کذب و ریا کے پیروکاروں کے لئے جرات انکار کی دعا


 ایاک نعبد و ایاک نستعین کی تلاوت کے بعد کئے جانے والے وعدے وفا نہ ہ وپائے تو کوئی بات نہیں مگر اس کے بعد دوسری آیت ًلعنت اللہ علی الکاذبینً (جھوٹوں پر اللہ کی لعنت) کو فراموش کر دینے کے بارے میں ہم جیسے کمزور ایمان کے لوگ رائے دینے سے قاصر ہیں۔ پارلیمانی زبان میں جھوٹ کے لئے شایدغلط بیانی کی اصطلاح بھی اہل فہم و دانش نے لفظ ’کذب‘ کی شدت کو تحلیل کرنے کے لئے متعارف کروا دی ہو مگر مجموعی طور پر اونچے و ارفع مقامات سے دیے جانے والے ایسے پیغامات کے مضمرات کو زائل کرنا ممکن نہیں۔

ایک بزعم خویش امیرالمومنین بھی نوے دن کے لئےخود ہی آیا تھا گیارہ سال تک ہر تقریر تلاوت، حمد و ثنا اور نعت شریف سے شروع کرتا تھا جس میں جھوٹ، دھونس، مکاری، ریا، دغا اور فریب سے بھرپور باتیں کرنے کے بعد با جماعت نماز کے لئے پہلی صف میں کھڑا ہوتا تھا۔ شاید تقریر میں حلال جھوٹ کی بدعت بھی ان ہی مرد مومن کی مرہون منت ہے کہ اب کوئی صلوٰۃ پڑھ کر بولتا ہے اور کوئی کلمہ پڑھ کر۔

سرکاری دفاترمیں کسی اور چیز میں باقاعدگی ہو یا نہ ہو مگر نماز کے وقفے میں کوئی بے قاعدگی نہیں ہوتی یا کم از کم اس دوران دفتر سے اٹھ جانے میں کوئی غفلت نہیں برتی جاتی۔ ایسے افراد بھی اس دوران اپنے دفتر سے غائب ہونے میں ہی عافیت سمجھتے ہیں جو نماز تو نہیں پڑھتے مگر دفتر میں بیٹھ کر بے نمازی ہونے کا طعنہ سننے کے متحمل نہیں ہو سکتے۔

ملتان کی ہماری دوست صائمہ ملک نے لکھا کہ ًمیں پاکستان کی سنی لیونی ہوں جو اپنا کام ایمانداری سے کرنے میں یقین رکھتی ہےً۔ صائمہ جی یہاں ایمانداری کا معیار اب بدل چکا ہے ہمارے ہاں بھی کرائے کے قاتل، اسلحہ اور منشیات کے اسمگلر اور رشوت لے کر کام کرنے والے ہی ایماندار رہ گئے ہیں۔ یہاں رات کے اندھیرے میں مال وصول کرکے کوئی جعلی نوٹ نہیں تھماتا اور نہ ہی کمیشن کے پیسے لے کر کوئی غائب ہونے کی کوشش کرتا ہے۔ وعدہ خلافی اور دغا بازی کا چلن بھی شرفا میں عام ہے۔

جب لوگ اپنی راست گوئی کا یقین دلانے کے لئے خدا کا نام لیں اور سننے اور دیکھنے والوں کا شک ان کی دروغ گوئی پر اور پختہ ہو جائے تو راوی کی سچائی ثابت ہونے کے بجائے ایسے لوگوں کے اپنے ایمان کا پتہ ضرور چل جاتا ہے۔ بادی النظر میں مردان با صفا دکھائی دینے والوں کا اپنا باطن میں ایسا ہونا معاشرے کے دہرے معیار اور منافقت کا مظہر ہے۔ اگر یہ چلن جاری رہا تو قسم اٹھانا ہی کسی بات کو جھوٹا ثابت کرنے کے لئے کافی سمجھا جائے گا۔

ہم ایک ایسے زمانے میں جی رہے ہیں جہاں ابلاغ کے ذرائع لامحدود ہیں اور رسائی نہایت سہل۔ ہمیں سچ اور جھوٹ کو ثابت کرنے کے لئے دنوں اور گھنٹوں کا انتظار کرنا نہیں پڑتا بلکہ لمحوں میں دودھ کا دودھ پانی کا پانی ہو جاتا ہے۔ ایسے انقلابی دور میں بھی ڈھٹائی سے غلط بیانی کرتے رہنا وہ بھی ریاست کی نمائندگی کرنے والے اداروں اور شخصیات کی جانب سے ایک ایسے معاشرے کی عکاسی ہے جس کی اخلاقی قدریں زمین بوس ہو چکی ہوں۔

ضرورت کے مطابق جغرافیائی تقسیم سے ریاستیں اور انتظامی و دفاعی ضرورت کے مطابق ادارے بنتے مٹتے رہتے ہیں، یہی تاریخ ہے۔ مگر معاشرے اور معاشرت ایک ارتقائی عمل کے زریعے سے ہی وجود میں آتے ہیں۔ کسی جغرافیائی وحدت میں رہنے والوں کا اجتماعی طرز عمل ایک طرز معاشرت تشکیل دیتا ہے جس کو ہم سماج کہتے ہیں۔ اگر ریاستی اداروں کی نمائندگی کرنے والے دروغ گوئی کے سہارے معاملات چلاتے رہیں تو کیسی طرز معاشرت وجود میں آتی ہے، اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں۔ ایسی طرز معاشرت جس کی بنیاد کذب و ریا پر ہو دوسرے لوگوں کے لئے کتنی قابل اعتبار رہتی ہےا س کا ادراک بھی کسی ملک میں داخل ہوتے وقت جواز سفر (پاسپورٹ) جیب نکالتے ہی سامنے بیٹھے امیگریشن آفیسر کے چہرے کے تاثرات سے لگایا جا سکتا ہے مگر نرگسیت کی بیماری میں مبتلا ہوئی قوم کو اس کا احساس نہیں ہو سکے گا۔

