خبر کی سچائی اور حکومتی بیان میں کشمکش


\"mujahidحکومت کے پاس اس بات کا کوئی جواب نہیں ہے کہ اس نے ڈان میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ پر اس کے رپورٹر کا نام ای سی ایل میں کیوں ڈالا ہے۔ اس دوران ملک کے منہ زور وزیر داخلہ تو حسب دستور زیر زمین ہیں لیکن وزارت داخلہ کے ذرائع نے میڈیا کے نمائیندوں کو بتایا ہے کہ سیرل المیڈا کو بیرون ملک جانے سے اس لئے منع کیا گیا ہے کیوں کہ اعلیٰ سطحیٰ ملاقات میں ہونے والی باتوں کو میڈیا تک پہنچنے کی تحقیقات کے دوران، ان سے پوچھ گچھ کی ضرورت ہوگی۔ ان حکام کو یہ خبر ہونی چاہئے تھی کہ ایسی خبر سامنے لانے والا صحافی کبھی اپنے ذرائع کے بارے میں حکومت کو نہیں بتائے گا۔ اپنا بوجھ میڈیا پر ڈالنے کا کارنامہ صرف سیاستدان ہی سرانجام دے سکتے ہیں۔اس لئے حکومت کو فوری طور پر اپنی عاقبت نااندیشانہ غلطیوں میں اضافہ کرنے کی بجائے فوری طور پر المیڈا کانام ای سی ایل سے ہٹالینا چاہئے۔

اس دوران جیو ٹیلی ویژن کے ایک ٹاک شو کے میزبان نے خبر دی ہے کہ انہوں نے عسکری ذرائع سے بات کی ہے۔ اس گفتگو میں عسکری حکام کا مؤقف ہے کہ انہوں نے کسی صحافی کو نشانہ بنانے یا اخبار پر پابندی لگانے کا مطالبہ نہیں کیا بلکہ یہ استفسار کیا تھا کہ اتنے اعلیٰ سطحی اجلاس میں ہونے والی گفتگو ایک رپورٹر تک کیوں کر پہنچی۔ ملک کے فوجی حلقے ان لوگوں کی گو شمالی کروانا چاہتے تھے جو حساس معاملات پر خفیہ اجلاس میں ہونے والی باتوں کو میڈیا تک پہنچاتے ہیں۔ زیر بحث ملاقات وزیر اعظم کے زیر صدارت ہوئی تھی۔ اس میں ڈی جی آئی ایس آئی کے علاوہ وزیر اعلیٰ پنجاب، وزیر داخلہ اور چند گنے چنے اعلیٰ عہدیدار موجود تھے۔ اس ملاقات میں خارجہ پالیسی میں مشکلات کے بارے میں سیکرٹری خارجہ امور نے بریفنگ دی تھی اور مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالی تھی۔

فوج کی قیادت نے وزیر اعظم سے اگر یہ پوچھا تھا کہ ایسے اجلاس میں ایسا کون سا ’غیر ذمہ دار‘ ہو سکتا ہے جو وزیراعظم ہاؤس کی محفوظ چہار دیواری میں ہونے والی گفتگو کے بارے میں ایک رپورٹر سے سرگوشیاں کرتا ہے تومیڈیا کو قومی مفاد کے خلاف کام کرنے کا الزام دینے کی بجائے وزیر اعظم کو اپنے ان چہیتوں سے باز پرس کرنے کی ضرورت تھی، جو اس ملاقات میں موجود تھے۔ اور جنہوں نے بوجوہ انتہا پسند عناصر کے بارے میں گفتگو کو ڈان کے رپورٹر تک پہنچایا تھا۔ پر اسرار طریقے سے ایک صحافی کا نام ای سی ایل پر ڈال کر یہ توقع کرلی گئی کہ فوج اس کارروائی سے مطمئن ہو جائے گی۔ اس کی بجائے حکومت نے دنیا بھر کی صحافی اور انسانی حقوق کے لئے کام کرنے والی تنظیموں کے ہاتھوں سخت شرمندگی سمیٹی ہے۔ یعنی خفیہ اجلاس کے بارے میں بات عام لوگوں تک پہنچانے والے اخبار اور صحافی کو ہی نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ جس کی اب ہر طرف سے مذمت ہو رہی ہے۔

