درویشوں کا ڈیرا (تعارف اور تاثرات)


زندگی کے تجربات کو ایک خوبصورت لڑی میں پرونا کوئی آسان کام نہیں ہوتا۔ اس کے لئے زندگی کے ساتھ شعوری اٹھکیلیاں کرنے کا ہنر آنا چاہیے۔ کچھ لوگ زندگی بس یونہی گزار دیتے ہیں۔ جب کہ کچھ لوگ زندگی کی سچائیوں میں اتر کر ایسے نایاب موتی حاصل کر لیتے ہیں جو کہ آنیوالی نسلوں کے لئے سنہری حروف بن جاتے ہیں۔ آج میں آپ کو ایک ایسی ہی نایاب کتاب سے متعارف کروانا چاہتا ہوں، جس میں لکھے ہوئے الفاظ آنے والے وقتوں میں (دلچسپ حکایات) کا درجہ حاصل کر لیں گے۔

یہ کتاب میں پہلے بھی کئی بار پڑھ چکا ہوں اور اب کچھ تاثرات لکھنے سے پہلے میں نے اس کتاب کو دوبارہ پڑھا تاکہ میں صحیح اور واضح طور پر اپنا نقطہ نظر پیش کر سکوں۔ یہ کتاب سچ کی تلاش میں نکلے ہوئے دو مسافروں کے خطوط کی صورت میں خواب نامے ہیں۔ ایک مسافر کا نام رابعہ الربا ہے، جو کہ ایک مشرقی لڑکی ہے۔ مشرقی روایات کی امین اور ایک بیدار مغز ادیبہ ہیں۔ زندگی کے اتار چڑھاؤ کو دبے پاؤں، انتہائی سکوت اور خاموشی کے ساتھ اپنے گہرے زندگی کے تجربات کی عینک لگا کر مشاہدہ کرتی ہیں اور پھر شعور اور لاشعور کی رو میں بہہ کر زندگی کی خوبصورتیوں اور بدصورتیوں کو لفظوں کی صورت میں منافقت اور مصلحت کا پہناوا چڑھائے بغیر کاغذ کے اوپر اتار دیتی ہیں، پھر پڑھنے والے کے شعور پر چھوڑ دیتی ہیں کہ وہ جو بھی سمجھنا چاہے خود ہی سمجھ لے۔

مشرقی روایات کی امین اس لڑکی نے ادبی خواب ناموں کی صورت میں مذہبی روایات و فلسفہ، روحانی روایات و فلسفہ اور اپنے زندگی کے تجربات کا ایک ایسا ادبی دسترخوان چن دیا ہے، جس دسترخوان سے کوئی بھی ادبی مسافر اپنی بصیرت کے حساب سے سوچ کی خوراک حاصل کر سکتا ہے۔ ان ادبی خواب ناموں کو اوج کمال بخشنے والے دوسرے ادبی مسافر کا نام ڈاکٹر خالد سہیل ہے، جو کہ ایک ماہر نفسیات اور سائیکاٹرسٹ ہیں۔ ادبی خطوط لکھنے کا خواب خالد سہیل کا تھا جو رابعہ الربا کی وجہ سے پایہئی تکمیل تک پہنچا۔

ڈاکٹر صاحب سات سمندر پار کینیڈا میں جا بسے۔ ان خطوط میں دونوں مسافروں نے مشرق اور مغرب کے درمیان فاصلوں کی دوریوں کو ختم کر کے ایک ایسا شعوری پل تعمیر کیا جسے اس دور کی ادبی کرامت کہا جا سکتا ہے۔ ایک ہی وقت میں اور ایک ہی ادبی کتاب کی صورت میں، پڑھنے والا اپنے شعور کی ذہنی تاروں کو مشرق اور مغرب سے جوڑ کر اپنی زندگی کا گیان حاصل کر سکتا ہے۔ اس کتاب کو پڑھ کر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ڈاکٹر صاحب نے ایک مشرقی اور کم گو لڑکی کو اپنے شعور کی تہہ میں اترنے پر مجبور کیا اور اپنے شعوری سچ کو بغیر کسی رکھ رکھاؤ اور مصلحت کے کاغذ پر اتارنے پر آمادہ کیا۔

