دھرنا ڈیوٹی، پولیس اہل کار اور بیگار میں بندھے ٹرک ڈراٸیور


میں روٹین ڈیوٹی کے لیے تیاری کر رہا تھا جب ڈیوٹی محرر کی کال أئی۔ وہ کہہ رہا تھا بابا جی ڈیوٹی پہ مت أنا صبح أپ دھرنا ڈیوٹی کے لیے جا رہے ہیں۔ میں نے یونیفارم اتارا اور اپنی ادھوری کتاب “اقبال کامل” جو کافی دن سے تھوڑی تھوڑی پڑھ رہاتھا اور پوری نہیں ہو رہی تھی مکمل پڑھنے کرنے کے سفر پہ چل نکلا۔ اگلے روز تقریباً دس بجے دن ہم اپنا ضرورت کا چھوٹا موٹا سامان اور ایک ایک دو وردیاں بیگ میں رکھ کر رخت سفر لیے سرکاری بسوں پہ سوار ہوچکے تھے۔

 ہماری اگلی منزل پولیس لائن ضلع ننکانہ صاحب تھی۔ پرانی اور خستہ حال سرکاری بس کی پھٹی سیٹوں پہ جمی گرد ہم نے اپنی قمیضوں کی عقبی جانب کے اضافی کپڑوں سے ہی صاف کی۔ بابائے قوم کے أخری سفر میں ان کو ملنے والی ایمبولینس کی ہم عمر بس ہمیں لے کر پولیس ٹریننگ کالج لاہور سے ضلع ننکانہ کی طرف روانہ تھی۔ دوران سفر بس کی ہیبت ذہن سے نکالنے کے لیے میں نے ایک نظم بھی لکھ ڈالی۔ ضلع ننکانہ سے نفری لینے أئی بس میں بیٹھ کر مجھے ایسا لگا جیسے میں پولیس کالج کے پر کیف صحت افزا اور صاف ستھرے ماحول سے نکل کر رنگ برنگے لباس میں ملبوس قیدیوں سے بھرے کسی دیوہیکل اور جہنم نما بحری بیڑے میں أپھنسا ہوں۔

بس بے سرے ہارن بجاتے اور سیاہ دھواں اڑاتے منزل کی طرف رواں دواں تھی۔ پولیس لائن ضلع ننکانہ صاحب تھوڑے سے رقبے پر محیط چھوٹی سی پولیس لائن ہے۔ جہاں ہمارے پہنچنے سے پہلے ایس۔ پی۔ یو اور پٹرولنگ کی نفری سیم زدہ گراونڈ میں فلک بوس سفیدوں اور ٹاہلیوں کی چھاٶں میں کہیں کہیں اگی گھاس پہ بیٹھی کوئی شاہی فرمان ملنے کا انتظار کر رہی تھی۔ ہم نے بھی بسوں سے اتر کر ادھر ادھر سر چھپانے کو جگہ تلاش کرنا شروع کر دی اور أخر کار محرر أفس کے عقب میں کنٹین کے بالکل سامنے ایک برأمدہ نما کمرے میں جا بیٹھے۔

تقریباً تین گھنٹے انتظار کے بعد ہمیں حکم ملا کہ ہم تھانہ صدر شاہ کوٹ رپورٹ کریں۔ چند لمحوں بعد ہم دوبارہ اسی دردوں کی ماری بس میں سوار تھانہ صدر شاہ کوٹ کی طرف روانہ تھے۔ رات کے کھانے کا وقت نکلا جارہا تھا نہ ہی پولیس لائن میں ہمیں کھانا دیا گیا اور نہ ہی تھانہ صدر میں رات کا کھانا ملنے کے کوئی واضح امکان تھے۔ کیونکہ سننے میں أیا تھا کہ تھانہ صدر شاہ کوٹ ایک دیہاتی تھانہ ہے جہاں قریب قریب کوئی شہر قصبہ یا ہوٹل ڈھابہ ملنے کا دور دور تک کوئی ایک فیصد بھی امکان نہیں۔

یقیناً کبھی اس علاقے میں ڈکیتی راہزنی اور چوری چکاری کی بہت زیادہ واردات رہی ہوگی جس بنا پہ یہاں تھانہ قائم کردیا گیا مگر بدقسمتی سے اس ترقی کے تیزترین دور میں بھی یہ تھانہ بہت سی بنیادی سہولیات سے محروم لگ رہا تھا۔ رات کے وقت جب ہم تھانہ صدر شاہ کوٹ پہنچے تو منظر ہماری امید سے قدرے بھیانک تھا۔ کیونکہ تھانہ کے گیٹ میں بیٹھے سنتری نے سلام لینے سے پہلے أگاہی کاشن دیا ( پائی تسی نوے أئے او سپاں کولوں بچ کے) بھائی أپ لوگ نئے أئے ہو سانپوں سے بچ کے۔

 اب اس بیچارے کو کون بتاتا کہ شیشش ناگ سپولیوں سے نہیں ڈرا کرتے۔ خیر ہم رات کا کھانا کھائے بغیر ہی سو گئے۔ جس کمرے میں ہمیں رہائش ملی میں نے زندگی میں پہلی بار چمگادڑوں کی أواز کو اتنے قریب سے سنا خوش قسمتی سے موسپیل کی شیشی میرے بیگ میں تھی لہذا مچھروں کی گھن گرج دور دور سے ہی سنائی دی۔ مچھروں کے حملے سے کم ازکم میں اور میرے والے کمرے میں سونے والے باقی لڑکے محفوظ ہی رہے۔ تھانہ کے احاطہ میں بڑے بڑے جامن پیپل اور أم کے دیوقامت درخت تھے۔

