آزادی صحافت امتحان سے دوچار


میڈیا کا معاملہ صرف ہمارے ہاں ہی نہیں ، دنیا بھر میں الجھا ہوا ہے۔ حکمران چاہے وہ کتنے ہی جمہوریت پسند کیوں نہ ہوں، تنقید پسند نہیں کرتے۔ بادشاہت، آمریت اور یک جماعتی حکمرانی نے اسکا آسان اور سیدھا سادہ حل ڈھونڈ لیا ہے کہ وہاں پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا ، حکومتی کنٹرول میں ہوتا ہے ۔ یہ میڈیاوہی کہتا ہے جو حکمران چاہتے ہیں۔ اپنی رعایا کو وہی کچھ اور اتنا ہی بتاتے ہیں، جتنا ضروری ہوتا ہے۔ کسی کو خود سری کی مجال نہیں۔ آزادی اظہار کے نام پر وہاں کوئی ذرا سی ہلچل ہو بھی تو اسے بڑے فتنہ و فساد کی طرح کچل دیا جاتا ہے۔ بڑی بڑی اور انتہائی اہم خبریں بھی عوام کی آنکھوں سے اوجھل رکھی جاتی ہیں۔برسوں کے اس عمل نے عوام کو بھی اس بے خبری کا عادی بنا دیا ہے اور وہ کسی طرح کی بغاوت کا سوچے بغیر کولہو کے بیل کی طرح اپنے رزق روزی کی تلاش میں لگے بندھے راستے پر چلتے رہتے ہیں۔
مسئلہ ان ممالک کا ہے جو جمہوریت کا نام لیتے ہیں۔ جہاں عوام کے حق آگاہی کو تسلیم کیا جاتا ہے۔ جہاں کے دستور میں آزادی اظہا ر رائے کی ضمانت دی گئی ہے۔ جہاں بات کہنے کے حق کو بنیادی حقوق میں شامل کیا گیا ہے اور جہاں صحافت کو ہر طرح کی پابندیوں سے آزاد رکھنے کا عہد کیا گیا ہے۔ یہ تو سب کاغذی باتیں ہیں۔ حقیقت حال اس سے کافی مختلف ہے۔ دنیا کے بڑے جمہوری ممالک میں بھی تمام تر روشن خیالی کے با وجود سچ کو برداشت کرنے کا حوصلہ کم ہی ہے۔ ہم اکثر دیکھتے ہیں کہ امریکی صدر ٹرمپ کھل کر صحافیوں پر تنقید کرتے بلکہ انہیں برا بھلا کہتے رہتے ہیں۔ امریکہ کے ایک بڑے نیوز چینل کے بارے میں وہ اکثر اپنے شدید غصے کا اظہار بڑے سخت الفاظ میں کرتے ہیں۔ یوں بھی دیکھا گیا ہے کہ اگر وائٹ ہاوس میں کسی صحافی نے صدر ٹرمپ کے بارے میں کوئی چبھتا ہوا سوال کر لیا تو وہ طیش میں آگئے اور صحافی کو اپنے گارڈز کے ذریعے باہر نکال دیا۔ دیگر جمہوری ممالک کے منتخب حکمران بھی صحافت کی آزادی سے بالعموم نالاں ہی رہتے ہیں۔
ہمارے ہاں پاکستان میں بھی میڈیا ہر دور میں اسی طرح کے مسائل کا شکار رہا ہے۔ آمریتوں کے ادوار کو تو چھوڑ دیجیے، جمہوری حکمرانوں کے دور میں بھی صحافت سخت آزمائش سے دوچار رہی ہے۔ اخبارات کے ڈکلیریشن منسوخ کیے گئے۔ انکی ضمانتیں ضبط ہوئیں۔ بھاری جرمانے کیے گئے۔ پریس اٹھا لیے گئے۔ صحافیوں کو قید میں ڈال دیا گیا۔ اس سب کے باوجود پاکستان کی صحافت کافی سخت جان نکلی۔ اس نے مشکل حالات میں بھی نا صرف خود کو زندہ رکھا بلکہ صحافی آزادی اظہار کیلئے بھرپور مزاحمت کرتے اور حکومتوں کے جبر کا مقابلہ کرتے رہے۔