روزنامہ ڈان نے آج اپنے اداریے میں اس خبر کی پوری ذمہ داری قبول کی ہے اور واضح کیا ہے کہ اس خبر کی ایک سے زیادہ ذرائع سے تصدیق کرنے کے بعد اسے شائع کیا گیا تھا۔ اس بات کی ذمہ داری ان عناصر پر عائد ہوتی ہے جنہوں نے خبر اخبار تک پہنچائی اور پھر اس کی تصدیق کی ۔ اس کا مطلب ہے اس اہم اجلاس میں شریک ایک نہیں ایک سے زیادہ لوگوں نے اخبار کے رپورٹر کو ملاقات کے دوران ہونے والی گفتگو اور فیصلوں سے آگاہ کیا تھا۔ ایسے اہم اجلاس میں شریک لوگوں کی تعداد انگلیوں پر گنی جا سکتی ہے اور وزیر اعظم یا ان کے قریبی ساتھی آسانی سے ان لوگوں کا پتہ چلا سکتے ہیں جنہوں نے ان باتوں کو میڈیا تک پہنچانا ضروری سمجھا۔

ظاہر ہے ایسی ذمہ دار پوزیشن پر موجود کسی فرد نے ’بہترین قومی مفاد‘ میں ہی اس خبر کو فاش کرنا ضروری سمجھا ہوگا۔ اس لئے ڈان اور اس کے صحافی سے باز پرس کرنے کی بجائے کہ انہیں قومی مفاد کا خیال رکھتے ہوئے ملکی سلامتی کے امور پر رپورٹنگ کرنے میں احتیاط سے کام لینا چاہئے تھا۔ یہ سوال تو ان لوگوں سے پوچھا جانا چاہئے جنہوں نے اس خبر کو عام کرنا ضروری سمجھا تھا۔ کوئی بھی صحافی اور اخبار قومی اہمیت کی ایسی خبر کو شائع کرنے سے گریز نہیں کرے گا کیوں کہ انتہا پسند عناصر کے بارے میں مسلسل تشویش اور پریشانی کا اظہار کیا جاتا ہے۔ اور یہ باتیں بھی سامنے آتی ہیں کہ حکومت اور عسکری اداروں میں اس معاملہ پر کھینچا تانی ہوتی رہتی ہے۔ یہ بات صرف ڈان کی رپورٹ میں سامنے نہیں آئی۔ فرانس کا دورہ کرنے کے بعد حکمران جماعت کے ایک ایم این اے نے بھی قومی اسمبلی کی امور خارجہ کمیٹی میں یہی بات کہی تھی، بلکہ اس بارے میں زیادہ عوامی اور سخت الفاظ استعمال کئے تھے۔ کیا وزیر اعظم نے اپنے اس ایم این کو بلا کر ان سے بھی پوچھا کہ انہوں نے قومی مفاد کو ’ نقصان‘ پہنچانے والی باتیں کیوں کی ہیں۔

وزیر اعظم نے اس معاملہ سے نمٹنے کے لئے جو طریقہ اختیار کیا ہے وہ غیر جمہوری بھی ہے اور تیسری بار ملک کے اعلیٰ ترین عہدے پر فائز ہونے والے شخص کے شایان شان بھی نہیں ہے۔ فوج اور سیاسی حکومت میں انتہا پسندی کے حوالے سے اختلافات کی خبریں آتی رہتی ہیں۔ فوج کے قریبی حلقے سیاست دانوں پر الزام لگاتے ہیں جبکہ سیاسی نمائیندے فوج کے بارے میں ایسی ہی گفتگو کرتے ہیں۔ پنجاب میں انتہا پسند عناصر سے نمٹنے کے لئے رینجرز کو طلب نہ کرنے کا معاملہ بھی اسی سلسلہ کی کڑی ہے۔ ڈان کی خبر میں سیاسی قیادت کی مایوسی اور انٹیلی جنس ایجنسیوں کی امن وامان کی صورت حال میں مداخلت کے بارے میں بتایا گیا تھا۔ حیرت ہے کہ فوج یا سیاسی حکومت اس معاملہ پر اپنا مؤقف براہ راست سامنے لانے کی بجائے بالواسطہ ایک دوسرے پر الزام لگانے کی کوشش کررہے ہیں۔ اس صورت حال میں یہ تاثر قوی ہورہا ہے کہ فوج اور سیاسی حکومت میں اہم ترین امور پر اتفاق رائے نہیں ہے۔ یہ تاثر ڈان کی ایک خبر سے کہیں زیادہ قومی مفاد کو نقصان پہنچانے کا سبب بن رہا ہے۔

