خرابا ، جہاں کپتان نوازشریف کی قیمت ایک ہو


تذکرہ غوثیہ حضرت سید غوث علی شاہ پانی پتی کے ملفوظات و حالات کا بیان ہے۔ اس کتاب کی تالیف حضرت کے مرید مولانا شاہ گل حسن نے کی جبکہ ترتیب مولانا اسمعیل میرٹھی نے فرمائی،بڑی سبق آموز حکایتوں سے بھر پور کتاب ہے۔ ایک حکایت ہے گرو اور اس کا چیلا سفر کرتے کرتے‘ منزلیں مارتے ایک شہر میں پہنچے۔ شہر میں ہر چیز ایک روپے کلو تھی۔ دیسی گھی اور بناسپتی گھی دونوں کی قیمت ایک روپیہ تھی۔ گاجر ایک روپے کلو اور سیب بھی ایک روپے میں کلو۔ گورو نے چیلے سے کہا یہاں سے فوراً کوچ کرنا چاہیے چیلا رنگ رنگ کے کھانے اور مٹھائیاں ایک ہی نرخ پر کھا کھا کر خوب موٹا تازہ ہو رہا تھا۔ اس نے ضد کر کے گورو کو بھی روک لیا۔

ایک روز کی بات ہے۔ شہر کے مرکزی چوک میں لوگوں کا ہجوم تھا۔ چیلا تجسس کے مارے آگے بڑھا۔ اسے معلوم نہیں ہو رہا تھا کہ ماجرہ کیا ہے۔ صورت حال کا قریب سے جائزہ لینے کے لئے جونہی اس نے مجمع میں سر گھسایا ایک رسی اس کے موٹے تازے گلے میں ڈال دی گئی۔ معلوم ہوا بادشاہ عدالت لگائے بیٹھا تھا۔ قتل کا مقدمہ درپیش تھا۔ جرم ثابت ہو چکا تھا۔ مگر اس کا پھندا قاتل کی گردن سے بہت بڑا تھا۔ پتلی سی گردن اس پھندے میں محفوظ تھی۔ بادشاہ وہ گردن ڈھونڈ رہا تھا جس پر پھندا فٹ آ جائے۔ اتفاق سے چیلے کی موٹی تازی گردن اس میں فٹ آ گئی۔ چیلا رونے چلانے لگا۔ جب جان لیا کہ اب جان بخشی محال ہے تو آخری خواہش کے طور پر اپنے گورو سے ملنے کی درخواست کی۔ گورو کو بلایا گیا دونوں اس مصیبت پر روئے۔

پھر گورو نے کہا دیکھو میں کیا کرتا ہوں۔ گورو بادشاہ سے کہنے لگا کہ عالیجاہ اس چیلے کو چھوڑ دیں اور مجھے پھانسی دیدیں۔ بادشاہ نے پہلے اس بات کو نظر انداز کیا۔ بعد میں سوچا کوئی کسی کی خاطر کب مرتا ہے۔ ضرور کوئی خاص وجہ ہے جو گورو مرنے کی آرزو کر رہا ہے‘ بادشاہ نے گورو سے کہا کہ وہ کیوں چیلے کی جگہ مرنا چاہتا ہے۔ گورو نے بادشاہ کے کان کے قریب منہ لیجا کر بتایا کہ آج کے دن‘ اسی مقام پر جو شخص اس پھندے سے پھانسی پائے گا وہ بنا حساب جنت میں داخل ہو جائے گا۔بادشاہ کو اپنے بے شمار گناہ یاد آنے لگے۔ فوراً پھندا گلے میں ڈال کر جلاد کو اشارہ کیا۔ اگلے لمحہ بادشاہ کی روح پرواز کر گئی۔

گورو نے جلدی سے چیلے سے کہا میں نہ کہتا تھا کہ جس شہر میں کھرے کھوٹے‘ سچے جھوٹے‘ عمران خان اور نواز شریف کی قیمت ایک ہو وہاں نہیں رہنا چاہیے۔

آپ نے کبھی باغ جناح میں چھ فٹ چوڑے پروں والی چمگادڑیں دیکھی ہیں؟ انہیں سنہری گردن والی چمگادڑیں کہا جاتا ہے‘ سارا دن الٹا لٹکتی ہیں۔ شام کو شکار کرتی ہیں۔ ہماری نرسری پر پام کے ننھے منے پودوں پر خارپشت نے حملے شروع کر دیے۔ قریب ہی ماند تھی۔ تین چار ڈرم پانی انڈیل دیا مگر خارپشت باہر نہ نکلی۔ اس نے غالباً مدت تک گہرائی میں کھدائی کی اور پھر بلندی کی طرف ٹھکانہ بنا لیا۔ سارا پانی ماند کے اندر نشیبی حصے میں جمع ہوتا رہا۔ خارپشت محفوظ رہی۔ کیا آپ نے کبھی کنگ فشر دیکھا۔ ہدہد جیسا سیاہ اور چمکتی چاندی جیسے خوشنما دھبوں سے سجا ہوا کنگ فشر اپنے گھر کی حفاظت کرتا ہے۔ گھر سے محبت کیا ہوتی ہے یہ کسی طوطے کو دیکھ کر معلوم ہو گا۔

