امریکی کانگرس کی کمیٹی میں بھارت پر کیا بیتی؟


حکومت تو ایک طرف رہی امریکہ کے منتخب نمائندوں نے بھی کبھی کشمیریوں پر ہونے والے مظالم پر کوئی آواز نہیں اُٹھائی تھی۔ لیکن اب مردہ بولا اور کفن پھاڑ کر بولا اور خوب بولا۔ اس کی تفصیل یہ ہے کہ 22 اکتوبر 2019 کو امریکہ کے ایوان ِ نمائندگان کی سب کمیٹی برائے جنوبی ایشیا کا اجلاس ہوا۔ اور اس کا پہلا حصہ جس میں اسسٹنٹ سیکریٹری آف سٹیٹ برائے جنوبی ایشیا مس ویلز اور اسسٹنٹ سیکریٹری آف سٹیٹ برائے انسانی حقوق مسٹر ڈیسٹرو بطور گواہ پیش ہوئے، اس کا جائزہ لیتے ہیں۔ دونوں پارٹیوں کے اراکین کشمیر میں انسانی حقوق کی صورت ِ حال پر انتہائی سخت تنقید کرتے رہے۔ اس صورت حال سے خاص طور پر اسسٹنٹ سیکریٹری ویلز اس حد تک ناراض اور بوکھلائی ہوئی تھیں کہ آخر میں اُن کے چہرے پر خفگی کی سلوٹیں اور اُن کی آواز میں لکنت بھی نموادار ہوگئی تھی۔

یہ کیسے ہوا؟ اس لئے نہیں ہوا کہ اس مسئلہ پر سیکیورٹی کونسل کی کوئی قراردادیں موجود ہیں۔ بلکہ ان قراردادوں کا تو ذکر بھی نہیں آیا۔ یہ تبدیلی عمران خان صاحب کے دوروں کی وجہ سے نہیں پیدا ہوئی۔ ان دوروں کا بھی کوئی ذکر نہیں کیا گیا۔ نہ ہی ہمارے سفارتکاروں کی وجہ سے ایسا ہوا۔ یہ سب کچھ اس وجہ سے ہوا کہ ان بہت سے کشمیری حضرات نے جو کہ ان ممبران کے حلقہ ہائے انتخاب میں رہتے ہیں، ان ممبران کو مل کر بتایا کہ کشمیر میں اُن کے رشتہ داروں پر کیا بیت رہی ہے۔ اور کس طرح کشمیر کو پوری دنیا سے کاٹ دیا گیا ہے۔

کمیٹی کے چیئر میں مسٹر شرمین نے کہا کہ میرے حلقہ کے کشمیری اپنے پیاروں سے رابطہ بھی نہیں کر پا رہے۔ آخر کشمیر میں جلسے جلوسوں کی اجازت کب دی جائے گی؟ اگر بھارت نے یہ پابندیاں دہشت گردی پر قابو پانے کے لئے لگائی ہیں تو امریکہ کے سفارتکار، سینیٹر اور صحافی تو دہشت گرد نہیں۔ انہیں کشمیر جانے کی اجازت کیوں نہیں دی گئی؟ آخر پانچ اگست کے بعد سرحد پار سے کون سی دہشت گردی ہوئی ہے جسے روکنے کے لئے یہ سب کچھ کیا جا رہا ہے؟

خارجہ کمیٹی کے چیئرمین مسٹر اینجلز نے کہا کہ محض تعلقات اور مفادات کی وجہ سے کسی ملک میں ہونے والی انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں برداشت نہیں کی جا سکتیں۔ سپینبرگر صاحبہ نے کہا کہ بھارتی حکومت کچھ اور دعوے کر رہی ہے اور امریکہ میں رہنے والے کشمیری کچھ اور حقائق بیان کر رہے ہیں۔ ہمیں تحقیق کرنی چاہیے کہ کس کی بات صحیح ہے۔ میں ایسے امریکی کشمیری کو جانتی ہوں جو کشمیر اپنے باپ کے جنازے پر بھی نہیں جا سکا۔

کشمیر میں دس سال کے بچے کو بھی پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت جیل میں ڈال دیا گیا۔ انہوں نے اسسٹنٹ سیکریٹری ویلز سے دریافت کیا کہ کیا آپ کو علم ہے کہ کتنے بچوں کو جیل میں ڈالا گیا ہے؟ اس پر ویلز نے اعتراف کیا کہ انہیں معین طور پر علم نہیں ہے۔ سپینبرگر صاحبہ نے کہا کہ بھارت کا کہنا ہے کہ یہ پابندیاں سیکیورٹی خدشات کے باعث ہیں۔ کیا انہوں نے ہماری حکومت کو اعتماد میں لیا ہے کہ ان کی سیکیورٹی کو کیا خدشہ ہے؟ ویلز نے اس پر تبصرہ کرنے سے گریز کیا۔

جب کارروائی آگے بڑھی تو ممبران کی بھارت پر تنقید مزید سخت اور تلخ ہوتی گئی۔ صومالی امریکن رکن محترمہ عمر صاحبہ نے کہا کہ بھارت سے ہمارا اتحاد جمہوریت، مذہبی آزادی اور انسانی حقوق کی مشترکہ قدروں پر ہے لیکن مودی اور بی جی پی کے تحت ان سب کو خطرہ ہے۔ وہ ہندو نیشلزم کو مسلط کرنا چاہتے ہیں۔ اور اس بارے میں امریکہ کی حکومت کا موقف کیا ہے کہ کشمیر کے لوگوں کو یہ حق ہونا چاہیے کہ وہ اپنے مستقبل کا فیصلہ خود کریں۔ میں اس دھان پان سی خاتون کو دیکھ کر سوچ رہا تھا کہ اگر امریکی کانگرس کی ایک رکن اس دلیری اور قابلیت سے کشمیریوں اور آسام کے مسلمانوں کے لئے آواز اُٹھا سکتی ہے تو ہمارے صحت مند عرب دوستوں کو کیا خوف ہے؟