ڈاکٹر صاحب چونکہ دماغ کے ڈاکٹر ہیں اور دماغی کیمسٹری کو بڑے اچھے سے جانتے ہیں دماغ کے اوپر پڑی سالوں کی گرد اتار کر سامنے والے کو اپنی ہی شخصیت کے روبرو کر دیتے ہیں اور اس کو مجبور کر دیتے ہیں کہ وہ خود کو خود ہی پہچان کر اپنی تخلیقی منزل کا تعین کر لے۔ ان ادبی خطوط میں بھی انہوں نے اسی ماہرانہ ادبی سٹروک کا استعمال کرتے ہوئے رابعہ کو مشرقی معاشرے کی گھٹن، روایات کی بندشوں، معاشرے کے کو انالحق کے مقام تک لے گئے۔

بس پھر کیا تھا، اس مشرقی لڑکی نے اپنی زندگی کی ادبی ریاضتوں کو اپنے فکری تجربات میں گوندھ کر اس معاشرے کی ہر ایک منافقت کو اپنے لفظوں کا خوبصورت پہناوا دے کر ادبی خطوط کی صورت میں ایک شاہکار تشکیل دے دیا۔ دوسری طرف ڈاکٹر خالد سہیل نے فلسفہ، ادب، سماجیات اور اپنی زندگی کے عملی تجربات کی صورت میں ان ادبی خطوط کا دائرہ وسیع کرتے ہوئے ہمیں حقیقی اور سائنسی دنیا کے روبرو کر دیا۔ اس کتاب کی سب سے بڑی خوبصورتی یہ ہے کہ دونوں مسافروں کے راستے بالکل جدا ہیں لیکن منزل ایک ہے۔

ایک مسافر نے اپنے سچ کو پانے کے لئے مذہب اور روحانیت کا راستہ چنا جب کہ دوسرے مسافر نے مذہب اور روایات کو خیرآباد کہہ کر سائنس اور جدید تحقیقات کا راستہ چنا۔ سب سے خوبصورت بات یہ ہے کہ دونوں ادبی مسافروں نے خطوط کے تبادلہ میں ایک دوسرے کے سچ کا احترام کیا اور دونوں راستوں کی سچائیوں کو پڑھنے والوں کے روبرو کر دیا۔ چوتھا خواب نامہ میں ڈاکٹر صاحب اپنے چچا عارف عبدالمتین کے ساتھ مکالمے اپنے تجربے، مشاہدے، مطالعے اور تجزیے سے اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ سچ، حق، حقیقت اور دانائی کا راز جاننے کے تین راستے ہیں۔

1۔ پہلا راستہ وجدان کا ہے جسے سنت، سادھو اور صوفی استعمال کرتے ہیں۔

2۔ دوسرا راستہ جمالیات کا ہے جسے شاعر اور فنکار استعمال کرتے ہیں۔

3۔ تیسرا راستہ منطق کا ہے جسے سائنسدان استعمال کرتے ہیں۔

آگے چل کر ڈاکٹر صاحب بتاتے ہیں کہ ایک مخلص صوفی، ایک مخلص شاعر اور ایک مخلص سائنسدان ایک دوسرے کے سچ کا احترام کرتے ہیں۔ یہ ایک ایسا خواب نامہ ہے جو سچائی کی سطح کی بڑی جامع تصویر پیش کرتا ہے اور سچ کے طالبوں کو ایک پر خلوص شعوری کنجی عطا کرتا ہے۔ پانچواں خواب نامہ میں رابعہ ایک درویش کے خوبصورت جملے کو یوں بیان کرتی ہے :

”جو کتابیں پڑھتا ہے وہ عالم بن جاتا ہے، جو انسانوں کو پڑھتا ہے وہ درویش بن جاتا ہے۔ “

یہ چھوٹا سا جملہ ہے مگر اس کی حقیقت بہت بڑی ہے۔ زندگی میں اختصار بڑی مشکل سے حاصل ہوتا ہے اور اسی اختصار کو حاصل کرنے کے لئے سچ کے طالب اپنی پوری زندگی تیاگ دیتے ہیں۔ اسی خواب نامہ میں رابعہ معاشرتی گھٹن کو یوں ننگا کرتی ہے :

1۔ رابعہ جس معاشرے کی باسی ہے وہاں عورتوں کی محبت زمین پر کب معتبر ہوئی ہے، وہاں عورت کی محبت کب تعبیر ہوئی ہے۔ وہ تو صرف کھلی اور بند آنکھوں کا خواب ہے۔