 تھانہ کے عقبی علاقہ میں دھان کے کھیت جنگلی جھاڑیاں اور گنے کے کھیت تھے۔ رات کے اس پہر تھانہ کے چاروں طرف کھیت فصلیں جنگلی جھاڑیاں دیکھ کر لگتا تھا ہم کسی جزیرہ نمإ علاقے میں أگئے ہیں جہاں کسی بھی وقت باغیوں اور اشتہاریوں کا حملہ ہو سکتا ہے۔ تھانہ کے مین گیٹ کے سامنے چھوٹی سی نہر اور نہر کے کناروں پہ پیپل کیکر اور سفیدے کے برسوں پرانے پیڑوں کے جھرمٹ بھی عجیب منظر پیش کر رہے تھے۔ نہر کے دونوں جانب جرنیلی سڑک پہ ٹرک ٹرالے اور بڑے بڑے کنٹینر کھڑے تھے جو شاید پولیس نے حراست میں لے رکھے تھے۔

کچھ سادہ لوح میلے کچیلے سہمے ہوئے مایوس سے لوگ تھانہ محرر کے دفتر کے باہر زمین پر بیٹھے تھے جو یقیناً ان ٹرکوں ٹرالوں کے ڈرائیور کنڈکٹر ہوں گے انھیں بھی رہائش اور کھانا ملنے کا انتظار تھا۔ میری أدھے سے زیادہ رات احسان دانش پڑھتے گزری۔ جب کبھی مایوسیوں کے بادل گھیر لیتے ہیں تو پھر میں احسان دانش کی کاب جہاں دانش کھول کر بیٹھ جاتا ہوں۔ اس کتاب سے مجھے جینے کا حوصلہ ملتا ہے۔ اس کتاب کا لفظ لفظ شدید بھوک میں لقمہ ہریسہ جیسی انرجی دیتا ہے۔

خیر اللہ اللہ کرکے موذن نے اللہ اکبر کی صدا بلند کی۔ سورج نے اونچے اونچے قدأور مغرور درختوں کی پھیلی شاخوں سے اپنی کرنیں ہر سو پھیلانا شروع کیا۔ میں بھی نماز سے فارغ ہوکر ذکرالہی کرتا نہر کے کنارے جوگر پہن کر انجان علاقے میں صبح کی سیر کو نکل گیا۔ میرے واپس أنے تک فیصل أباد سے میرا ایک دوست رندھاوا میری خبرگیری کو تھانے پہنچ چکا تھا۔ سلام دعا اور رسمی حال احوال کے بعد رندھاوا صاحب نے مجھے اپنی گاڑی میں بٹھایا اور ہم ناشتہ کی تلاش میں نکل پڑے۔

 جب ہم تھانے کی گیٹ سے نکل رہے تھے تو رات والے سادہ لوح ڈرائیوروں نے ہمیں ہاتھ سے رکنے کا اشارہ کیا۔ جب ہم نے گاڑی روکی تو وہ تمام لوگ جو ٹرکوں کے نیچے کنٹینروں کی چھتوں پر لیٹے تھے ہمارے پاس جمع ہوگئے۔ ان میں سے ایک نے کہا۔ سر ہم پردیسی لوگ ہیں رات بھی کھانا نہیں کھایا۔ اب بھی قریب قریب کوئی ہوٹل نہیں ہماری گاڑیوں کی چابیاں منشی صاحب کے پاس ہیں اور ہمیں کوئی بتا بھی نہیں رہا کہ ہمیں کب تک چھوڑ دیا جائے گا۔

ہمارے کھانے رہائش کا بھی کوئی بندوبست نہیں۔ ہماری دیہاڑیاں بھی مررہی ہیں ہم گھر بھی نہیں جا سکتے۔ ہمارا قصور کیا ہے۔ ہمارے چھوٹے چھوٹے بچے ہیں دھرنا تو مہینہ ختم نہ ہوگا تو کیا ہم مہینہ اسی طرح اس جنگل میں پڑے رہیں گے۔ رندھاوا صاحب نے مجھے کہا باباجی أپ ان کے لیے کچھ کر سکتے ہیں؟ میں نے دل میں سوچا میں تو کل سے اب تک اپنے لیے کچھ نہیں کر سکا، ان کے لیے کیا کروں گا۔ میں نے ان لوگوں کو تسلی دی کہ میں ایس ایچ او صاحب سے بات کرتا ہوں۔ اب ہم شاہ کوٹ میں ناشتہ کرنے کے لیے پہنچ چکے تھے۔ میرے دل دماغ میں مولانا صاحب اور انتظامیہ کے لیے ہزاروں سوال تھے مگر میں چاہ کر بھی کچھ نہیں کرسکتا تھا سوائے ایس ایچ او صاحب کی مہربانی سے تھانہ کی حدود میں قائم اورعرصہ سے بند میس چالوکروانے کے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).