اتر پردیش کی گلابی لڑکیاں!


عالیہ نے کہا طاقت اکٹھا ہونے میں ہے ۔ اکیلا ہونا بےبسی ، محتاجی اور مظلومیت کو جنم دیتا ہے۔ یہ راز سارے جابر، سارے ظالم جانتےہیں۔ یہ راز سارے مظلوم سارے مجبور بھی جانتے ہیں ۔ پھر فرق کیا ہے؟ فرق اتنا سا ہے کہ ظالم یہ جانتے بھی ہیں اور مانتےبھی ہیں۔ اور مظلوم جانتے ہیں پر مانتےنہیں۔ انہیں بتایا جاتا ہے اتحاد میں برکت ہے ۔ اور برکت کا نزول آسمانوں سے ہوا کرتا ہے ۔ سو ان کی اجتماعی نظریں آسمانوں میں پیوست رہتی ہیں اور ان کے پھیلے ہاتھ معجزوں کے منتظر رہتے ہیں۔ اکشریت کی یہی بے بسی یہی انتظار مٹھی بھر ظالموں کے اقتدار کو طول بخشتا رہتا ہے۔

یہ سلسلہ قدیم ہے۔ مگر کیا یہ کوئی فطرت کا قانون ہے جو نہ بدلا ہے نہ بدلے گا؟

سمپت پال دیوی چیخ کے بولی : ”نہیں! یہ بدل سکتا ہے۔ ہم اسے بدلیں گے”

ہندوستان کی ریاست اتر پردیش کے ضلع باندہ میں رہنے والی سمپت پال دیوی ہر روز ایک پدر سری نظام میں عورتوں پہ ہونے والے جنسی تشدد کو دیکھتی تھی۔ عورتوں کے ساتھ بھیڑ بکریوں جیسا سلوک، عورت کا وجود گالی، گھر والے کے ہاتھوں مار کھانا رسم، اونچی آواز میں بولنا گناہ، اپنی پسند کا اظہار پاپ، اور بے زبان کولہو کے بیل کی طرح صبح سے شام تک ایک سے دائروں میں گھومتے رہنا ہی پُنےتھا بس۔ یہی کارِ ثواب تھا۔

سمپت پال دیوی اور زور سے چیخی : ”نہیں! بس اب اور نہیں!”

وہ سوچنے لگی یہ تھانہ اور کچہریاں وہ جگہ نہیں جہاں عورت ذات کی شنوائی ہو سکے۔ جہاں سے کسی پسےطبقے کو انصاف میسر ہو۔ قانون اور عدالت تو طاقتوروں کی لونڈیاں ہیں۔ کسی کی طرف کیوں دیکھا جائے پھر۔ جو بدلنا ہے تو پھر خود ہی بدلنا ہے۔ اپنی زنجیریں خود ہی توڑنی ہوں گی۔ کہ اکثر پاؤں کی زنجیریں کھولنے کے بہانے آنے والے مردوں کی نظریں بھٹک کر کہیں اور چلی جاتی ہیں اور وہ زنجیریں کھولنے کی بجائے ایک اور زنجیر کااضافہ کر جاتے ہیں۔

 سمپت پال دیوی نے گلابی ساڑھی پہنی ہاتھ میں ڈنڈا اٹھایا اور ان عورتوں کو اکٹھا کرنا شروع کیا جو کسی نہ کسی طرح کے گھریلو یا جنسی تشدد کا شکار تھیں۔ سمپت پال دیوی کے ساتھ بغاوت کرنے والی خواتین گلابی ساڑھیاں پہنتی ہیں اوراس تحریک کا نام گلاب گینگ ہے۔ یہ گلابی لڑکیا ں عورتوں کے خلاف ہونے والے تشدد اور ہندوستان میں پدر سری نظام کے خلاف ایک طاقتور آواز کے طور پہ ابھری ہیں۔ 2014 میں الجزیرہ کی ایک رپورٹ کے مطابق اس گینگ کی ممبرز کی تعداد چار لاکھ تک پہنچ چکی تھی جس میں عورتوں کے ساتھ کئی مرد بھی شامل ہو چکے تھے۔

گلابی گینگ عورتوں کے خلاف تشدد، کم عمر شادیوں، جبری شادیوں اور حکومتی اداروں میں کرپشن کے خلاف جدوجہد میں مشغول ہے۔ اپنی اس تحریک میں یہ کسی سرکاری یا غیر سرکاری ادارے کی سرپرستی لینے کی بالکل حامی نہیں۔ ہاتھوں میں ڈنڈا اٹھائے کسی بھی شکایت پر یہ خود موقعِ واردات پر پہنچ جاتی ہیں اور وہاں انصاف کر کے اٹھتی ہیں۔

گلابی گینگ کی بڑھتی طاقت کا اندازہ اس سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ اکژ مرد حضرات بھی اپنے مسائل کے حل کے لئے ان سے رابطہ کرتے ہیں۔ بیوہ اور ضعیف خواتین کی مالی مدد ہو یا کسانوں میں غلے کی تقسیم ، بچوں کی جبری مزدوری کا مسلؑہ ہو یا عورتوں کے خلاف گھریلو تشدد گلابی گینگ ایک بہت منظم انداز میں ان تمام مسائل کو حل کرنے اور فوری انصاف کی فراہمی میں ریاست کے متبادل ادارے کے طورپر ابھرا ہے۔ اس گینگ میں شامل ہونے والی لڑکیوں کو باقاعدہ اپنے دفاع کی تربیت دی جاتی ہےاور ڈنڈے کے استعمال کا فن سکھایا جاتا ہے۔ صرف یہاں تک نہیں اس گینگ کی رکن خواتین معاشی طور پر خود مختار ہونے کے لئے باقاعدہ کھیتی باڑی کرتی ہیں یا اپنی مدد آپ کے تحت بنائے گئے چھوٹے چھوٹےاداروں میں کاروبار کرتی ہیں۔ ان کاروباروں سے آنے والی آمدن اجتماعی ہوتی ہے۔

صرف بارہ سال کی عمر میں شادی کی بھٹی میں جھونک دی جانےوالی سمپت پال دیوی آج دنیا بھر میں خاموشی سے ظلم کی چکی میں پسنےوالی عورتوں کے لئے ایک مثال ہے۔ وہ چیخ کر کہتی ہے: ”جو سمجھے نہ باتوں سے۔۔۔۔اسے سمجھاؤ لاتوں سے” ۔

یہ آخری سطریں لکھتے میں سوچ رہا ہوں کہ ہمارے سماج میں ایسی مثالیں کیوں نہیں ملتی؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).