، مگر سوچوں کی زندگی سے بھاگنا تو ممکن ہی نہیں کہ یہ یادوں کے برقی سگنلز کے سہارے آپ پر گاہے بگاہے ان حالات میں بھی بیتتی چلی جاتی ہے جہاں آپ اسکو جینا ہی نہیں چاہتے۔ خاور، یا مبشر، کے چھ ہمراہی ہیں، ماماں جعفر، سرور اور اسکی بیوی، پکھی، ان کا نومولود بچہ، عباس برمانی کا خاص آدمی، فہیم ، اور اک نہ چاہنے والا ہمراہی، اس کی یادیں ہیں، جن سے بھاگنے کے لیے وہ اسلام آباد سے سینکڑوں میل دور چلا آیا، یہ جانے بغیر کہ یہ بھی اس کے ساتھ ہی رہیں گی۔

\"tarra-1\"

اسلام آباد کی گھمن گھیریوں میں زندگی شروع کرنے والا خاور تین بیٹیوں کا باپ ہے۔ تینوں ایک دوجے کے بعد بیاہی گئی ہیں۔ اور امریکہ میں موجود ہیں۔

\”وہ اپنے بستر سے الگ ہو کر ٹیبل لیمپ آن کرکے کوئی کتاب پڑھنے لگتا تھا۔ گزری ہوئی زندگی کے ان لمحوں کی تصویریں دیکھنے لگتا تھا جب اس کی بیٹیاں اس پر انحصار کرتی تھیں، اور اس کے بدن سے لپٹ کر کبھی بھی جدا ہونے کا سوچ بھی نہیں سکتی تھیں۔ اور اب وہ ان کے لیے تقریبا معدوم ہو چکا تھا۔ (اب) ان کے بچے ان کے بدن سے لپٹ کر تصویریں اترواتے تھے اور وہ بھی کبھی جدا ہونے کا سوچ بھی نہیں سکتے تھے۔\”

طاقتور جرائم پیشہ، اقتداری سیاستدانوں، لمبے ہاتھ والے فوجیوں اور بے تحاشہ امیر کاروباریوں کے وسیع فارم ہاؤزز درمیان، سملی ڈیم کی اس سڑک پر خاور بھی اپنے لیے دس مرلے کا اک گھر بنا لیتا ہے یہ سوچتے ہوئے کہ سب کے ہی ناجائز ہیں، انکے گریں گے، تو ہی میرا بھی گرے گا۔ اسکی زندگی میں اس سے شدید محبت کرنے والی اک افسانوی خاتون، جو کسی مرزا صاحب کی بیوی ہیں، آتی ہے اور خاور کی \"mustansar_hussain_tarar_-_autograph\"زندگی کو اتھل پتھل کرنے کی کوشش کرتی ہے۔ خاور زندگی کی رو میں بہتا رہتا ہے۔ پھر عابدہ سومرو آتی ہے۔ اس کے اپنے کھلواڑ ہیں۔ وہ امریکہ جا بستی ہے۔ اور اسی طرح زندگی کی اونچائی نیچائی میں خاور کا سامنا ڈاکٹر سلطانہ سے ہوجاتا ہے، اور اپنی عمر کے ساٹھویں برس اسے اپنی زندگی میں پہلی مرتبہ محبت کا احساس ہوتا ہے۔ طاقتوروں کے فارم ہاؤزز چھوڑ کر، حکومتی اہلکار اسکا گھر گرا دیتے ہیں، وہ گھر کہ جہاں شاید وہ ڈاکٹر سلطانہ کے ساتھ زندگی بسر کرنے کا خواب دیکھنا شروع کر دیتا ہے، تو سلطانہ کی بیرون ملک موجودگی کے چند دن وہ اپنی اس بدلی ہوئی بےگھر حقیقت سے بھاگنے کےلیے \”سائیں سندھ سرکار\” کے دامن میں ڈیرہ جا ڈالتا ہے۔ وہ سلطانہ کی واپسی پر اس کو ائیرپورٹ پر وصول کرنے کی شرط پوری کرکے، اسے اپنی محبت کا یقین دلانا چاہتا ہے، مگر اپنے فرار کے دوران، سائیں سندھ سرکار کے اک بےتحاشا وسیع پھیلاؤ کے علاقے میں، سفید اندھی ڈالفن (بُلہن) کو دیکھنے کے اچھوتے تجربے کے بعد کی رات زندگی سے مونہہ موڑ لیتا ہے۔\"book-titl-1\"

کتاب بتاتی ہے کہ بظاہر بھری بھری زندگیاں گزارنے والے بھی کتنے تنہا، خالی، اداس اور محبت کے متلاشی ہوتے ہیں۔ ان کے اندر جھانکنے کی نہ تو کسی فرصت ہوتی ہے، نہ وہ کسی کے اندر جھانکنے کی عمومی فرصت حاصل کرپاتے ہیں۔ زندگی کی لکیر کا دائرہ جب اپنی شروعات کے نقطہ سے ملنے لگتا ہے تو موت آن لیتی ہے۔

\”انسان ہمیشہ سے ایک عارضی پڑاؤ رہا ہے۔ ہر انسان یہی سمجھتا ہے کہ دوسرے قصور وار ہیں۔\”

\”فہیم اپنی نادانی میں یہ سمجھتا تھا کہ ہر شخص کا ایک گھر ہوتا ہے جہاں اسے بالآخر لوٹنا ہوتا ہے۔ اور وہ یہ نہیں سمجھ سکتا تھا کہ کوئی ایک فرد ایسا بھی ہو سکتا ہے جس کے پاس لوٹنے کے لیے کوئی گھر نہیں ہوتا۔ البتہ لمحہ بہ لمحہ گھٹتی ہوئی حیات کے قبضے میں جتنے بھی روز و شب رہ گئے تھے، ان میں سلطانہ کی قربت ممکن تھی۔ وہ گھر ہو سکتی تھی۔\"tarr-2\"\”

صاحب، کب لوٹنا ہے، فہیم پوچھتا ہے۔ \”آج کہیں رات کرلیں گے فہیم۔ تو کل سویرے ہم واپس ہو جائیں گے۔\” اسی رات خاور زندگی سے روٹھ جاتا ہے۔

رات کے اس پہر میں مجھے یہ لکھنا ہی تھا، صاحبو، کہ کیسے بھرے ہوئے لوگ بھی زندگی کے اکلاپے کی یادوں اور ان کی چوٹوں سے گونجتے رہتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments