ڈیلفی کے شہید دیوتا اور کاٹھ کے گھڑ سوار


ہم محبت اور موت کے دوراہے پر ہیں۔ اسکرپٹ اور واقعے کی منجدھار میں ہیں۔ سفر کی حکمت اور مہم جوئی کے جنون کی کشمکش فیصلہ کن موڑ کی طرف بڑھ رہی ہے۔ خواب اور منصوبے کے اس بحران میں تجزیے کے نصابی آلات کام نہیں دیتے کیونکہ کتاب طاق میں رکھ دی گئی ہے اور بدلاو ¿ کے عناصر نے تلبیس کا نقاب اتار پھینکا ہے۔ آج کچھ ادھر ادھر کے افسانے بیان کریں گے، کچھ شعر کے قرینے اور کسی تمثیل کے سیاق سباق کا ذکر ہو گا ملک کے حالات صحافی کی حدود سے آگے نکل کر قوم کے اجتماعی شعور تک پہنچ گئے ہیں۔ میاں نواز شریف کی صحت کے بارے میں ایک ایک لمحے کی تفصیل قوم تک پہنچ رہی ہے۔ سوچنا چاہیے کہ ایک سابق وزیر اعظم جسے عدالت نے بدعنوانی کے الزام میں معزول کیا۔ جسے اپنی سیاسی جماعت کے منصب سے محروم کیا گیا، جسے قید کی سزا سنائی گئی۔ دشنام کی بلیک ڈکشنری میں کوئی ایسا لفظ باقی نہیں جو نواز شریف کے خلاف برتا نہیں گیا، اور تضحیک کے ترکش میں کوئی تیر نہیں جس سے نواز شریف کو ہدف نہ بنایا گیا ہو۔ ستر برس کے اس سن رسیدہ بزرگ کو تو تاریخ کے حافظے کی پاتال میں فراموش ہو جانا چاہیے تھا۔ واقعہ مگر یہ ہے کہ اس کی سانس کا ہر زیروبم سیاسی منظر پر دہری دھار کے خنجر جیسا نشان چھوڑ رہا ہے۔

ادھر ملک کا سابق صدر بگڑتی ہوئی صحت کے حوصلہ شکن اشاریوں میں عزیمت کے چراغ جلا رہا ہے۔ آصف علی زرداری نے پاکستان کی تاریخ کا طویل ترین میڈیا ٹرائل بھگتا ہے، جرم ثابت ہوئے بغیر بارہ برس قید جھیلی ہے۔ جس نے شریک سفر کی شہادت کے بھونچال میں پاکستان کھپے کے دو لفظوں سے وفاق کو استوار کر دیا تھا۔ جس نے اپنے منصب کے اختیارات وزیر اعظم کو سونپ کر دستور کا پارلیمانی تشخص بحال کیا تھا، جسے 2007 میں بھی ادراک تھا کہ اس ملک میں وفاق اور جمہوریت کی سیاست کرنے والوں کی محضر کی آخری سطر پر کتبے کی مہر لگتی ہے۔ آصف علی زرداری کو ایک چھوٹے اور منقسم صوبے کی سیاست تک محدود نہیں کیا جا سکا، اگر ایسا ہوتا تو اسے پنجاب کی اڈیالہ جیل میں بند کرنے کی ضرورت پیش نہ آتی۔

ایک تیسری سمت سے مولانا فضل الرحمن پیش قدمی کے لئے تیار ہیں۔ مولانا کی سیاسی ذکاوت، زیرک فیصلوں اور تنظیم سازی کی مہارت میں کبھی کلام نہیں رہا لیکن ملکی سیاست کے مرکزے میں اعتماد کی یہ سطح اس سے پہلے دیکھنے میں نہیں آئی تھی۔ حزب اختلاف کے چھوٹے بڑے ٹکڑے جس سرعت سے اس تصویر کا حصہ بن رہے ہیں، مولانا کو خبر ہو چکی کہ ایسے موسم میں تو اشجار میں پھل لگتا ہے۔ خط تنصیف کی دوسری طرف احتساب کا جامہ حریری چاک ہو چکا۔ اہل تماشا کی بد نظری کے لئے اس جادوئی لبادے میں بہت سے رخنے نمودار ہو گئے ہیں۔ معیشت کا پہیا جس کھائی میں اترا ہے، اسے کندھے کا زور لگا کر بھی جادہ مستقیم پر رواں کرنا ممکن نہیں ہو رہا۔ خارجہ پالیسی کے دو امتحان تھے، کشمیر اور افغانستان۔ کامیابی کا پیمانہ یہ ہے کہ ہم صورت حال کی سنگینی سے خائف ہو کر ایران سعودی ثالثی کی چھاؤں میں جا بیٹھے ہیں۔ تو آئیے آپ کو تاریخ اور سیاست کے ایک استاد سے ملواتے ہیں۔

