ماں دیوالی پر بلاول ہمارے لیے کیا لایا؟


کل بلاول بھٹو زرداری کا بڑا جلسہ تھرپارکر کے شہر اسلامکوٹ میں تھا۔ سوشل میڈیا پہ بڑا شور چل رہا تھا، اور پیپلزپارٹی سے جڑا ہر منتخب نمائندہ اپنے اپنے لوگوں میں جا کر، گاڑیاں، کھانے پینے کا سامان پہنچا کر زیادہ سے زیادہ لوگ لانے کی کوشش کر رہا تھا۔ تصویروں میں سے ایک تصویر دیکھی جو کہ گاؤں کے لوگوں کی تھی، وہ اپنے ثقافتی لباس میں ملبوس تھے، دہوتی باندھی ہوئی تھی اور سر پر پگڑی۔ بارش ک طرح مہک رہے تھے۔ بہت ہی رنگین لباس میں اور اپنی سادگی میں بہت خوش۔

جلسے میں مقررین نے عمران خان کی حکومت کو گرانےکے ساتھ یہ بھی کہا کہ بلاول صاحب دیوالی ملنے آپ لوگوں کے پاس آئے ہیں۔ یاد رہے کہ تھرپارکر پاکستان وہ واحد علاقہ ہے جہاں پر ہندو اکثریت میں رہتے ہیں۔ اور اسی علاقے سے سب سے زیادہ ہندو ایم پی ایز، ایم این ایز اور سینٹرز بھی ہیں۔ جیسا کہ یہ جلسہ پوری میرپور خاص ڈویژن کا تھا۔ سو عمرکوٹ، میرپورخاص، سانگھڑ سے لوگ پیپلزپارٹی کے چئیرمن کو  دیکھنے آئے تھے۔ تھرپارکر کے ترقی میں کتنے تھرپارکر کے لوگوں کی ترقی ہوئی ہے یہ ایک لمبی بحث ہے۔ یا پیپلز پارٹی نے سندھ میں لوگوں کو کتنی ترقی دلائی ہے یہ سب باتیں اپنی جگہ ہیں پر اس جلسے میں جو دیوالی سے چار دن پہلے رکھا گیا تھا، جو لوگ اپنے ہرے بھرے کھیتوں کو چھوڑ کر آئے تھے، جلسہ گاہ والا علاقہ بھی ایک کھیت تھا ان کو کیا ملا؟

سندھ کے ہندوؤں نے ہمیشہ اپنے ووٹ پیپلز پارٹی کو دیئے ہیں، پر ان کچھ مہینوں میں ہی کتنی لڑکیاں زبردستی کی شادی کا شکار ہوئی ہیں۔ کتنے باپ اپنی بیٹیوں  کے لیے در بدر گھومتے رہے، کتنی ماؤں کی آنکھیں ابھی تک ساون سے بھری پڑی ہیں، کتنے گھروں میں دیوالی کے دیپ نہیں پر دل جلیں گے۔ بلاول کے صلاح کاروں نے دیوالی کس کے ساتھ منانی ہے یا کیا بات کرنی ہے۔ اس نے کیا کہا اس پر کوئی اعتراض نہیں پر اس پر ضرور اعتراض ہے کہ اسے یہ نہیں سمجھایا گیا کہ دیوالی کا مطلب کیا ہے؟ دھرم اور ادھرم کی جنگ میں دھرم کیسے بھاری ہوتا ہے۔ اسے یہ نہیں سمجھایا کہ کئی مائیں زندہ ہو کے بھی مردہ ہے۔

تھرپارکر ایک پر امن کا علاقہ ہے، پر اس علاقے میں امن کو گولی دو سال پہلے لگی جب دو ہندو بیوپاری بھائیوں کو گولیاں مار کر مارا گیا۔ اس دن سے اس علاقے میں امن کا پنجھی کبھی اس ڈالی کبھی اس ڈالی پر اڑتا رہتا ہے۔ بلاول کو ان کے صلاح کاروں نے یہ نہیں بتایا کہ اس گھر میں اس بوڑھے باپ کے اندر میں اس دن سے اندھیرا بیٹھ گیا ہے جہاں دیپ جلانے کی ضرورت ہے۔ ان کے گھر میں راون نے سب کچھ چھین لیا ہے، وہاں دیپ جلا کے اس کی بچی زندگی کو خیرات میں تسلی دے کے امن کے پنچھیوں کو بٹھانے کی ضرورت ہے۔

میرے اندر گاؤں کے سادہ بندوں کی تصویر بار بار اس خیال کو نوچ رہی ہیں کہ ہم کتنے سادہ دل ہیں۔ تھرپارکر جس میں اسی ایک سال میں سینکڑوں لوگوں نے زندگی کی جنگ کو ہار کر فاقہ کشی کے عالم میں خودکشیاں کر کے چھوٹے اور معصوم بچوں کے ساتھ ساتھ، بوڑھے ماں باپ کو بے دردی سے درد دے کر چھوڑ گئے ہیں، جن کے لیے جینا اور مرنا دونوں مشکل بن گیا ہے، بلاول صاحب کو یہ نہیں بتایا گیا کہ ان میں سے کئی لوگ اپنے گھروں میں قبریں بنا کے آئے ہیں، وہ آئے نہیں پر لائے گئے ہیں، ڈرا کے، دھمکا کے اور انہیں سب کچھ یہ سہنا ہیں ووٹ جو دیئے ہیں۔ بلاول صاحب شہروں میں تو روز بڑے گھروں میں دیوالیاں سجتی ہے، کسی لاچار اور مسکین کے ساتھ بھی دیوالی مناتے اور پوچھتے دیوالی کیا ہوتی ہے؟ اور پھر احساس کی زبان میں سنتے دیوالی کیا ہوتی ہے؟ دیپ کب جلتے ہیں؟ وقت کے راون کو کیسے مارنا ہے؟ کسی کی عزت کیسی بچانی ہے؟ وہ کبیر کے الفاظوں میں میرا کے گنھگھرو باندھ کے تمہیں سناتا کہ لوگوں کو کیسے اپنا بنایا جاتا ہے؟ راجا کے بغیر رعیت کا کیا حال ہوتا ہے؟