2۔ یا درویش! کاش ہم ان دو ٹانگوں کے درمیان سے نکل کر پورے وجود والے انسان بن جائیں تو زمین پہ امن و سکون ہو جائے گا۔

3۔ رابعہ جہاں کی باسی ہے علمی فرعونوں اور فکری بونوں کو بے نقاب کرنے پر مجبور کیا اور رابعہ

وہاں کا ا نسان ذہنی ارتقاء کی منازل طے کرے گا؟ یا پھر آپ کے سماج کی ترقی کے ہی قصوں پر اکتفا کرے گا؟ کیا رابعہ کے سماج میں بھی انسانیت مسکرائے گی یا وہ پیدائشی مسلم ہونے پہ ہی بخش دی جائے گی؟

معاشرتی حبس کو اس قدر واضح انداز میں پیش کرنے کا حوصلہ رابعہ کا ایک قدرتی اثاثہ ہے جو اسے ادبی ریاضت کے بعد حاصل ہوا ہے۔ زندگی کی باریکیوں پر غور کرنے والے ہی تنقید کرنے کا حق محفوظ رکھتے ہیں ورنہ ہمارے معاشرے میں مبلغین کی کمی نہیں ہے جو اپنے ہی طے شدہ کھوکھلے اصولوں کے مطابق زندگی کو سمجھتے ہیں اور ساری عمر انہی اصولوں کی تبلیغ کرتے رہتے ہیں۔ چھٹا خواب نامے میں ڈاکٹر خالد بڑے ہی اختصار اور جامع انداز میں اپنے چار خوابوں کا تذکرہ کرتے ہوئے خوشی کا اظہار کرتے ہیں کہ انہوں نے زندگی میں جو خواب دیکھے وہ پایہ تکمیل کو پہنچے۔

1۔ پہلا خواب: ایک ڈاکٹر، ایک ماہر نفسیات ایک مسیحا بننا تھا تاکہ وہ انسانی ذہن، انسانی لاشعور اور انسانی ذات کی گھتیاں سلجھا سکے اور مسیحائی کر سکے۔

2۔ دوسرا خواب: ایک شاعر اور ایک دانشور بننے کا تھا تاکہ وہ ساری دنیا کے ادیبوں، شاعروں اور فلاسفروں کو پڑھ سکے اور بہت ساری کتابیں لکھ سکے۔

3۔ تیسرا خواب: ساری دنیا کی سیر کرنا تھا تاکہ وہ مختلف ممالک کے شہروں کو دیکھے اور ان کے شہریوں سے ملے۔ وہ ایک مرد جہاں دیدہ بننا چاہتا تھا۔

4۔ چوتھا خواب: دنیا کے چاروں کونوں کے مردوں اور عورتوں، شاعروں، ادیبوں اور فنکاروں سے دوستی کرنا تھا۔

کھلی آنکھوں سے خواب دیکھنا اورپھر ان کو شرمندہ تعبیر کرنے کے لئے تگ و دو کرنا بڑے حوصلے اور جذبے کی بات ہوتی ہے۔ ہمارے سماج میں خواب دیکھنے پر بھی بچپن سے ہی پابندی لگا دی جاتی ہے، شرمندہ تعبیر کرنا تو بڑے دور کی بات ہوتی ہے۔ جبر کے معاشروں میں آزاد نسل پروان نہیں چڑھ سکتی۔ ڈاکٹر خالد کا ایک خوبصورت شعر جو اسی تصور آزادی سے مماثلت رکھتا ہے۔

اپنی پرواز کا اندازہ لگانے کے لئے

اپنے ماحول سے آزاد فضائیں مانگیں

ساتویں خواب نامے میں رابعہ بڑے ہی دبنگ انداز میں معاشرے کے مکروہ اور نجس چہرے سے نقاب اتارتی ہے اور کہتی ہے

( 1 )رابعہ ایک ا یسے معاشرے میں رہتی ہے جہاں اسکوسب کے سامنے ایک منافق زندگی کے رنگین کپڑے ہر وقت ذہنی طور پر پہنے رکھنے ہو تے ہیں۔ وہ کسی سے علمی گفتگو نہیں کرسکتی، کرے گی اور کسی کو سمجھ آگئی تو وہ اس کے خلاف ایک ان دیکھا ایسا