کذب و ریا کے معاشرے میں سچائی پورے معاشرے کے لئے ناقابل قبول ہوتی ہے۔ جس طرح ہر ایک کا اپنا سچ ہوتا ہے اسی طرح ہر ایک کا اپنا جھوٹ بھی ہوتا ہے جس کے لئے بولنے والے نے اپنا جواز گھڑا ہوتا ہے۔ تھانے میں مرے صلاح الدین کا منہ چڑاتا سچ غلط ثابت کرنا اس لئے ضروری ٹھہرا کہ تاریک راہوں میں مارے جانے والوں کی ایسی کئی لاشوں کا حساب دینا اب ممکن نہیں۔ صلاح الدین کے باپ کے منہ سے اپنے بیٹے کو غلط ثابت کرنے کے لئے ان کا سہارا لینا پڑا جن کی امانت اور صداقت پر یقین کر کے ہزاروں لوگ اپنی زندگیاں گنوا بیٹھے ہیں۔

ساہیوال کی سڑک پراپنی انکھوں کے سامنے ماں باپ اور بہن کو گولیوں سے بھون دینے والے چہرے شناخت کرنے کا سچ کئی پردہ نشینوں کے چہرے بے نقاب کرسکتا ہے اس لئے یہ طے ہوا کہ اس سچ کو بھی غلظ ثابت کرنا ضروری ہے۔ لاکھوں کروڑوں لوگوں کے ووٹوں سے منتخب ہونے والے نمائندوں کو صداقت اور امانت میں خیانت کے جرم میں تاحیات گھر بٹھانے والی عدالت کو اس واقعہ کے شواہد اور ثبوت میں کی گئی خیانت خوردبین اور دوربین سے بھی نظر نہ آ سکی۔

عجیب نظام ہے جو سچ حوالات میں بولا جاتا ہے اور عدالت میں جھوٹ میں بدل جاتا ہے اور جو بات نیچے کی عدالت میں سچی ہوتی ہے وہ اوپر کی عدالت میں جھوٹی بن جاتی ہے۔ ہر بار قسم اٹھا کر بولی جانے والی بات سچ سے جھوٹ اور جھوٹ سے سچ بن جاتی ہے مگر کہنے والا جھوٹا نہیں کہلاتا۔ ایسے سچ کو جھوٹ اور جھوٹ کو سچ ثابت کرنے کے جواز فراہم کرنے والے کو وکیل کہا جاتا ہے اور اعتبار کرنے والے کو جج کہتے ہیں۔

انگریز کے بنائے قانون کی ںطر میں ان کے اپنے ملک میں ہر شخص سچا ہوتا ہے جب تک کہ اس پر جھوٹ ثابت نہ ہو۔ مگر اسی انگریز نے ہماے لئے برصغیر میں جو قانون بنا رکھا ہے اس کی نظر میں ہر شخص جھوٹا ہے جب تک وہ ایک پیلے کاغذ (اسٹامپ پیپر) پر اوتھ کمشنر کے روبرو دو گواہوں کی موجودگی میں قسم کھا کر اپنی سچائی کی تصدیق نہ کرا دے۔ گویا قانون کی نظر میں ہم ایک مسلمہ جھوٹے معاشرے کے افراد ہیں یا انسانی معاشرے میں بسنے والے جھوٹے لوگ ہیں جن کو اپنی صداقت کا بار بار قسم کھا کر تصدیق کروانے کی ضرورت پیش آتی ہے۔

چاروں طرف پھیلی کذب و ریا کو ثقافت کا درجہ دیتے معاشرے میں اب سچائی، ایمانداری اور راست بازی جیسے الفاظ نہ صرف متروک ہوئے جاتے ہیں بلکہ ان کا احیاء بھی جرم گردانا جا رہا ہے۔ فرائض منصبی کی ایمناداری سےانجام دہی کے لئے اٹھائے جانے والے حلف سے روگردانی کو بطور کارنامہ قابل فخر و تقلید سمجھتے معاشرے میں سچائی اور دیانت داری کا مفہوم تلاش کرتے ہوئے صرف فیض صاحب کے ساتھ اس دعا میں شامل ہی ہوا جا سکتا ہے ًجن کا دیں پیروی کذب و ریا ھے، ان کو ہمت کفر ملے، جرات تحقیق ملے۔

علی احمد جان

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

علی احمد جان

علی احمد جان سماجی ترقی اور ماحولیات کے شعبے سے منسلک ہیں۔ گھومنے پھرنے کے شوقین ہیں، کو ہ نوردی سے بھی شغف ہے، لوگوں سے مل کر ہمیشہ خوش ہوتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہر شخص ایک کتاب ہے۔ بلا سوچے لکھتے ہیں کیونکہ جو سوچتے ہیں, وہ لکھ نہیں سکتے۔

ali-ahmad-jan has 278 posts and counting.See all posts by ali-ahmad-jan