حکومت شغلیہ، ریاست مدینہ اور رب کا انتباہ


ظلم رہے اور امن بھی ہو کیا ممکن ہے تم ہی کہو۔ سوچ ‘تدبر’ فکر اور تصّور خام خیالیوں کو جنم دیتی ہے پہلی بار پاکستان کی دھرتی پر صاف نظر آرہا ہے۔ سات دہائیوں پر مشتمل تاریخ کے سبق اتنے طویل تو نہیں جن سے کچھ سیکھا نہیں جاسکتا۔ سیکھنے پر قوم اتر آئے تو پھر دہائیاں تو کیا صدیاں بھی کم پڑجاتی ہیں لیکن سیکھے گا کون اورسکھائے گا کون یہی نوحہ ہے اور یہی المیہ ہے۔ عنان حکومت جن کے ہاتھوں میں ہے وہ ببانگ دہل کہہ رہے ہیں ہماری ٹیم اچھی نہیں ہے  ہم میں اہلیت کی کمی ہے بلکہ ہم اہل ہیں ہی نہیں اورجو ان سے پہلے تھے ان کے بارے میں یہ کہہ رہے تھے انہوں نے ملک کو تباہ کیا یہ تو ہم ہیں جو اس ڈوبتی ناؤ کو پار لگائیں گے۔

ناؤ پار تو نہیں لگ رہی البتہ ہچکولے ضرور کھا رہی ہے۔ یاد ہے کسی کو مولانا صاحب کے والد مرحوم بھی ایک بار نکلے تھے حکومت کے خلاف اور رونا یہی ایک تھا کہ انتخابات میں دھاندلی ہوئی ہے۔ مہینوں مذاکرات کے دور ہوئے لیکن ہوا کیا۔ کیا ان کی احتجاجی تحریک کامیاب ہوئی تھی۔ کیا ملک کو فائدہ ملا تھا۔ کوئی خاص فائدہ تو نہیں ملا تھا سمجھنے ہی کی تو دیر ہے لیکن  یہ سیاستدان ہیں جو سمجھنے سے قاصر ہیں۔

 آج وہی تماشہ لگانے کی تیاری دوبارہ عروج پر ہے یعنی کہ ہم تاریخ کے کوڑادان کا ڈھکنا کھبی نہیں کھولیں گے۔ تلخ واقعات سے سیکھنے والے تو ہیں نہیں البتہ انہی واقعات کو فخر سے دہرانے والے ضرور ہیں۔ ہماری تاریخ کا بھیانک لمحہ ایک ہی تو رہا ہے جس لمحے سیاستدان نے مذہب کارڈ اور پاکستان کارڈ کا استعمال شروع کیا ہے۔

کون  اپنی محبتوں کا یقین از خود دلاتا ہے اور کون خود کو بغیر پوچھے راہ حق کا مسافر گردانتا ہے۔ ڈرامہ عجیب ہے ہر کردار خود کو ہی سچا ثابت کرنے پر تلا ہوا ہے۔

سوچنے کی دقت برداشت کیجیئے ابھی کل ہی خان صاحب نے مولانا کے دھرنے پر بات کرتے ہوئے کہا کہ ان کے پیچھے بیرونی ہاتھ ہے۔ پتا تو چلے کون سا بیرونی ہاتھ؟ بائیس کروڑ انسانوں کی بستی میں محب وطن انسانوں کی کمی تو نہیں۔ پتا چلے تو اس ہاتھ کو توڑ نہ ڈالیں۔ مولانا کی یلغار تو اس سے بھی زیادہ بھیانک ہے۔ موصوف بھی کچھ ایسا ہی راگ خان کے بارے میں الاپ رہے ہیں۔

تاریخ بھلانے والی چیز تو ہے نہیں تبھی تو آج کی نسلیں چند دہائیاں  پہلے رونما ہونے والے واقعات کو فراموش نہیں کر پا رہی۔ ماضی قریب کے دریچوں میں جھانکنے سے شاید یہ پردے ہٹ جائیں۔ جھانک کر دیکھیئے بے نظیر بھٹو پر نواز شریف نے الزام لگایا تھا کہ یہ بھارت کی ایجنٹ ہے۔ کس لئے ایسا کہا تھا موصوف نے۔ صرف اقتدار تک رسائی ہی تو مقصد تھا اور پھر جب بے نظیر بھٹو کی موت ہوئی تو ببانگ دہل کیا یہ دہائی نہیں دی تھی  کہ آپ کا مشن میں پورا کروں گا۔