جال بچھادے گا جہاں وہ عورت ہی عورت ہوگی، جسم ہی جسم ہوگی

(2)عورت اس سے آگاہ ہے کہ اسے دانائی کی بات نہیں کر نی۔ اگر انہی لوگوں میں عزت کے ساتھ رہناہے۔ ہاں اگرعزت کے ساتھ نہیں رہنا تو یہاں دانائی ذہنی فحاشی ہے، ادب ذہنی عیاشی ہے، اب عیاش وفحاش عورت کی کیا جگہ ہے؟

ایسامعاشرہ جو عورتوں کو ان کے مقام سے محروم کر دے وہاں زندگی کے تمام رنگ کیسے پنپ سکتے ہیں۔ زندگی تو قوس قزاح کی مانند ہوتی ہے اور قوس قزاح پورے رنگوں کے ساتھ ہی جچتی ہے۔ زندگی سب رنگوں کے ساتھ پوری آب وتاب کے ساتھ پروان چڑھتی ہے۔ یک رنگ معاشرے مردہ اور مفلوج ہو جاتے ہیں سو لہواں خواب نا مہ میں ڈاکڑ سہیل ہماری توجہ زندگی کے اہم موڑ کی طرف دلاتے ہیں

”درویش نے کئی لوگوں سے سن رکھا تھا کہ انسان کو چالیس برس کی عمر کے بعد نئے تجربات نہیں ہوتے۔ پرانے تجربات کی ہی تکرار ہوتی رہتی ہے زندگی روٹین بن جاتی ہے۔ انسان بورنگ ہو جاتے ہیں“

کیا خوبصورت بات ہے کہ زندگی کا ابتدائی خاکہ چالیس سال کی عمر سے پہلے پہلے تشکیل پاجاتاہے۔ لہذا زند گی کے ابتدائی سال بہت اہم کردارادا کر تے ہیں شخصیت کے رخ کا تعین کرنے میں، مگر ہمارے سماج میں یہی ابتدائی سال لاحاصل اور بے مقصدکو ششوں کی نظر ہو جا تے ہیں۔ بے ترتیب معاشروں میں با تر تیب شخصیات پروان نہیں چڑھ سکتی۔ اٹھارویں خواب نامہ میں ڈاکٹر سہیل کہتے ہیں کہ

( 1 )ہرجنیون شاعراور ادیب، فلا سفر اور دانش وراندر سے درویش ہی ہوتاہے

) ( 2 ہر قوم میں دو طرح کے لو گ ہوتے ہیں۔ پہلا گروہ اکژیت میں ہو تا ہے جو روایت کی شاہراہ پر چلتا ہے اور دوسرا گروہ اقلیت میں ہوتا ہے جو اپنے من کی پگڈنڈی پر چلتا ہے۔ اس اقلیت میں شاعر اور ادیب، فنکار اور صوفی، فلا سفر اور دانش ور سبھی شامل ہوتے ہیں۔

) 3 )درویش جانتا ہے کہ تنہائی، خاموشی اور دانائی کا گہرا رشتہ ہے بڑے ہی عمیق اورگہرے انداز میں ڈاکٹر سہیل اپنے زندگی کے تجربات کو بڑے سہل اور عام انداز میں پیش کر تے ہیں۔ زندگی میں رنگینیاں بکھیرنے والوں کا تعلق اقلیتی طبقے سے ہی ہوتاہے اور جب معاشرہ شعوری طور پر بالغ ہو جاتاہے تو یہی اقلیت اکثریت میں بدل جاتی ہے اور زندگی کے رنگ پوری آب وتاب سے چمکنا شروع ہو جاتے ہیں تئیسواں خواب نامہ میں رابعہ لکھتی ہیں

( 1 )ہر سوال ایک ہی کلیے سے حل نہیں ہو سکتا اور نیا کلیہ لگانے سے بھی نتیجہ ایک ہی نہیں مل سکتا

( 2 ) رابعہ کو افسوس ہے جس معاشرے میں وہ رہتی ہے وہاں ڈگریاں بڑھ ر ہی ہیں علم نہیں (