آزادی صحافت کا یہ معاملہ آج کل بھی امتحان سے دوچار ہے۔ ہمارے سینئر اور بزرگ صحافی اکثر یہ بات کہتے ہیں کہ انہوں نے اس طرح کی کڑی پابندیوں اور اس نوعیت کے سنسر کا اپنی طویل زندگیوں میں کبھی تجربہ نہیں کیا۔ یہ بات کس حد تک درست یا غلط ہے، اس بحث میں جائے بغیر اتنی بات تو سامنے کی حقیقت ہے کہ سیاست سے تعلق رکھنے والی بعض اہم شخصیات کے جلسے ، پریس کانفرنسیں یا میڈیا سے انکی گفتگو سنانے یا دکھانے کی اجازت نہیں ۔ ایسے لوگوں کے انٹرویوز پر بھی پابندی ہے۔ حزب اختلاف کی بعض نامور شخصیات ایسی ہیں، جن پر نہ کوئی مقدمہ ہے نہ وہ سزا یا قید میں ہیںاور نہ انہیں نا اہل قرار دیا گیا ہے لیکن ان پر بھی اس طرح کی پابندیاں عائد ہیں۔
ان پابندیوں کے جواز یا عدم جواز کو ایک طرف رکھتے ہوئے ہم اس معاملے کو صرف میڈیا، معاشرتی رویوں اور عوام کی نفسیات کے حوالے سے دیکھتے ہیں۔ ہوتا یہ ہے کہ جب ایک خبر کو یا ایک جلسے جلوس کو یا کسی پریس ٹاک کو روک لیا جاتا ہے تو وہ رکتی نہیں۔

سوشل میڈیا ایک بڑے طاقتور متبادل کے طور پر سامنے آ چکا ہے۔ اسے الیکڑانک میڈیا کا ایک ایسا حصہ سمجھا جانے لگا ہے جسکی پہنچ بہت دور تک ہے۔ جب بھی کسی شخصیت کی تقریر یا اسکی سیاسی سرگرمی پر پابندی لگتی ہے ، لوگ سوشل میڈیا کا رخ کرتے ہیں۔ جو انہیں اپنا من پسند مواد بڑی خوبصورتی کیساتھ پیش کر دیتا ہے ۔ بلکہ زیا دہ پر جوش اور دلچسپ حصے کو الگ کر کے نمایاں کر دیا جاتا ہے۔ پھر یہ سلسلہ چل پڑتا ہے اور لوگ ایک دوسرے کو اس مواد سے با خبر کرنے لگتے ہیں جو حکومت چھپانا چاہتی ہے۔ اعداد و شمار کے مطابق پاکستان کی بائیس کروڑ آبادی میں کم و بیش پندرہ کروڑ موبائل فون کنکشن کام کر رہے ہیں۔ کئی افراد کے پاس ایک سے ذیادہ موبائل فون ہیں، اس لئے ہم پندرہ کروڑ کی تعداد کو کم کر کے اگر پانچ یا چھ کروڑ تک بھی لے آئیں تو یہ بہت بڑی تعداد ہے۔ اخبارات اور ٹی۔وی کی رسائی تو اس کے مقابلے میں بہت ہی کم ہے۔