خاص طور سے معاملہ کا یہ پہلو بھی قابل غور ہے کہ فوج کے ترجمان عام طور سے فوج کی پوزیشن واضح کرنے میں دیر نہیں لگاتے اور ٹویٹر کے ذریعے لمحہ بھر میں اپنے ادارے کا مؤقف سامنے لاتے ہیں۔ لیکن اس خبر اور اس کے بعد سیاسی حکومت تک پہنچائی گئی شکایت کے حوالے سے وہ بالکل خاموش ہیں۔ وزیراعظم ہاؤس نے دو مرتبہ اس خبر کی تردید کرنا ضروری سمجھا ہے حالانکہ یہ تردید ان لوگوں کی طرف سے وضاحتی بیان کی صورت میں آنی چاہئے تھے جن کا نام لے کر ایک خاص صورت حال کو بیان کیا گیا تھا۔ کیا اس سے یہ سمجھا جائے کہ حکومت فوج کی طرف سے اندرونی باتیں باہر لانے کی ’معمولی‘ شکایت پر اس قدر بدحواس ہوگئی کہ اس نے تردید کے علاوہ صحافی کے سفر پر پابندی لگانا اور اخبار کو قومی مفاد کے خلاف اور غیر پیشہ وارانہ انداز میں کام کرنے کا مورد الزام ٹھہرانا ضروری سمجھا۔ آخر اس بدحواسی کی کیا وجہ ہو سکتی ہے۔ ایسے سیاسی لیڈر کیوں کر ملک کی قیادت کرنے اور جمہوری روایات کے مطابق امور مملکت چلانے میں کامیاب ہو سکتے ہیں۔

خبر سے زیادہ حکومت کے رویہ اور پر اسرار خاموشی نے ملکی مفاد کو نقصان پہنچایا ہے اور سلامتی کے امور کے بارے میں عوام کی پریشانیوں میں اضافہ کیا ہے۔ ان حالات میں ضروری ہے کہ وزیر اعظم اپنی غلطیوں کا احساس کریں اور معاملات کو درست کرنے میں ذاتی دلچسپی لیتے ہوئے فیصلے کریں۔ سب سے پہلے سیرل المیڈا کا نام ای سی ایل سے ہٹایا جائے اور اخبار کے خلاف الزامات واپس لئے جائیں۔ اس کے بعد ملک میں انتہا پسند عناصرسے نمٹنے کے لئے سرکاری پالیسی کا واضح اعلان کیا جائے۔ جن لوگوں اور تنظیموں کے نام پوری دنیا کی زبان پر ہیں ، حکومت کو ان کا نام لے کر بتانا چاہئے کہ وہ کیوں ان کے خلاف کارروائی کرنے سے قاصر ہے۔ عدالتوں اور فوج کی آڑ میں اپنی کمزوریوں کو چھپانے سے اب شبہات دور نہیں ہوں گے۔

حکومت جب چین کے تعاون سے مولانا مسعود اظہر کو عالمی دہشت گرد قرار دینے کے عمل کو رکوانے کے لئے کوشش کرتی ہے تو اس کی کوئی معقول وجہ تو ہونی چاہئے ۔ اب وقت آگیا ہے کہ قوم کو علم ہو کہ مملکت کے ڈھانچے میں کون سے ادارے اور عناصر ان لوگوں کی حفاظت کرنا چاہتے ہیں جو پاکستان کے لئے عالمی سطح پر بدنامی اور تنہائی کا سبب بن رہے ہیں۔ مزید خاموشی عام شہری کی بے چینی اور پریشانی میں اضافہ کرے گی اور حکومت پر اس کا اعتماد کمزور ہو گا۔

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2772 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments