جتھوں میں تقسیم معاشرہ


سانحہ ساہیوال پر آنے والا فیصلہ کسی کے لیے غیر متوقع نہیں تھا اس کے باوجود ہر دل اداس ہے، لہجوں میں غصہ در آیا ہے، آنکھیں اشکبار ہو گئی ہیں۔ سب کو علم ہے کہ کونسا طاقتور ادارہ پردے کے پیچھے ڈوریاں ہلا رہا تھا، اس طرف اشارے بھی کیے جا رہے ہیں اور کھل کر نام بھی لیا جا رہا ہے لیکن عدل و انصاف کے دیوتا آسائش بھری وادیوں میں محو خواب ہیں۔ اس سے قبل ہم سانحہ ماڈل ٹاؤن بھی دیکھ چکے ہیں، فاٹا اور بلوچستان میں اجڑ جانے والے گھرانوں کی داستانیں بھی سن چکے ہیں، لاپتہ افراد کے عزیز و اقارب کے نوحے بھی دل کی پتھریلی زمین پر نقش ہیں۔

بے شمار سوالات ہیں جو اس طرح گھور رہے ہیں کہ نظریں چرانے کا رستہ نہیں ملتا، عقل ہے کہ بین کرتی پھرتی ہے اور جذبے ہیں تو سر پر خاک بکھیرے ویران کوچوں میں پھر رہے ہیں۔ آیئے کچھ دیر کے لیے خون میں لتھڑے لباس اور خاک آلود جسموں کو بھلا دیتے ہیں اور کچھ بنیادی سوال خود سے پوچھتے ہیں۔ اگر وکلا پر قانون لاگو کرنے کی کوشش کی جائے تو وہ سائلین سے لے کر پولیس اور منصف تک کو رگید دیتے ہیں۔ ڈاکٹروں کے جائز و ناجائز مطالبات تسلیم نہ کیے جائیں تو وہ خاک نشینوں کے بیمار جسموں سے نظریں پھیر لیتے ہیں، پولیس کے اہلکار اگر کسی ذہنی معذور پر تشدد کر کے اس کے بدن سے روح کھینچ لیں تو ورثا کے پاس مجرموں کو معاف کر دینے کے سوا کوئی دوسرا راستہ نہیں بچتا۔

واپڈا اہلکار سے کوئی تلخ لہجے میں بات کرے تو پورے محلے کو اندھیروں میں راستے تلاش کرنے پڑتے ہیں۔ تھوڑا سا تخیل کو متحرک کریں تو اس سماج کی سکرین پر بے شمار جتھے آپس میں دست وگریباں نظر آئیں گے۔ ان کے نام اور لیبل مختلف ہیں مگر بے شکل سایوں کا یہ بے ہنگم ہجوم ایک جیسا ہی نظر آئے گا۔ آپ اس سلسلے کو پھیلاتے جائیں، کسی نہ کسی مرحلے پر میں اور آپ بھی اس جتھے بندی کے دائرے میں ضرور آ جائیں گے اور اپنی بقا کی خاطر ہر صورت اپنے گروہ کا ساتھ دینا بقا کا واحد رستہ نظر آئے گا۔ سیاسی جماعتیں بھی اسی جتھے کا حصہ ہیں، سرکاری ادارے بھی اپنے اپنے گروہ کے تحفظ پر مصر ہیں۔