مواد کو چھپانا اس لئے بھی لاحاصل ہے کہ بیشتر لوگ جدید ٹیکنالوجی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے دنیا بھر کے ٹی۔وی چینلز تک رسائی رکھتے ہیں۔ الجزیرہ، بی۔بی۔سی اور سی۔این۔این تو گھر گھر میں پہنچے ہوئے ہیں۔ اپنے میڈیا کی بے اعتباری سے نالاں لوگ انکی طرف رخ کرتے ہیں۔یہ غیر ملکی میڈیا پاکستان کی خبروں کو اپنے رنگ سے پیش کرنے کے ہنر میں ماہر ہیں۔ سینئر صحافی بتاتے ہیں کہ ذولفقار علی بھٹو کے خلاف تحریک کے دنوں میں کس طرح بی۔بی۔سی کو زبردست مقبولیت حاصل ہو گئی تھی۔ اور اسکے نمائندے ” مارک ٹیلی” کے نام سے نا صرف بچہ بچہ واقف ہو گیا تھا بلکہ اسے ایک ہیرو سمجھا جانے لگا تھا۔
آمریتوں کے دور میں جب شدید سنسر شپ عائد ہوتی تھی تو اخبارات کو کاپی پریس بھجوانے سے پہلے کسی افسرمجاز کو دکھاناہوتی تھی۔ وہ افسر مجاز کسی بھی خبر کو خطرناک قرار دیتے ہوئے حکم جاری کرتا تھا کہ اسے نکال دیں۔ وہ خبر ادھیڑ دی جاتی تھی۔ تب ٹیکنالوجی نے اتنی ترقی نہیں کی تھی کہ اسکی جگہ فورا کوئی نئی خبر لگا دی جائے لہذا وہ جگہ خالی رہتی تھی یا اس پر ” پریس سٹاپ” لکھ دیا جاتا تھا۔ اگلے دن وہ خالی جگہ، تمام شائع شدہ خبروں سے ذیادہ زیر بحث رہتی تھی۔ عوام اس خالی جگہ میں اپنی اپنی پسند کی تصوراتی خبریں لگاتے اور لطف اٹھاتے تھے۔ ساتھ ہی افواہوں کا بازار گرم ہو جاتا تھااور افواہ ایسا منہ زور گھوڑا ہے جس پر کسی طرح کا کوئی ضابطہ یا سنسر کام نہیں کرتا۔
خبر کو دبانے اور بعض شخصیات کو ممنوع قرار دینے کے سیاسی اثرات سے قطع نظر، اس عمل سے خود میڈیا کی ساکھ متاثر ہوتی ہے۔ اس پر اعتبار کمزور پڑ جاتا ہے۔ میڈیا کی یہ کمزوری کسی بھی معاشرے کے لئے بہت مضر ہوتی ہے۔ اس طرح کے ماحول کو ” پریشر ککر” سے تشبیہ دی جاتی ہے۔ ہم نے ماضی میں دیکھا ہے کہ جب حقیقی خبروں کو چھپا کر عوام کی آنکھوں پر پٹیاں باندھنے اور ان کے کانوں میں روئی ٹھونسنے کی کو شش کی گئی تو اس کے نتائج منفی ہی ثابت ہوئے۔ سقوط ڈھاکہ کی مثا ل ہمارے سامنے ہے۔ ہم نے اپنے عوام کو کیسے کیسے سبز باغ دکھائے۔ فتح کے کیسے کیسے ترانے گائے اور حقیقت اس وقت کھلی جب ہم نے ہتھیار ڈال دیئے اور مشرقی پاکستان بنگلہ دیش بن گیا۔
میڈیا کو آج کئی مسائل درپیش ہیں۔ یقینا ہر مسئلہ اہم ہے ۔ ذیادہ تر بات اس مواد (contents) کے بارے میں ہوتی ہے جو میڈیا پر آرہا ہے۔ اسکی ” آزادی” کے بارے میں بحث مباحثہ ہوتا ہے لیکن اصل مسئلہ وہ مواد ہے جسکو چھپایا جا رہا ہے ۔ یا جسے چھپانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ یہ کو شش نا صرف قطعی طور پر غیر موثر ہے بلکہ اس سے خود میڈیا اور حکومت کو بھی نقصان پہنچ رہا ہے۔ میڈیا کے بحرا ن کا یہ زاویہ فوری توجہ طلب ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).