3)رابعہ نے تو یہاں علم کے ابو جہل بھی دیکھے ہیں۔

اس خط میں ایسے لگتا ہے کہ جسیے رابعہ زندگی کے ناخو شگوار واقعات کی تہہ میں ا تر کر اپنے تجربات کے گیان کا ا نتہائی ا ختصار کے ساتھ اظہار کر رہی ہے۔ اس حقیقت میں کو ئی شک نہیں ہے کہ ہمارے معاشرے میں ڈگریوں والے بڑھ رہے ہیں اور شعوروالے کمیاب ہو تے جارہے ہیں اور ڈگر یوں والے علمی فرعون بن کر معاشرے کا ذہنی استحصال کر رہے ہیں۔ بقول ڈاکٹر سہیل کہ رابعہ نثرمیں شاعری کر تی ہے اور شعوراور لاشعور کی رو میں بہہ کر زندگی کی تلخ حقیقتوں کو بیان کرتی ہے۔

اس کتاب کی سب سے بڑی خوبصورتی یہ ہے کہ یہ ایسے شاندار جملوں سے مزین ہے کہ پڑھنے والے کے سامنے تخیلات کا ایک جہان کھل جاتا ہے اور بصیرتوں کے مو تی رقص کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ یہ علم وادب کی ایک ایسی شاہکا ر کتا ب ہے کہ جس کو ترتیب دینے والوں کے خیالات ایک دوسرے سے بالکل ہی مختلف ہیں اور سچائی کو پانے کے راستے بھی جداجداہیں مگر دوستی اور تعلق کے مضبوط بند ہن کی وجہ سے دونوں نے ایک دوسرے کے سچ کو فروغ دے کر نسل انسانی کے تسلسل میں ایک خوبصورت اثاثے کا اضافہ کیا۔

اس کتاب کی سب سے بڑی خاصیت یہ ہے کہ یہ سوچنے پر مجبور کرتی ہے اور سوچنے والوں کے لیے سوچ کے مختلف زاوے کھولتی ہے۔ ڈاکٹر خالد سہیل اور رابعہ الریانے ادبی خطوط کا تبادلہ کر کے ادب کی تاریخ میں ایک نئے شاندار باب کا اضافہ کر دیا ہے ۔ ان خطوط کو پڑھتے ہوئے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جیسے دو لوگ آپس میں بات کر رہے ہوں اور اپنی اپنی بصیرتوں کے راز اپنے تجربات کی بھٹی سے نکال کر یکے بعد دیگرے رقم کر رہے ہوں۔ میں حوالہ دینا چاہتا ہوں کہ ڈاکٹر خالد سہیل کے چند پر مغز الفاظ کا، جس میں وہ کہتے ہیں

”کہ دنیا میں اتنے ہی سچ ہیں جتنے انسان پائے جاتے ہیں اور اتنی ہی حقیقتیں ہیں جتنی کہ دیکھنے والی آنکھیں ہیں“

یہ دنیا ایک حیرت کدہ ہے اور اسی حیرت کد ہ میں زندگی کے بے شماررازپائے جاتے ہیں اور انہی رازوں کو ڈی کوڈ کرکے ہی حقیقی زندگی کا مزہ لیا جا سکتا ہے۔ ڈاکٹر خالد سہیل اور رابعہ الرباء نے اپنی اپنی شعوری کائناتوں کے بھید زندگی کے مختلف رنگوں سے ملا کر پیش کرنے کی کو کشش کی ہے اور زندگی کے تضادات کے دائرے کو مزید بڑھا کر اس میں امکانات کا ایک وسیع جہاں قائم کر دیا ہے ۔ یہ کتاب سوالات در سوالات کا مجموعہ ہے اور جوابات کھوجنے پر مجبور کرتی ہے۔

یہ کتاب اس لحاظ سے بہت اہم ہے کہ نظریاتی طور پر دو بعد المشرقین شخصیات کے درمیان ڈائیلاگ ہے۔ ایک شخصیت مذہب اور روایات کی نمائندہ ہیں۔ جب کہ دوسری شخصیت مذہب اور روایات سے کنارا کر کے سائنسی فلسفہ پر یقین رکھتا ہے۔ مگر دونوں شخصیات نے تضادات کوبھی بڑی خوبصورتی کے ساتھ انسانی دانائی کے ساتھ منسلک کر کے فیصلہ قارئین پہ چھوڑ دیا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).