عمران خان کا لیڈر بھی نوازشریف ہی نکلا


میں ایک ان پڑھ انسان ہوں۔ مجھے بھی اس فلسفے پر یقین تھا کہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نے باریاں لگا رکھی ہیں۔ میں بھی باقی پاکستانیوں کی طرح مایوس تھا لیکن پھر قدرت کو اس ملک پر رحم آیا۔ ایک مسیحا نمودار ہوا جس کا نام دنیا نے مجھے عمران خان بتایا۔ لیکن ہم  نے تو نوازشریف سے چھٹکارے کے خواب دیکھے تھے لیکن ڈیڑھ سال بعد مجھے پتا چلا کہ میں نے جس عمران خان کو ووٹ دیا تھا کہ وہ نوازشریف کی پالیسیوں سے ہماری جان چھڑائے گا اس کا تو اپنا لیڈر نواز شریف ہے۔
نوازشریف ملکی انفراسٹرکچر کو مضبوط بنانے پر یقین رکھتے ہیں۔ مجھے وہ دن کبھی نہیں بھولتے جب نوازشریف بڑے بڑے گیم چینجر منصوبوں کا افتتاح کر رہے ہوتے تھے اور عمران خان یہ فلسفہ بکھیر رہے ہوتے تھے کہ سڑک سے غریب کا پیٹ نہیں بھرتا۔ نوازشریف نے اس پھبتی کا ترکی بہ ترکی جواب دیتے ہوئے کہا تھا: کچھ لوگ روڈ بناتے ہیں اور کچھ لوگ اسی روڈ پر روڈ کے خلاف احتجاج کرتے ہیں۔ یہ بات تو مجھے اب سمجھ آئی ہے کہ پیٹ کسی روڈ سے نہیں بلکہ روڈ کنارے قائم کسی لنگر خانے سے بھرتا ہے۔ عمران خان نے نواز حکومت کے جس انفراسٹرکچر پر تنقید کی اور جس کی بنیاد پر اپنی سیاست کی عمارت قائم کی اسی عمارت کو انہوں نے دورہ امریکا میں یہ کہہ کر خود اپنے ہاتھوں مسمار کر دیا کہ : میں نے نیو یارک میں سفر کیا، سڑکوں پر بہت جمپ لگے، میں یہاں کا شہری ہوتا تو ضرور پوچھتا کہ میرے ٹیکس کا پیسا کہاں گیا؟ آپ لوگوں نے ٹیکس کا پیسا انفراسٹرکچر پر لگانے کی بجائے جنگوں میں جھونک دیا۔ ایک بات تو طے ہو گئی کہ عمران خان کا لیڈر نوازشریف ہے اور وہ اپنے لیڈر کی پالیسیوں کا امریکا میں دفاع کر رہے ہیں اور وہ بھی انگریزی میں اور بغیر کسی پرچی کے۔ یقین کریں جب سے میں نے عمران خان کا امریکی ٹی وی کو دیا گیا وہ انٹرویو سنا ہے مجھے انفراسٹرکچر سے شدید نفرت ہوگئی ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ یہ انفراسٹرکچر نامی جانور منافق ہے کہ پاکستان میں ہو تو برا ہوتا ہے اور امریکا میں ہو تو اچھا لگتا ہے۔ اگر مجھے کبھی وزیراعظم بننے کا موقع ملا تو میں امریکا سے وہ انفراسٹرکچر ضرور درآمد کروں گا غریبوں کا پیٹ بھرے اور میرے کپتان کو اچھا بھی لگے۔ وہ موقع تو پتا نہیں کب آئے گا۔ ابھی مجھے اتنا کہنے دیں کہ عمران خان کا لیڈر نوازشریف ہے۔

