بلوچستان تعلیمی مافیا کے نرغے میں


بلوچستان میں تعلیمی اداروں کی تباہی کے اصل ذمہ دار بلوچستان کے نالائق سیاسی قائد ہیں۔ جو کبھی اپنی منصبی ذمہ دار یاں لینے کو تیار نہ ہوئے یا پھر اپنے اردگرد شاطر لوگوں کے بہکاوے میں اگر ان کی سفارشات کے مطابق تعلیمی اداروں کے اہم عہدوں پر تعیناتیاں کیں اور یوں ایک خلا پیدا ہوا اور اس کا فائدہ نظام میں موجود لابیوں کو ہوا جنہوں نے نظام کے اندر اپنے کالے کرتوتوں کے ذریعے اپنی جڑوں کو مزید مستحکم کیا۔

ایچ ای سی کی فراخدلانہ فنڈنگ بلوچستانی یونیورسٹیوں کو درسگاہوں کے بجائے شاہ جہان کے محلات کی طرز تعمیر پر لے گئی۔ کوئی بھی اگر کسی یونیورسٹی کا دورہ کرنے جاتا تو انتظامیہ تعلیم کے بجائے ان کو بلڈنگ دکھانے میں مشغول رکھتی اور یوں بے خوف سی فضا میں سب کی نظریں بلڈنگ پر رہیں یا کیمروں پر رہیں جبکہ کیمروں کی نظریں سب پر رہیں۔ بلوچستان یونیورسٹی کی افسوسناک خبر نے جہاں دیگر لوگوں کو دکھی کررکھا ہے وہیں مجھے بھی دکھ کے ساتھ ساتھ پریشانی ہورہی ہے کہ کس سوچے سمجھے منصوبے کے تحت بلوچستان میں خواتین کی تعلیم پر حملہ کیاگیا جس کو شاید اب لوگ اصلاح کی جانب لیجانے کی بجائے مزید بگاڑنے میں لگے ہوئے ہیں۔

بلوچستان میں خواتین کی واحد یونیورسٹی سردار بہادر خان یونیورسٹی میں وائس چانسلر کی پوسٹ پر بلوچستان یونیورسٹی کے ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ کی ایسوسی ایٹ پروفیسر ڈاکٹر ساجدہ نورین کو وائس چانسلر تعینات کردیا گیا ہے۔ ڈاکٹر ساجدہ نورین سابق وائس چانسلر بلوچستان بریگیڈیئر (ر) آغا گل کے دور میں 2002 میں بلوچستان یونیورسٹی میں بطور لیکچرار تعینات کی گئیں لیکن آغا گل کی شفقت تھی کہ جس خاتون کو پڑھائی کے لئے تعینات کیا گیا تھا اس سے پڑھائی کا کام لینے کے بجائے اس کو فیکلٹی ٹیچرز ڈویلپمنٹ سینٹر بلوچستان یونیورسٹی کا انچارج بنادیا گیا اس پوسٹ پر اگرچہ تعیناتی کے لئے پی ایچ ڈی لازمی تھی لیکن وی سی کے لئے درکار عمر ریلیکس کرنے کی طرح سب رولز ریلیکس ہوئے اور یوں وہ پہلے سے یونیورسٹی میں موجود درس و تدریس والے سینئرز پروفیسرز و لیکچرز کے علم میں اضافے کے لئے کم عمری میں یہ انچارج بنا دی گیئں اور پھر بلوچستان حکومت کے پائٹ کے ادارے کے تحت ان کو انگلینڈ ایک ڈپلومہ کے لئے بھیجا گیا اور پھر قسمت کی دیوی مہربان ہوتی گئی۔

بلوچستان یونیورسٹی کے سابق رجسٹرار نعیم فاروقی ریٹائرمنٹ کے بعد ایک پرائیویٹ یونیورسٹی جناح وویمن یونیورسٹی کراچی کے وائس چانسلر بنے اور یوں لندن والے ڈوپلومہ پر ان کو ان کی یونیورسٹی میں پی ایچ ڈی کرنے کے لئے داخلہ مل گیا۔ اور اسی ڈپلومے کی حیثیت کے خلاف بلوچستان یونیورسٹی انتظامیہ کو کسی نے تحریری شکایت بھی کر رکھی ہے۔ وہ واپس آئیں تو اپریل 2019 میں سابق وی سی نہ صرف ایسوسی ایٹ پروفیسر کے عہدے پر ترقی دی بلکہ ان کو ڈائریکٹر کے اہم ترین عہدے کا عارضی چارج بھی دے ڈالا۔