بلاول صاحب ریت کے ٹیلے پر تھر کے فروٹ بیچنے والی ان ننھی جانوں کے ساتھ بیٹھ کر پوچھتے کہ تھرپارکر نے کتنی ترقی کی ہے؟ تم اسکول کیوں نہیں گئے؟ تمھارے تن پر میلے اور پھٹے کپڑے کیوں ہے؟ تم اتنے کمزور کیوں ہو؟ آپ اس کے قریب جا کے ان برسوں کی تھکن سمیٹی ہوئی آنکھوں سے پوچھتے؛ تم نے بجلی دیکھی ہے؟ تمہارے آنکھیں ایسی کیوں ہے، تم کتنے دنوں سے سوئے نہیں ہو؟ دیوالی کب ہے اور تم کیسے مناؤ گے؟ تم نے نئے کپڑے کب لیے تھے؟ ان کی تھکن دور ہو جاتی، وہ جو درد کے گیت ہوا کے سنگ اڑاتا ہے وہ تمہیں گا کے سناتا کہ دیوالی کا نام کافی برسوں سے سنتے آئے ہیں، پر قدرت کی رحمت اس سال ہوئی ہے سو اب کے برس اس ساون نے تھرپارکر کے چہروں کو مسکراہٹ سے سجایا ہے۔ سو دیوالی ضرور منائیں گے۔ اور بلاول صاحب وہ اپنے فروٹ تمہیں ہنسی خوشی دے دیتا، کیونکہ اس نے جئے بھٹو کے نعرے کے بدلے میں آج تک کچھ نہیں لیا پر تمھارے سامنے ہاتھ جوڑ کر عزت کی زندگی کی بھیک مانگے گا۔

بلاول صاحب جن بوڑھے لوگوں سے تمہیں ملایا گیا انہوں نے آج تک کچھ نہیں مانگا، آپ کو حکومت نے جو بڑے بڑے آر او پلانٹس لگائے ہیں ان سے پانی نہیں ملا پر لگانے والوں کے گھر سج گئے۔ ان کی تجسس بھری نگہائیں عمران خان کی حکومت کا احتساب لینے سے پہلے سندھ میں تین مرتبہ آئے ہوئی آپ کی حکومت سے یہ سوال پوچھ رہی تھی کہ تھر ڈولیپمینٹ اتھارٹی کے کاغذات آپ کے وزیروں نے کہاں پھینکے ہیں؟ پورے پاکستان کو روشن کرنے والا تھرپارکر خود ابھی تک اندھیرے میں کیوں ہے؟ پاؤں تلے سونا رکھنے والے لوگ خود درد بدر کیوں ہے؟ برسوں سے پانی کی بوند کے لیے تڑپتا تھر ابھی تک کیوں پیاسا ہے؟ ووٹ دینے والی عورتیں تم سے پوچھتیں تھرپارکر میں لڑکیوں کی خواندگی کی شرع صرف 7 فیصد کیوں ہے؟

بلاول صاحب آپ کو تھرپارکر سے ضرور ملایا گیا پر تھریوں سے نہیں ملایا گیا۔ ایک بھاگتا ہوا بچہ جس کے والدین اس کو جلسے میں ساتھ نہیں لے جا رہے تھے، وہ اپنی ماں سے کہہ رہا تھا اس بار ہم تھرپارکر کے لوگوں سے دیوالی ملنے بینظر بھٹو کا بیٹا بلاول بھٹو آ رہا ہے، وہ دیوالی پر ڈھیر ساری خوشیاں دے جائے گا، ماں پرسوں دیوالی ہے۔ اور وہ اپنے باپ کے انتظار میں ریت کے ٹیلے پر کرے گا اور جب شام کے وقت تھکا ہارا باپ گھر پہنچا ہوگا اور اس نے کہا ہوگا ہم جیسے ہی پہنچے بلاول چلا گیا، تو کسی اور نے کہا ہوگا ہم بہت دور تھے نہ اس کی تصویر دیکھ پائے نہ آواز سن پائے، چلو بھگوان بہتر کرے گا تم سو جاؤ کل کھیت جانا ہے۔ اور دور گھونگھٹ میں لپٹی ہوئی اس بچے کی ماں اس ماجرا پر بچے کو لے جا کر اپنے اور بیٹے کے آنسوؤں کو پونچھتی کہے گی بیٹا، ہاں پرسوں دیوالی ہے وہاں سے کیا ملے گا، ہم اپنے آنسووں کو جلا کر اپنے گھر کو روشن کریں گے اور دیوالی منائیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).