مجھے وہ وقت بھی یاد ہے جب شہباز شریف کی طرف سے سستی روٹی سکیم شروع ہوئی تھی۔ خدا گواہ ہے کہ ان دنوں بازاروں میں آٹے نام کی جنس مفقود ہو چکی تھی۔ حکومت آتے ہی نہ صرف آٹا باہر نکل آیا بلکہ سستی روٹی سکیم بھی شروع ہو گئی۔ عمران خان کی اس پر کسی گئی پھبتیاں آج بھی کانوں میں کانوں رس گھول رہی ہیں۔ لیکن قدرت نے مجھے یہ دن بھی دکھایا کہ تنقید کرنے والا کسی کے کھولے گئے لنگر کا افتتاح کر رہا ہے اور ہاتھ میں سالن کی ایک پلیٹ پکڑے بڑے فخر سے نہ صرف تصویر بنوارہا ہے بلکہ قوم کو لنگر خانوں کی اہمیت اور افادیت کے بھاشن بھی دے رہا ہے۔ میں اس پر کچھ بھی کہنے کی بجائے سراج الحق کے اس معنی خیز جملے پر اکتفا کرتا ہوں کہ : ملک کو لنگرخانوں کی نہیں بلکہ کارخانوں کی ضرورت ہے۔ امیر جماعت اسلامی کی اس بات پر مگر ایک نقد سوال ضرور چھوڑے جا رہا ہوں جس کا جواب ان پر ادھار رہے گا کہ : کارخانے بنانے والوں کو کسی کے خانے کار بنانے میں دامے درمے سخنے قدمے آپ کیوں شریک تھے ؟

کیا آپ کو یاد ہے کہ جب عمران خان صاحب بڑے بڑے جلسوں میں لاہور اور پنڈی میٹرو بسوں کا بھد اڑایا کرتے تھے اور انہیں جنگلا بسوں کا نام دیتے تھے۔ لیکن پھر وہ وقت بھی آیا کہ پشاور میں اسی طرح کے منصوبے کا نہ صرف افتتاح کیا گیا بلکہ اسے شہر کی قسمت بھی کہا گیا اور اس کی شان میں ایسے ایسے قصیدے پڑھے گئے کہ مجھے دور جہالت میں لگنے والے ایک عظیم میلے ’’عکاظ ‘‘ کی یاد آگئی۔ مجھے یقین ہے اگر آج وہ شعراء زندہ ہوتے تو ان کی فصاحت و بلاغت بھی شرما جاتی۔ میں جب بھی شیدے کے ڈھابے پر بیٹھتا ہوں چاچا کھڑوس میرے کان میں یہ کہہ کر بھاگ جاتا ہے: میٹرو بسوں کے معاملے میں بھی عمران خان نے نوازشریف کو اپنا لیڈر مان لیا ہے۔

یاد تو مجھے وہ وقت بھی آ رہا ہےجب عمران خان صاحب نے دھاندلی کو بنیاد بنا کر حکومت کے خلاف لانگ مارچ اوردھرنے کا اعلان کیا تھا۔ اس وقت ان کا موقف تھا کہ احتجاج کرنا کسی بھی پاکستانی کا جمہوری حق ہے۔ نوازشریف کہتا تھا کہ عمران خان جس فورم پر دھاندلی کی تحقیق کرانا چاہتے ہیں میں تیار ہوں لیکن وہ احتجاج نہ کریں، اس سے ملکی ترقی کا عمل رک جائے گا اور اسلام آباد بند ہوگا تو لوگوں کو آنے جانے میں پریشانی ہو گی۔ لیکن عمران خان نے ان کی ایک نہ سنی بلکہ پہلے دھرنے کی ناکامی پر کچھ عرصے بعد اسلام لاک ڈاوَن کرنے کی کوشش کی۔ آج فرق بس اتنا ہے کہ کردار بدلے ہیں۔ عمران خان خود نوازشریف کی جگہ کھڑے ہیں جب کہ ان کی جگہ مولانا فضل الرحمن نے لے لی ہے۔ ان کی حکومت کو بھی ڈیڑھ سال آنے کو ہے، وہی دن ہیں اور مارچ اور دھرنے کا نام بھی وہی ہے یعنی آزادی مارچ۔ آج وہ اپنی زبان سے وہی دلیلیں دے رہے ہیں جو کسی دور میں نوازشریف دیا کرتے تھے۔ اگر آج وہ مکمل طور پر نوازشریف کو فالو کر رہے ہیں تو زبان بندی کے اس دور میں اتنا کہنا تو میرا حق بنتا ہے کہ عمران خان نوازشریف کے راستے پر چل رہے ہیں۔ اب پتا نہیں وہ راستہ پیارا ہے یا پھر عمران خان کا لیڈر بھی پٹواریوں کی طرح نوازشریف ہی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).