اس ساری کہانی میں جس جتھے کے پاس جتنی زیادہ طاقت ہے اس کا وار اسی قدر مہلک ہوتا ہے۔ اگر پٹواری اپنی طاقت کا مظاہرہ سائل کے منہ پر اس کے کاغذات پھینک کر کرتا ہے یا ڈاکٹر کسی تڑپتے مریض سے منہ موڑ کر اسے اپنے ہی دکھوں کی چادر اوڑھے رکھنے پر مجبور کرتا ہے تو اس سے زیادہ طاقت رکھنے والا پولیس افسر لاتوں، گھونسوں اور مکوں سے اپنے شکار پر طبع آزمائی کرتا ہے۔ اس سے زیادہ طاقتور سویلین حکمران اپنے سیاسی مخالفین پر زمین تنگ کر دیتا ہے، انہیں پابند سلاسل کر دیتا ہے اور بیمار باپ سے بیٹی کو ملنے کی اجازت دینے سے کتراتا ہے، ان سب سے بڑا جتھا وہ ہے جس کے پاس گولی اور بارود کی قوت ہے، وہ اپنی اس طاقت کا اظہار سانحہ ساہیوال کے ذریعے کرتا ہے یا مبینہ ملزموں کو اپنے پیاروں سے کبھی سالہاسال کے لیے تو کبھی عمر بھر کے کے لیے دور کر دیتا ہے۔

پاکستان کا بڑا مسئلہ یہ ہے کہ سیاستدان بھی مستقل اس کوشش میں لگے رہتے ہیں کہ کسی طرح اس طاقتور گروہ کو کمزور کیا جائے تاکہ ان کا اپنا جتھا سب سے طاقتور ہو جائے۔ یقین کریں جب کبھی بھی سیاستدان اس مقصد میں کامیاب ہو گئے انہوں نے بالکل وہی کرنا ہے جو اسٹیبلشمنٹ کر رہی ہے۔ نہ ہی ماڈل ٹاؤن جیسے واقعات تھم سکیں گے اور نہ ہی ساہیوال کا واقعہ آخری سانحہ ثابت ہو گا۔ بنیادی مسئلہ ایک ہی ہے اور وہ یہ کہ یہاں قانون کی بالادستی کا تصور مٹ چکا ہے جس کے نتیجے میں ہر شخص اپنے گروہ کے دامن میں پناہ لے کر دوسرے طاقتور گروہ سے اپنی حفاظت پر مجبور و معمور ہے۔

اس لیے مسئلے کا حل ایک جتھے کو ہٹا کر اس کی جگہ کسی دوسرے کو دینا نہیں بلکہ قانون اور آئین کی روشنی میں سب کے ساتھ ایک جیسا سلوک کرنا ہے۔ جب ہر کسی کو یقین ہو جائے گا کہ قانون سب کے لیے کم و بیش برابر ہے تو یہ جتھے بندیاں ٹوٹنا شروع ہو جائیں گی اور معاشرے کا ہر فرد گروہ کے بجائے قانون کے دائرے میں خود کو محفوظ سمجھنا شروع ہو جائے گا اور اسی وقت درندوں کی یہ بستی مہذب معاشرے کی شکل میں تبدیل ہونا شروع ہو جائے گی۔ سوال یہ بھی ہے کہ آخر کب اور کیسے ایسا ممکن ہو گا؟ اس کا جواب یہی ہے کہ یہ ایک صبر آزما عمل ہے۔

جس طرح ساہیوال کے مجرموں کی بریت پر معاشرے نے شدید ردعمل دیا ہے یہ اس بات کی علامت ہے کہ لوگوں کے ضمیر جاگ رہے ہیں، یہ سلسلہ جاری رہنا چاہیئے۔ جتھے بندیوں اور ان کی چیرہ دستیوں کے خلاف مسلسل عوامی ردعمل ہی دھیرے دھیرے قانون کی بالادستی کو یقینی بنائے گا۔ لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ جمہوریت قائم رہے تاکہ لوگوں کی زبان بندی کا خطرہ ختم ہو جائے اور طاقتوروں پر دباؤ برقرار ہے اور کسی طالع آزما کو خواب دکھا کر اقتدار پر قابض ہونے کا موقع نہ مل سکے۔ ہمارے ساتھ مسلسل المیہ رہا ہے کہ معاشرے کا ضمیر جب ایسے واقعات پر شور مچانا شروع کرتا ہے تو اس کا رخ مسند اقتدار پر بیٹھے ایک شخص یا چند اشخاص کی جانب ہو جاتا ہے اور اس فضا سے فائدہ اٹھاتے ہوئے کوئی طالع آزما شخص براہ راست یا پردے کے پیچھے رہتے ہوئے اقتدار پر قابض ہو جاتا ہے۔