وہاں ایک بھارتی امریکی ممبر مس جے پال بھی اظہار ِ خیال کے لئے آئیں۔ میں ان کے انصاف کی تعریفکیے بغیر نہیں رہ سکتا۔ انہوں نے کہا کہ مجھے ایک مجسٹریٹ نے بتایا ہے کہ کشمیر میں چار ہزار لوگوں کو پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت مقدمہ چلائے بغیر گرفتار کر لیا گیا ہے۔ سینکڑوں بچے گرفتار ہوئے ہیں۔ لوگوں کو طبی سہولیات نہیں مل رہیں۔ میں اپنے والدین سے ملنے بھارت گئی تو مجھے دلت اور اقلیتوں سے وابستہ افراد خوف زدہ نظر آئے کہ اب کیا ہوگا؟ ہم پاکستانیوں کو جے پال صاحبہ سے کچھ سیکھنا چاہیے۔

مسٹر سیسی لینی نے یہ خوفناک انکشاف کیا کہ کشمیر میں بھارتی فوج نے کشمیری لڑکوں کی آنکھوں پر چھرے فائر کر کے انہیں معذور بنا دیا اور یہ دعویٰ پیش کیا کہ کسی کی موت نہیں ہوئی۔ اور پھر جو ایک آنکھ سے معذور لڑکا ملا اسے گرفتار کر لیا۔ ایک اور ممبر نے اعتراض کیا کہ بھارت نے آٹھ لاکھ کی تعداد میں فوج کشمیر میں بٹھا دی ہے ہر آٹھ کشمیریوں پر ایک فوجی موجود ہے۔ ایک اور ممبر نے کہا کہ پاکستان کے کتنے ہی فوجیوں کی دہشت گردی میں جانیں گئی ہیں، ہمیں اس کا تو اعتراف کرنا چاہیے۔ کشمیر کے حوالے سے پاکستان پر جو تنقید ہوئی وہ لشکر طیبہ، جیش ِ محمد اور حزب المجاہدین کے حوالے سے ہوئی۔ اور اس بات کا اظہار کیا گیا کہ اس دہشت گردی کو برداشت نہیں کیا جاسکتا۔ کوئی ایک بھی ممبر ایسا نہیں تھا جس نے بھارت کی لگائی گئی پا بندیوں کی حمایت کی ہو۔

اس دوران اسٹنٹ سیکریٹری ویلز کی خفگی قابل ِ دید تھی۔ ایک چینل کی رپورٹنگ کے برعکس وہ امریکہ سے زیادہ بھارت کی سفارتکار لگ رہی تھیں۔ کبھی وہ اس بات کا ذکر کرتیں کہ بھارت عظیم جمہوریت ہے۔ ان کی عدالتیں کام کر رہی ہیں وہ خود یہ معاملات دیکھ لیں گی۔ کبھی یہ خوش خبری سناتیں کہ کشمیر میں آہستہ آہستہ پابندیاں کم کی جا رہی ہیں۔ کبھی پاکستان پر تنقید کا رخ پھیرنے کی کوشش کرتیں۔ یہ خوش خبری سناتی رہیں کہ جب بھی کشمیر میں اسمبلی کے انتخابات ہوں گے تو کشمیریوں کو اپنی رائے دینے کا موقع مل جائے گا۔ لیکن ان کوششوں میں انہیں کوئی کامیابی نہیں ہوئی۔

اس سے کوئی انقلاب نہیں آئے گا۔ لیکن ہم اس سے کچھ سیکھ سکتے ہیں۔ پاکستان کو اس مسئلہ پر ذرا پس منظر میں رہنا چاہیے۔ دونوں طرف رہنے والے کشمیری احباب زیادہ بہتر انداز میں اپنا موقف پہنچا سکتے ہیں۔ سب سے زیادہ ضروری کام یہ ہے کہ کشمیریوں کو بنیادی حقوق سے محروم کیا جا رہا ہے، اس کی تفاصیل جمع کی جائیں۔ اور صرف امریکہ ہی نہیں بلکہ دنیا بھر کے سیاستدانوں، دانشوروں، اور انسانی حقوق کی تنظیموں تک انہیں پہنچایا جائے۔

اجازت ملتے ہی کشمیر کے لوگ جو احتجاج کریں وہ مکمل طور پر پُرامن ہونا چاہیے۔ ایسا حتجاج ان کے دشمن کو سب سے زیادہ نقصان پہنچائے گا۔ اور سب سے پہلے کشمیر کے لوگوں کو اپنے اندر اتحاد پیدا کرنا چاہیے تا کہ اپنا متفقہ موقف پیش کیا جائے ورنہ ہر کوشش بے اثر ثابت ہو گی۔ آپس کے اختلافات نے پہلے ہی کشمیریوں کو بہت زیادہ نقصان پہنچایا۔ اور اب یہ سمجھ جانا چاہیے کہ اب تک مختلف قسم کے جیش اور لشکروں نے کشمیریوں کی جدو جہد کوئی فائدہ نہیں پہنچایا۔ ان کی سرگرمیاں اب صرف مودی صاحب کو ہی فائدہ پہنچا سکتی ہیں۔ جب بھی کشمیر میں اسمبلی منتخب ہو تو اس کی ایک قرارداد وہ کام کر سکتی ہے جو ہزار لشکر نہیں کر سکتے۔ اشارہ کافی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).