اب وائس چانسلر کو لگانے والی سرچ کمیٹی کا ذکر کیاجائے تو وہ ذرا مختلف ہے۔ یہاں تعیناتی میں بہت سارے معاملات کو بائی پاس کیا گیا ہے۔ حیران کن بات تو یہ ہے کہ کسی بھی وائس چانسلر کے لئے کم از کم عمر کی حد 50 سال ہونی چاہیے کیونکہ 25 سال ان کی تعلیمی زندگی میں گزرتے ہیں 8 سال وہ مزید اپنی اعلی تعملیی ڈگریاں حاصل کرنے گزارتے ہیں اور اس کے بعد وہ ٹیچنگ اور بعد میں ڈپمارمنٹ میں ایڈمنسٹریٹشن کا تجربہ حاصل کرنے کے لئے ہیڈ بنا دیے جاتے ہیں۔

وی سی کی تعیناتی میں ایچ ای سی کے وضع کردہ رولز کو یکسرروندا گیا۔ سینئرترین امیداورں کو نظرانداز کرکے ایک جونیئر امیدوار کو اہمیت دی گئی ہے۔ جبکہ یہاں پر وی سی کے لئے تعیناتی کی حد عمر بھی کم کی گئی ہے اور 40 سال رکھی گئی ہے اور جس خاتون کو وی سی لگایا گیا ہے ان کے نام کی سرچ کمیٹی نے سرے سے سفارش بھی نہیں کی تھی۔ لیکن ان کا نام شامل کروایا گیا۔ سرچ کمیٹی کو جس اہلیت کو دیکھنا ہوتا ہے ان میں وائس چانسلر کو درس و تدریس میں اچھی شہرت کا حامل یا انتظامی معاملات میں منفرد حیثیت کا بھی ہونا چاہیے اور یونیورسٹی لیول پر سینئر پروفیسر ہو۔

وائس چانسلر کا تقرر سینٹ کی سفارشات کی بنیاد پر کیا جاتا ہے۔ سینٹ ایک سرچ کمیٹی کی تشکیل کرتا ہے جو اس عہدہ کے لئے موزوں امیدوار کا چناؤ کرتی ہے۔ یہ کمیٹی دو رکنی ہوتی ہے جو معاشرے کے نمایاں افراد ہوتے ہیں جن میں سے ایک اس کمیٹی کا کنوینر ہوتا ہے۔ اور چانسلر ان کو نامزد کرتا ہے۔ دو مشہور پروفیسر جو سینیٹ کے اراکین نہ ہوں اور درس و تدریس سے وابستہ ہوں۔ جب تک وائس چانسلر کا تقرر نہیں ہو جاتا یہ سرچ کمیٹی قائم رہتی ہے۔

سرچ کمیٹی کی جانب سے تجویز کردہ نام پر سینیٹ غور کرتی ہے اور ترجیحات کی بنیاد پر تین افراد کا پینل چانسلر کو اپنی سفارشات کے ساتھ بجھواتی ہے۔ صرف وی سی کی نہیں بلکہ خلاف قانون اسی یونیورسٹی میں پرو وائس چانسلر کے عہدے پر ڈاکٹر صبا کو تعینات کیا گیا جو ایک جوئنر اسسٹنٹ پروفیسر ہیں جن کو ایڈمن میں صرف تین ماہ کی نوکری کا تجزیہ ہے جس کو بعد میں گورنر سیکرٹریٹ نے واپس لے لیا۔

اہل علم دانش اور وطن سے محبت کرنے والے اس معاملے میں مداخلت کرتے ہوئے بلوچستان کی تعلیمی پسماندگی کو مزید ہوا دینے والے عوامل اور قوتوں کا سدباب کرتے ہوئے اپنا کردار ادا کریں اور اس تعیناتی کو کالعدم قرار دے کر ایک با اخیتار سرچ کمیٹی بنا کر اس کی سفارشات کے تحت نئی اہل و قابل شخصیت کو تعینات کیا جائے تاکہ کہ بلوچستان یونیورسٹی سکینڈل کے بعد عوام کا یونیورسٹیوں پر گرتا ہوا اعتماد بحال ہو۔ نہ کہ مزید پریشانی کی وجہ یہ تعیناتی بنے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).