اس کے آنے پر احتجاج ٹھنڈا پڑ جاتا ہے کیونکہ تبدیلی کی امید جاگ جاتی ہے۔ پھر وہ آمر زبانیں بند کرنا شروع کرتا ہے تاکہ اپنے جتھے کو مضبوط کر سکے۔ جتنا اس کا گروہ مضبوط ہوتا ہے اتنا ہی اس کی چیرہ دستیاں بڑھتی جاتی ہیں، کئی برس ضائع کرنے کے بعد اور ساہیوال جیسے بہت سے واقعات رونما ہونے پر دوبارہ معاشرے کا ضمیر جاگنے لگتا ہے، لوگ چیخنے لگتے ہیں اور فضائیں آہ و بکا سے بھر جاتی ہیں۔ اس کے نتیجے میں ایک بار پھر کوئی سیاسی رہنما خود کو امیدوں کا نیا استعارہ بنا کر پیش کرتا ہے اور ایک نیا دائرہ جنم لیتا ہے۔ لوگ احتجاج کرتی زبانوں پر امیدوں کی پٹی لپیٹ لیتے ہیں، غصہ کم پڑنے لگتا ہے اور خوابوں کی اجڑی نگری پھر سے آباد ہونے لگتی ہے۔

یہ رہنما قانون کی حکمرانی کو اپنی منزل بنانے کے بجائے اپنے جتھے کو سب سے طاقتور بنانے کی کوششوں میں مصروف ہو جاتا ہے اور پھر کوئی ماڈل ٹاؤن جنم لیتا ہے، زبانوں پر بندھی پٹیاں کھل جاتی ہیں، ایک بار پھر طیش سے بھری آوازیں فضاؤں میں گردش کرنے لگتی ہیں اور معاشرہ امیدوں کا ایک نیا استعارہ تلاش کرنے لگتا ہے۔

انہی دائروں میں گھومتے گھومتے ہماری کئی نسلیں خوابوں کی دلدل میں اتر کر فنا ہو چکی ہیں۔ اب نئی نسل کو یہی چیلنج درپیش ہے کہ اس نجس اور منحوس دائرے سے کیسے نکلا جائے۔ موجودہ حکومت امیدوں اور خوابوں کے سجے ہوئے گھوڑے پر سوار ہو کر اقتدار کی راہداریوں میں پہنچی تھی، یہ نیا شہ سوار بھی تخت نشیں ہوتے ہی پرانے کھیل کھیلنے میں مصروف ہو گیا، اس کی کوشش ہے کہ کسی طرح تنقید کرنے والے منہ بند کیے جائیں اور احتجاج کرتی آوازیں خاموش کرا دی جائیں۔ قانون کی حکمرانی اس کی بھی منزل نہیں ہے۔ حقیقی تبدیلی کا رستہ حکمران طبقوں پر مسلسل دباؤ قائم رکھنا ہے۔

جس طرح سانحہ ساہیوال کے مجرموں کی بریت پر شور اٹھا ہے، دیگر واقعات پر بھی ایسے ہی آوازیں بلند کرنی چاہئیں۔ تنقید کا رخ سب کی طرف ہو لیکن جس کے پاس طاقت زیادہ ہے، اسی کے خلاف آواز بھی زیادہ بلند کرنی چاہیئے۔ اور یہ سب کو علم ہے کہ پاکستان میں سب سے طاقتور ادارہ کونسا ہے۔ کسی جتھے کا حصہ بننے کے بجائے پاکستان کے طاقتور جتھوں کے خلاف آواز بلند کرتے رہیں۔ یہ شور و غوغا بہت بڑی نعمت ہے، اسے قائم رکھیں کیونکہ اسی صورت میں ہی پیچدار دائروں میں پھیلا یہ سفر اختتام کو پہنچے گا اور ہم ایک مہذب معاشرے کی تشکیل کی طرف قدم بڑھائیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).