دوسری عالمی جنگ کے بعد نوآبادیاتی نظام کے دن پورے ہو گئے۔ لیکن ہوا یہ کہ ایشیا، افریقا اور لاطینی امریکا میں آزادی کی فصل تیار ہوئی تو نوآزاد اقوام کی افواج برداشت میں اپنا حصہ لینے آ پہنچیں۔ جہاں آزادی کی لڑائی مسلح تھی، وہاں براہ راست نالش ٹھونک دی۔ جہاں مذاکرات کی میز پر آزادی جیتی گئی تھی، وہاں طالع آزمائی کی ٹکسال میں سیاسی قیادت کے لئے نااہلی اور بدعنوانی کے دو سکے گھڑے گئے۔ ہم تو خیر اکتوبر 58ء ہی میں اس امتحان سے دوچار ہو گئے تھے۔ آج اسکندر مرزا کی رخصتی کو 61 برس مکمل ہو گئے۔ اسکندر مرزا یونانی دیو مالا کا وہ ٹروجن ہارس (کاٹھ کا گھوڑا) تھا جس کے پیٹ میں چھپ کر لشکر جرار نے ٹرائے شہر کی فصیل پار کی تھی۔ 1962 میں سات ممالک میں فوجی بغاوت ہوئی۔ لبنان، پرتگال، ترکی اور وینزویلا میں بغاوت ناکام رہی لیکن برما، ارجنٹائن اور شام میں فوج نے اقتدار چھین لیا۔

قومی آزادی کے خواب کی اس بدنما تعبیر کو سمجھنے والوں میں برطانیہ کا سیموئل ای فائنر بھی شامل تھا۔ تاریخ اور سیاست کے اس استاد نے 1962 کے اس برس میں Man on the Horseback کے عنوان سے ایک کتاب شایع کی جو جدید ریاست میں سول ملٹری تعلقات پر کلاسیک کا درجہ رکھتی ہے۔ اس عنوان سے انجم رومانی یاد آ گئے، گھبرائیے نہ دیکھ کے پیدل گھرا ہو…. سیموئل فائنر روشن خیال اور جمہوریت پسند مفکر تھا۔ اس کا کہنا تھا کہ سیاست محض انتظامی ڈھانچوں کے دروبست کا علم نہیں، اسے تاریخ کے تناظر میں رکھ کر سمجھنا چاہیے۔ کوئی تین عشرے بعد سیموئل ہنٹنگ ٹن نے خیال ظاہر کیا کہ سیاست میں پیشہ ورانہ مہارتیں متعارف کرانے سے عسکری مداخلت کو کم سے کم کیا جا سکتا ہے۔ آج ہنٹنگ ٹن کے پیش کردہ نسخے کے اثرات امریکا، یورپ، روس اور بھارت جیسے ممالک کی اس مقبولیت پسند سیاست میں دیکھے جا سکتے ہیں جہاں جمہوریت کے مہین لبادے کی اوٹ میں سرمائے، عصبیت اور عسکریت کی برہنگی چھپائے نہیں چھپتی۔

انجم رومانی سے چلنے والی بات شیکسپیئر تک پہنبچے تو کیا تعجب۔ شیکسپیئر کے کھیل A Midsummer Night’s Dream کا پلاٹ دلچسپ ہے۔ بظاہر ایک بادشاہ کی شادی کا جشن ہے لیکن پس منظر میں پریوں کا ایک جمگھٹا ہے جو صرف بستی کے اہل حرفہ از قسم جولاہا، ترکھان اور بانسری نواز وغیرہ کو نظر آتا ہے۔ اگر ان محنت کشوں کو عوام سمجھا جائے تو جنگل کی پریاں جمہور کا خواب ہیں۔ یہاں نک باٹم نام کے ایک جولاہے کی ایک پری سے ملاقات ہوتی ہے۔ نک باٹم اپنے ساتھیوں میں واپس آتا ہے تو خواب آلود لہجے میں کہتا ہے

I have had a most rare vision. I have had a dream; past the wit of man to say what dream it was.

دودھ اور شہد میں گندھی اور خوشبوؤں میں بسی پری سے ملاقات کر کے باٹم بالکل بدل گیا ہے، وہ لہسن اور پیاز کھانے سے انکار کر دیتا ہے۔ ہمارے سیاسی رہنما بھی ڈیلفی کے دیوتا ہیں، جمہوریت کی جھلک دیکھ لیتے ہیں تو ڈیل سے انکار کر دیتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).