آپ درخت یا دیوار میں بنے گھونسلے میں ہاتھ ڈالیں وہ آپ کی انگلیاں اپنی تیز چونچ سے کاٹ ڈالے گا۔ میں نے ایک چھوٹا سا کتا پال رکھا تھا۔ وہ جیسے جیسے بڑا ہوتا گیا گھر سے وفاداری بڑھتی گئی۔ طبعی عمر پوری ہونے پر مرا تو سر ہمارے دروازے کی چوکھٹ پر دھرا تھا۔ آنکھیں بند تھیں گویا اجنبی قدموں نے جونہی آگے بڑھنے کی کوشش کی یہ غضبناک ہو کر جاگ اٹھے گا۔ بیا کا گھونسلہ دیکھنے کے قابل ہے۔ سرکنڈوں کے درمیان دلدلی علاقوں میں نرسل کے نرم پتوں کے ساتھ بیا اپنے گھونسلے لٹکا دیتی ہے۔ چھوٹی سی چڑیا سرکنڈوں کے باریک لمبے پتوں سے گھونسلے کی دیوار بنتی ہے ۔

گیلی مٹی چونچ میں لاکر اندر گھونسلے کو لیپتی ہے۔ کیا آپ نے کبھی کوے کے گھونسلے کے قریب جانے کی جرات کی ہے؟ ہر جاندار کو اپنا گھر‘ اپنا مسکن‘ اپنی دھرتی اور اپنا ملک عزیز ہوتا ہے۔ اتنا عزیز کہ وہ اس کے لئے جان تک دینے پر تل جاتا ہے۔مجھے لگتا ہے میں نرسل کے نازک پتوں سے بندھے گھونسلے میں بیٹھی بیا چڑیا ہوں۔ ہر آن دھڑکا۔ ہمسایہ سانپ ادھر کا رخ نہ کر لے۔ کوئی شکاری شست نہ باندھ لے۔ بہت پڑھا۔ یہی سمجھ میں آیا کہ جن معاشروں میں انصاف ہوتا ہے۔ امیر غریب میں قانون تمیز نہیں کرتا۔ کسی کے لئے انصاف کا ترازو ڈنڈی نہیں کھاتا وہ معاشرے استحکام حاصل کرتے ہیں۔

قانون کی بالادستی حریم شاہ اور مریم نواز کے لئے ایک ہوتی ہے۔عمران خان نے ظلم کیا یا وہ استعمال ہو گئے بہرحال پاکستان کی نوجوان نسل نے ہر بدعنوان کا محل جلانے اور ملک کو انقلاب سے دھونے کا جو خواب سجا رکھا تھا وہ تبدیلی کے پرامن وعدوں پہ اعتبار کر بیٹھا۔ تحریک انصاف سن لے۔ ملک میں انصاف نہیں ہو رہا۔ کیوں نہیں ہو رہا‘ کون نہیں کر رہا یہ بات اہم نہیں۔ حکمران طبقات کا اتحاد ریاست دشمنی پر اتر آیا ہے۔ غریب بے گناہ ہو کر بھی جیلوں میں مر رہے ہیں۔ امیر گناہ گار ہیں مگر سارا نظام ان کی رہائی کے لئے بے تاب۔

عمران خان نے تحریک انصاف بناتے وقت وعدہ کیا تھا کہ وہ بلا امتیاز احتساب کریں گے اور لاوارث ریاست کو لوٹنے والے لٹیروں سے دولت واپس لیں گے۔ وزیر اعظم بننے کے بعد انہوں نے کشمیر کا سفیر بن کے اس کی آزادی کے لئے جدوجہد کا وعدہ کیا۔ گزشتہ ایک سال میں جتنے سورج نکلے وہ پرامید دکھائی دیے۔ پھر کشمیر کے معاملے پر حملے کا منصوبہ تیار ہوا۔ ایک انتشار پسند جتھہ مارچ اور دھرنے پر بضدہے۔

مظفر آباد میں تین دن پہلے خود مختار کشمیر کے حق میں ریلی نے یقینا مودی کو خوش کیا ہے۔ دوسری طرف احتساب کے نٹ بولٹ کھولنے والے مستری بھی سرگرم ہو رہے ہیں۔ عمران خان! اس قوم کو بادشاہ چاہیے۔ جو مرغن کھانے کھا کر سوتا رہے۔ اسے مستقبل تعمیر کرنے والا لیڈر نہیں چاہیے۔ مجھے ڈر ہے کہ پاکستان اس شہر میں ڈھل رہا ہے جہاں گدھے گھوڑے۔ عقلمند بے وقوف‘ گاجر‘ سیب‘بناسپتی دیسی گھی اور عمران خان و نواز شریف کی قیمت ایک ایک روپیہ ہو گئی ہے۔ یہاں بے گناہ چیلوں کی گردنوں میں پھندے پڑے ہیں اور وہ کسی ہوشیار گورو کا راہ دیکھ رہے ہیں۔ اپنے ملک، اپنے گھونسلے کیلئے فکرمند بے وارث اور مفلس کا خدا مالک ہوتا ہے… نردھن کے دھن گردھاری۔

بشکریہ روزنامہ نائنٹی ٹو


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).