دھرنے کی بھاگم دوڑ: دل میں چور


آج پاکستان میں ایک بار پھر دھرنا سیاست کی جا رہی ہے۔ مولانا فضل الرحمن کی طرف سے آزادی مارچ کا اعلان کیا جا چکا ہے اور اپوزیشن جماعتوں کی مولانا کو مکمل طور پر حمایت حاصل ہے۔ مولانا فضل الرحمان کے ساتھ نو پارٹیوں نے آزادی مارچ میں آنے کا اعلان کیا۔ پر پاکستان مسلم لیگ نواز اور پاکستان پیپلز پارٹی کبھی قدم آگے بڑھاتے اور کبھی بھاگنے کی کوشش کرتے ہیں۔ آج حکومتی جماعت پاکستان تحریک انصاف بھی مولانا پر الزام لگانے میں مصروف ہے کہ مولانا مذہب کارڈ استعمال کر رہے ہیں لیکن بات سوچنے والی ہے کہ مذہب کارڈ تو تحریک لبّیک کے ذریعہ استعمال کیا گیا پر اس وقت تو پاکستان تحریک انصاف کی طرف سے طرفداری نظر آئی کیونکہ اس وقت چڑھائی پاکستان مسلم لیگ نواز پر ہو رہی تھی اور پاکستان مسلم لیگ نواز کو اس کا بہت بھاری نقصان بھی ہوا۔ اب بات اگر مولانا فضل الرحمن کی کریں تو ابھی تک وہ کوئی بھی مذہب کارڈ کا استعمال کرتے ہوئے نظر نہیں آرہے۔تو پھر اصل وجہ کچھ اور ہے۔ کیا پاکستان مسلم لیگ نون اور پاکستان پیپلز پارٹی کو صرف یہی پریشانی ہے کہ مولانا فضل الرحمن کہیں تحریک انصاف کی حکومت گرانے میں کامیاب نہ ہو جائیں اور وہ اکیلے ہی قلعہ فتح نہ کرلیں؟

پاکستان مسلم لیگ نواز کے صدرشہباز شریف نے تو اپنی جان چھڑانے کی بہت کوشش کی کہ دھرنے میں ان کا کوئی کردار نہ ہو لیکن پاکستان مسلم لیگ ن کی وہ قیادت جس نے پرویزمشرف کے دور میں ماریں کھائیں، جیلیں کاٹیں، انہوں نے نواز شریف سے ملاقات کی اور اصل راز بتا دیا کہ شہباز شریف صاحب کیا کرنے میں مصروف ہیں ۔ سابق وزیراعظم میاں محمد نواز شریف کو علم ہوا کہ ان کے بھائی کی کمر میں شدید درد ہے جس کی وجہ سے وہ تشریف نہیں لائے تو پھر انہیں خط کے ذریعے سیاسی سفارتکاری کر کے اپنی بات شہباز شریف اور فضل الرحمن تک پہنچانا پڑی۔۔

خط پڑھنے کے بعد مولانا فضل الرحمن کا دل بڑا ہوا کہ پاکستان مسلم لیگ نواز نے مکمل حمایت اور اسلام آباد میں مارچ میں قدم سے قدم ملانے کا فیصلہ کرلیا۔ دوسرا خط جب میاں شہبازشریف نے پڑھا تو انہیں بھی فیصلہ کرنا پڑا کہ اب کیا کیا جائے کیوں کہ پہلے ہی میرے خلاف آوازیں بلند ہو رہی ہیں کہ میں میاں نواز شریف کے مخالف چل رہا ہوں ۔ آخرکار شہباز شریف کو بھی اعلان کرنا پڑا کہ ہم میاں نواز شریف کے حکم کے مطابق ہم مولانا کے آزادی مارچ کا حصہ بنیں گے اور اس کٹھ پتلی حکومت کو گھر بھیجیں گے۔ اس سے ثابت ہوا کہ شہباز شریف کو بھی علم ہو گیا کہ میاں نوازشریف کے مخالف چل کر کہیں وہ چوہدری نثار کی طرح اپنی ساکھ نہ کھو بیٹھیں اور کہیں سیاست انہیں خیرباد نہ کہہ دے ۔

اب بات کرتے ہیں پیپلزپارٹی کی جو کہ ہمیشہ مولانا کے ساتھ ہر جگہ سب سے پہلے کھڑی ہوئی نظر آئی اور جب معرکے کا وقت آیا تو بھاگتی دکھائی دی۔ چئیرمین سینیٹ صادق سنجرانی کے خلاف تحریک عدم اعتماد ناکام ہونے پر پاکستان مسلم لیگ نواز کے سینئر رہنما خواجہ آصف نے پیپلزپارٹی پر الزام لگایا کہ انہوں نے ووٹ بیچے، جس کے بعد پیپلز پارٹی نے بہت واویلا کیا کہ نون لیگ کے صدر اپنے رہنماؤں کی زبان بند کریں کہ وہ پاکستان پیپلزپارٹی پر جھوٹے الزام لگا رہے ہیں اور آخرکار پاکستان مسلم لیگ نون نے اپنے رہنماؤں کو روک کر پیپلزپارٹی کو خوش کردیا۔ اب جب آزادی مارچ کا اعلان ہوا تو پیپلز پارٹی پھر بھاگتی ہوئی نظر آئے کیا پیپلز پارٹی نے پھر کوئی سودا کر لیا؟

پیپلزپارٹی نے کہا کہ مولانا فضل الرحمن مذہبی کارڈ کھیل رہے ہیں۔ پروہ یہ بتانے سے قاصر ہے کہ کس قسم کا مذہبی کارڈ مولانا فضل الرحمن استعمال کر رہے ہیں۔ مختصر بات یہ ہے کہ جیسے نواز اور شہباز کے نظریہ میں فرق ہے اسی طرح بلاول اور زرداری کے نظریے میں فرق ہے۔ سابق صدر آصف علی زرداری مولانا فضل الرحمن کے ساتھ مکمل حمایت کا اعلان کرتے ہیں اور پھر بلاول کی طرف سے مذہبی کارڈ کا جواز بنا کر مولانا فضل الرحمن کی حمایت سے ہاتھ اٹھا لیا جاتا ہے۔ اور اپنی الگ سے تحریک چلانے کا اعلان بھی کر دیا جاتا ہے ۔پاکستان پیپلز پارٹی کے پاس سندھ کی حکومت ہے اور وہ اسی کو بچانے میں مصروف ہے بظاہر تو وہ رہبر کمیٹی میں بیٹھے نظر آتی ہے، پر دل میں اس کے چور ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).