پاکستان سے محبت کے پیمانے کیا ہیں؟ کوئی اس کی تشریح بھی تو کریں۔  یہ کون ہے جو اللہ کے قریب ہے۔ اس دھند بھرے تماشے میں عام لوگوں کے لئے یہ سمجھنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔

انصاف مظلوم کے در پر دم توڑ رہا ہے اور یہ آج کا نوحہ نہیں سات دہائیوں کا نوحہ ہے اور شاید یہ نوحہ نوحہ  ہی رہے۔ فی الحال اگر صرف موجودہ حکومت کا رونا رویا جائے تو کافی ہوگا۔ آنے سے پہلے جھوٹ اتنا زیادہ بولا گیا تھا کہ ہر بات پر سچ کا گمان ہوتا رہا۔ معصوم بچوں کو زدوکوب کیا گیا اور لاشوں کی بے حرمتی کی گئی۔ مائیں چیختی رہی اور باپ دردرکے دھکے کھاتے رہے لیکن شنوائی کہیں پر بھی تو نہیں ہوئی۔ابھی کل ہی کی داستان ہے ساہیوال میں جن بچوں کے سامنے ان کے والدین کو گولیوں سے بھون دیا گیا انصاف کی حکومت میں ملزموں کو شک کا فائدہ دیا گیا۔کہاں ہے وہ سابق جج جو انصاف مٹھی میں لے کر گھومتا رہا۔

 نسلیں تماشہ دیکھ رہی ہیں کہ ان کے بڑے کون سے کارنامے سر انجام دے رہے ہیں اور بڑے صرف طاقت کے نشے میں مست ہیں۔ فارغ بیٹھے تھے وقت ملا تو حکمران بن کر شغلیہ حکومت کرنے میں مصروف ہوگئے۔ ساہیوال واقعہ پر شہریار آفریدی کی گونج چارسو سنی گئی تھی لیکن نتیجہ “وہی ڈھاک کے تین پات “۔

روزروشن کی طرح سب کچھ بھلایا جاسکتا ہے لیکن مدینہ کی ریاست جو حکمرانوں کی عاجزی اور رعایا کی تابعداری کی وجہ سے قائم ہوئی  تھی اور جس نے کفر کے ایوانوں پر لرزہ طاری کیا تھا کا اب مذاق اڑایا جارہا ہے۔ یہ توہین نہیں تو اور کیا ہے۔ کیسے کیسے لوگ تھے جو کپڑوں کے پیوند خود سیتے تھے اور گرم دھوپ میں پتھر سرہانے رکھ کر آرام کا عیش کیا کرتے تھے۔ کیا یہ اُن جیسے لوگ ہیں اور اوپر سے مذہب کا لبادہ جنہوں نے اوڑھ رکھا ہے ان سے سوال کا حق تو بنتا ہے کیا ان کی زندگی کا تھوڑا سا بھی موازنہ اللہ کے محبوب کے سیرت کے ساتھ یا صحابہ کے ساتھ  کیا جاسکتا ہے۔ خود تو پیٹ بھر کر آرام دہ گاڑیوں میں گھومو پھرو اورعوام جن کی قسمتوں میں بس یہی لکھا جا چکا ہے کہ وہ ہر ایک کو سنتے رہے ورغلاؤ۔

 سننے میں آرہا ہے کہ مولانا صاحب کے دھرنے کے لئے کروڑوں روپے جمع ہوچکے ہیں۔ ارے کوئی تو سوچ لیں یہاں ہر تیسرا شخص بھوکا ہے ، بیمار ہے لاچار ہے۔ کیا ان کے لئے اس میں کوئی حصہ نہیں بنایا جاسکتا تھا۔ کیا صرف اقتدار کی غلام گردشیں ہی تمام مسائل کا حل ہے۔

ہر ایک اپنا الو سیدھا کر رہا ہے لیکن میرا رب سب کچھ دیکھ رہا ہے۔ وہ کسی کو شک کا فائدہ نہیں دیتا۔ وہ بادشاہوں کا بادشاہ ہے۔ اس کی عدالت جب لگے گی تو رائی برابر نیکی  برائی ہر چیز کا حساب ہوگا۔ یہ بظاہر نظر آنیوالی رحمتیں جو وبال جان بنی ہوئی ہیں رب کی طرف سے انتباہ ہے لیکن سمجھنے سے قاصرجو ہیں ہم کیسے سمجھ سکتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).